ایک زمانے میں ہندوستان پر انگریز بہادر حکومت کرتے تھے۔ اُس وقت یہ روایت عام تھی کہ جب بھی کوئی تہوار ہوتا یا انگریز حاکم بیمار ہوتا تو مقامی نواب، اونچی پگڑیوں والے سفید پوش، جاگیردار اور بڑے بڑے بنئے اُس علاقے کے انگریز بہادر کمشنر کو مبارک باد دینے یا عیادت کرنے اُس کے گھر جاتے۔ کمشنر ہاؤس کے باہر ایک کونے میں مبارک باد دینے والوں یا تیمارداری کرنے والوں کے بیٹھنے کے لئے سٹول اور بینچ وغیرہ رکھے جاتے۔ علاقے کے تمام معززین تیار ہوکر صبح سویرے کمشنر ہاؤس کے قریب اُس احاطے میں پہنچ جاتے۔ سخت گرمی ہوتی یا سخت سردی، موسمی حالات سے بے نیاز یہ معززین انگریز کمشنر صاحب کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے چپ چاپ وہاں بیٹھے رہتے۔ سورج زمین سے نکل کر اپنا سفر شروع کرتا اور اپنی منزل کے درمیان پہنچ کر عین سروں پر آجاتا لیکن یہ وفادار معززین باادب باہوشیار وہیں بیٹھے رہتے اور انتہائی احترامی نگاہوں سے کمشنر ہاؤس کے مرکزی دروازے کو تکتے رہتے۔ ہندوستان کے طول وعرض پر پھیلی پیار محبت کی دھرتی پر ظلم کرنے والے اور خون بہانے والے یہ طاغوتی طاقت کے بھوت کمشنر ہاؤس کے اُس احاطے میں موم کی طرح نرم، پھولوں کی طرح نازک اور معصوم لڑکی کی طرح محبت کی گڑیا بنے ہوئے نظر آتے۔ انہیں گرمیوں کے سخت پسینے یا سردیوں کی برف جما دینے والی سردی کی بھی پرواہ نہ ہوتی۔ کئی گھنٹوں کے انتظار کے بعد ایک دیسی غلام کمشنر ہاؤس کے برآمدے سے دوڑتا ہوا باہر آتا اور مرکزی گیٹ کراس کرکے ان مقامی کالے معززین کے پاس پہنچ جاتا۔ سب اُسے دیکھ کر تعظیم سے کھڑے ہو جاتے اور ہاتھ باندھ لیتے۔ سب کی نظریں اورسر زمین کی طرف جھک جاتے۔ یوں لگتا کہ اُن کے سامنے دیسی غلام نہیں بلکہ خود انگریز بہادر کمشنر کھڑا ہے۔ دیسی غلام اعلان کرتا کہ ’’انگریز بہادر کمشنر صاحب نے آپ سب کا یہاں آنا قبول کرلیا ہے‘‘۔ دیسی غلام کا یہ فقرہ مکمل ہوتا تو وہاں موجود تمام معززین کے چہرے خوشی سے کِھل جاتے۔ وہ آپس میں گلے ملتے، مٹھائیاں تقسیم کرتے اور ایک دوسرے کو مبارک بادیں دیتے ہوئے کہتے کہ وہ سرخرو ہوگئے۔ پرانے انگریز معاشروں میں بھی انسانیت سوز خوشامد کے حوالے ہوں گے لیکن سترویں اور اٹھارویں صدی میں نہ جانے انگریزوں نے کس پیر کی درگاہ پر جاکر کون سا تعویذ حاصل کیا یا کون سا کیمیکل ایجاد کیا کہ اپنی انگریز سوسائٹی میں حکومتی معاملات میں خوشامد اور پروٹوکول جیسی بدبختی کو جلاکر بھسم کردیا۔ انگریز ہندوستان سے چلے گئے لیکن رسمِ خوشامد نبھانے والی اعلیٰ نسل پیچھے چھوڑ گئے۔ اس نسل نے اتنے بچے دےئے کہ سانپ کے بچوں کی تعداد کوبھی مات ہوگئی۔ اب تو یہ حال ہے کہ ’’جس طرف آنکھ اٹھاؤ انہی کی تصویراں ہے‘‘۔ اِن دنوں نواز شریف صاحب اپنے علاج کے لئے لندن میں ہیں۔ سب نے سیاسی اختلاف بھلاکر اُن کی صحت یابی کی دعا کی جوکہ اچھی بات ہے۔ میری کئی تحریروں میں نواز شریف صاحب سے اختلاف ہوتا ہے لیکن میرایہ فرض تھا کہ اُن کی صحت یابی کے لئے پرخلوص دعا کروں۔ دعا کرنے کے بعد میری دلی خواہش تھی کہ میں بھی لندن جاکر صاحبِ اقتدار وزیراعظم کی تیمارداری کروں۔ میری یہ خواہش پوری نہ ہوسکی کیونکہ میں بیس کروڑ عام آدمیوں جیسا ایک عام آدمی ہوں جن کے پاس بہت کم وسائل ہیں مگر میں کیا کروں کہ لندن کی اڑان بھرنے والے پرندوں کو حسرت سے گنتا اور پہچانتا رہتا ہوں۔ اِن میں سے بیشتر پرندے وہ ہیں جو سردی اور گرمی میں اپنے ریجن بدل لیتے ہیں۔ وزیراعظم بہادر صاحب کی تیمارداری کے لئے بہت سے پردہ نشین لندن ہسپتال گئے۔ اِن میں سے صرف چند کو مریض وزیراعظم بہادر صاحب تک رسائی ملی، باقی بلڈنگ کے باہر احاطے میں ہی کھڑے ہوکر حاضری رجسٹر پر دستخط کرکے آگئے۔ مکھن کی راہوں پر چلنے والے اِن ناموں کو پردے میں ہی رہنے دیا جائے تو بہتر ہوگا کیونکہ ’’پردہ جو اٹھ گیا تو بھید کھل جائے گا‘‘۔ البتہ اس آمدورفت سے پاکستان کے عام آدمی کو وزیراعظم صاحب کے روزمرہ معمولات کی خبریں ملتی رہیں۔ مثلاً یہ کہ آئی سی یو کے بعد کمرے میں شفٹ ہوئے تو گھر سے آئے مرغی کے شوربے اور بینگن کے سالن کھائے۔ مثلاً یہ کہ پاکستان سے گئے کچھ تیمارداروں کو حسین نواز نے افطار ڈنر دیا جس میں ایک سینئر صحافی حسبِ عادت اپنی گفتگو میں پھلجھڑیاں چھوڑتے رہے۔ حالانکہ اُن کو اپنی عمر کے اس آخری حصے میں جگت بازی کی بجائے جنرل یحیےٰ کی شان میں ’’مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی‘‘ جیسے لکھے گئے قصیدوں پر افسوس کرنا چاہئے۔ کسی بیمار کی مزاج پرسی کرنا اچھاعمل ہے لیکن پاکستان کا ایک عام آدمی سوچتا ہے کہ یہ اچھا عمل صرف وزیراعظم کے لئے ہی کیوں کیا گیا؟ اِن میں سے کتنے ہیں جو ’’عبدالستار ایدھی‘‘ جیسے عظیم انسان کی عیادت کے لئے گئے ہوں؟ کیا اب بھی خود وزیراعظم فون پر ایدھی صاحب کی خیریت نہیں پوچھ سکتے؟ کاروباری وزیراعظم جمع تفریق کرتے تو پتہ چلتا کہ لندن جاکر عیادت کرنے والوں نے جہاز کے ٹکٹ اور چند دنوں کی رہائش وغیرہ پر ذاتی کثیر رقم خرچ کی۔ اگر حکومتی معاملات ای میل، وڈیو کانفرنس اور سکائپ وغیرہ پر لندن سے چلائے جاسکتے ہیں تو تیمارداری کے لئے انفارمیشن ٹیکنالوجی سے فائدہ کیوں نہیں اٹھایا جاسکتا؟ ملک کے تمام اضلاع یا کم از کم پنجاب اور اسلام آباد کے اضلاع میں ڈی سی او کے دفاتر میں نئے آئیڈےئے کے حامل ’’ای عیادت‘‘ کے بوتھ قائم ہو جاتے جہاں سے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ذریعے لندن وزیراعظم کی ’’ای عیادت‘‘ کی جاسکتی۔ اس طرح وزیراعظم لندن آنے والے خواہش مندوں کو سفری اخراجات پر خرچ ہونے والے کروڑوں روپے کا زرمبادلہ ایک فنڈ میں جمع کرنے کا حکم دیتے۔ اس فنڈ سے کراچی میں بلدیہ ٹاؤن کے مکینوں کو رمضان شریف میں پینے کا صاف پانی ضرور مل جاتا۔ اس فنڈ سے اسلام آباد کے سب سے بڑے ہسپتال PIMS میں ناکارہ ایم آر آئی جیسی انتہائی ضروری مشینوں کی جگہ نئی مشینیں خریدی جاسکتیں یا کم از کم اس فنڈ کو ایدھی سینٹر میں ہی دے دیا جاتا لیکن رسمِ خوشامد نبھانے والی اعلیٰ نسل کو یہ سب کچھ پسند نہ آتا۔ اسی لئے میری بھی دلی خواہش تھی کہ میں لندن جاکر صاحبِ اقتدار وزیراعظم کی تیمارداری کروں۔ میری یہ خواہش پوری نہ ہوسکی کیونکہ میں بیس کروڑ عام آدمیوں جیسا ایک عام آدمی ہوں۔ اگر جان کی امان پاؤں تو وزیراعظم صاحب سے عرض کروں ’’کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے‘‘ کہ:
جھکنے والوں نے رفعتیں پائیں
ہم خودی کو بلند کرتے رہے