تھوڑا عرصہ بیتا، مسلم لیگ ن کے لئے پیپلز پارٹی کی پالیسی دورنگی تھی۔ ایک میں سندھ کا رنگ جھلکتا تھا، دوسرے میں پنجاب کا کلر نمایاں تھا۔ مسلم لیگ ن کے کسی ایشو پر کوئی بات کرنی ہوتی یا کوئی ردعمل دینا ہوتا تو پیپلز پارٹی سندھ کی قیادت کا لہجہ کسی حد تک سنجیدہ ہوتا جبکہ اُسی ایشو پر پیپلز پارٹی پنجاب کی قیادت کا نخرہ اکثر تہذیب سے باہر نکل جاتا اور پنجاب والے دلیل کی بجائے ہاتھ ن لیگ کے گریبان میں ڈالنے کے لئے آستینیں چڑھا لیتے۔ اگر 2014ء سے دھرنے، جوڈیشل کمیشن اور دوسرے سیاسی معاملات پر پیپلز پارٹی سندھ کے رہنماؤں مثلاً آغا سراج درانی، مولا بخش چانڈیو، شہلہ رضا اور شیری رحمان وغیرہ کے مسلم لیگ ن کے بارے میں بیانات دیکھیں تو گھیراؤ جلاؤ اور مارو کی بجائے صرف تنقیدی ہوتے۔ البتہ پیپلز پارٹی سندھ کی نفیسہ شاہ کا مسلم لیگ ن کے لئے لہجہ بے حد زہریلا ہوتا مگر اُس میں بھی گفتگو کو وزنی بنانے کے لئے کچھ نہ کچھ حوالے ضرور شامل کئے جاتے۔ دوسری طرف پیپلز پارٹی پنجاب کی قیادت جن میں اعتزاز احسن، قمر زمان کائرہ اور منظور وٹو وغیرہ شامل تھے کا مسلم لیگ ن کے لئے موڈ بہت کڑوا ہوتا۔ پیپلز پارٹی پنجاب کے سابق رہنما راجہ ریاض تو مسلم لیگ ن کے لئے ’’زمزمہ توپ‘‘ تھے۔ یہاں یہ سوال ذہن میں آتا کہ پاکستان کی دوسری سیاسی جماعتوں کی طرح پیپلز پارٹی کی پالیسیوں اور لائحہ عمل کے بارے میں فیصلے ’’شخصی فیصلے‘‘ کے ماتحت ہوتے ہیں یعنی ’’کنٹرولڈ پالیسیاں‘‘ ہوتی ہیں۔ مطلب یہ کہ پیپلز پارٹی کی کشتی کے بادبانوں کا رخ آصف علی زرداری کے ہاتھ میں تھا توپھر مسلم لیگ ن کے لئے پیپلز پارٹی سندھ اور پیپلز پارٹی پنجاب کی قیادت کا رویہ مختلف کیوں تھا؟ پیپلز پارٹی کی یہ دورنگی پالیسی چند مہینوں سے یک رنگی ہورہی ہے۔ پیپلز پارٹی سندھ کا رنگ پیپلز پارٹی پنجاب کے کلر کے ساتھ مل گیا ہے۔ مسلم لیگ ن کے لئے جس زبان کا استعمال پیپلز پارٹی پنجاب کی قیادت کرتی تھی اُسی لہجے کی جھلک اب پیپلز پارٹی سندھ کی قیادت اور مرکزی قیادت میں بھی نظر آتی ہے۔ اس کی دلیل کے لئے بلاول بھٹو کی رٹی رٹائی شعلہ بیان تقریروں کا حوالہ دیا جاسکتا ہے۔ موجودہ انتخابات کے بعد پیپلز پارٹی نے نواز شریف سے استعفیٰ کا کھلم کھلا مطالبہ نہیں کیا تھا لیکن اعتزاز احسن اور قمر زمان کائرہ کی طرف سے پنجاب میں کھیلی جانے والی سیاسی شطرنج کی چالوں کی پیروی کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے نواز شریف کے استعفیٰ کے مطالبے کا کھڑاک کردیا۔ بلاول بھٹو کی اس بڑھک پر شاید مسلم لیگ ن نے اندرونِ خانہ آصف علی زرداری کو وفاداری کی غیرت کا احساس دلایا تو پیپلز پارٹی سندھ کی طرف سے کچھ بیانات سامنے آئے کہ ’’پیپلز پارٹی ایسا کوئی استعفیٰ نہیں چاہتی‘‘۔ یہ مفاہمتی بیانات مسلم لیگ ن کے لئے تپتی دوپہر میں بادل کا ٹکڑا ثابت ہوئے لیکن ایسا بادل جوخشک تھا اور مینہ برسائے بغیر ہی گزر گیا۔ آصف علی زرداری نے دبئی میں میڈیا ٹاک کرتے ہوئے مسلم لیگ ن پر لگنے والے کرپشن کے الزامات کو آڑے ہاتھوں لیا۔ یوں لگ رہا تھا کہ پنجابی آصف علی زرداری بول رہے ہیں۔ اسی روےئے کا سلسلہ آگے بڑھنے لگا۔ بلاول بھٹو نے تخت لاہور اور تخت رائیونڈ پر براہ راست ڈرون اٹیک شروع کردےئے۔ چونکہ اِس وقت سب سیاست میڈیا اور ٹاک شوز پر کھیلی جارہی ہے لہٰذا مسلم لیگ ن کے بڑے مخالف یعنی پی ٹی آئی کے لئے یہ بات قابل سکون ہو گی کہ پراپیگنڈے کی موجودہ جنگ میں پیپلز پارٹی پی ٹی آئی کی طرح ہی مسلم لیگ ن کے مورچوں پر گولہ باری کرنا شروع کر چکی ہے۔ مسلم لیگ ن کے لئے یہ امر ویسے ہی بے حد تکلیف دہ ثابت ہوا ہوگا جیسے آرام دہ بستر پر لیٹے لیٹے اچانک کسی کو بستر میں اٹکی سوئی زور سے چبھ جائے۔ یعنی جب بلاول بھٹو اور شیخ رشید میں چاچا بھتیجے کی محبت پروان چڑھنے لگی تو پرویز رشید بھی بلبلا کر بولے کہ ’’بلاول بھٹو کو شیخ رشید کی زبان نہیں بولنی چاہئے‘‘۔ وہ شاید بھول گئے کہ جنگ اور محبت میں سب کچھ جائز ہوتا ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ پیپلز پارٹی نے ایسی کروٹ کیوں لی جس کے نیچے مسلم لیگ ن آگئی۔ اس کو سمجھنے کے لئے پیپلز پارٹی کے بیانات کی سیاسی تاریخ کا مختصر جائزہ لینا ضروری ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو سکندر مرزا کے ذریعے ایوب خان کے قریب ہوئے تو اُس وقت کے مطلق العنان ایوب خان کو اپنا سیاسی باپ کہہ دیا۔ جب باپ بناکر سارے ممکنہ فائدے لے لئے اور محسوس کیا کہ فطری ٹائم لائن کے مطابق ایوب خان کمزور ہورہے ہیں تو اُن کو لات ماردی۔ مشرقی پاکستان کے شیخ مجیب الرحمٰن کے ساتھ مل کر جمہوریت کو آگے بڑھانے کی بات کی لیکن جب شیخ مجیب الرحمٰن نے جمہوری میدان جیت لیا تو ذوالفقار علی بھٹو نے ڈھاکہ میں اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کرنے کی صورت میں پیپلز پارٹی کے اراکین کو ٹانگیں توڑ دینے کی دھمکی دی۔ بینظیر بھٹو 1986ء میں خفیہ ملاقاتوں کے نتیجے میں پاکستان آئیں۔ انہوں نے ہی جنرل پرویز مشرف سے اپنے خفیہ معاہدے کی خلاف ورزی شروع کی۔ گویا ایک مخصوص مدت کے بعد پیپلز پارٹی اپنے ہی سیاسی وعدے کو خود ہی توڑ دیتی ہے۔ مسلم لیگ ن کو اقتدار میں آئے تین برس گزر گئے۔ پیپلز پارٹی کو معلوم ہے کہ اُن کے لئے پنجاب میں اپنا حصہ وصول کرنا لازمی ہے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ آنے والے وقت کو منصوبہ بندی کے تحت گزارا جائے۔ اس سیریز کی ابتداء آزاد کشمیر کے موجودہ انتخابات سے ہوچکی ہے جہاں بلاول بھٹو مسلم لیگ ن کو پنجابی طرز پر للکارتے نظر آئے۔ اُن کا تازہ بیان کہ ’’موجودہ بجٹ پنجابستان کا ون یونٹ بجٹ ہے‘‘ قمر زمان کائرہ کو بھی چکرا گیا اور انہوں نے بلاول بھٹو کو ایسا نہ کہنے کی نصیحت آموز گستاخی بھی کردی۔ اگر کوئی سیاسی لیڈر ایسا بیان سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے بارے میں دیتا تو مقامی ردعمل کی توقع کی جاسکتی تھی لیکن پنجاب میں ایسا کچھ نہیں ہوسکتا۔ قیام پاکستان کے وقت مشرقی پنجاب کے سکھوں کو خاص سازشی منصوبے کے تحت تعصبانہ اقدامات پر اکسایا گیا لیکن قیام پاکستان کے بعد مغربی پنجاب میں علاقائی پہچان کی روایت نہیں پڑی۔ یہاں کے پنجاب والے دائیں بائیں دیکھے بغیر بس اپنا سامان ہی ڈھوتے رہتے ہیں۔ بہرحال ہماری سیاست میں جمہوریت صرف اپنے اقتدار کا ہی نام ہے۔ اس لئے اگلے انتخابات میں سب چھوٹی بڑی جماعتیں اپنے اپنے انداز میں جمہوریت کے نام پر پنجاب میں مسلم لیگ ن کا شکار کرنے کی کوشش کریں گی