لاکھوں میں تنخواہیں لینے والے اینکر خواتین وحضرات کو ڈھیروں مبارکیں۔جدید ترین ماڈل کی قیمتی گاڑیوں میں اپنے چینلزکے دفاتر پہنچ کر وہاں کے وارڈ روب سے برانڈڈسوٹ اور ٹائیاں نکال کر لگانے کے بعد ایئرکنڈیشنڈ اسٹوڈیوز میں بیٹھ کر کرپشن-کرپشن کے خلاف انہوں نے کئی برسوں سے جودہائی مچارکھی ہے، اس کے نتائج سامنے آنا شروع ہوگئے۔ پارسائی فروشوں کے پیغام نے ہمارے نوجوانوں کے دلوں میں آگ لگادی ہے۔ وہ کسی بھی سیاست دان کو دیکھ کر اس پر آوازیں کستے ہیں۔ اسے مارنے کو دوڑتے ہیں۔سیاست میں رہتے ہوئے اب بھی اگر اپنی جان بچانے کی کوئی راہ باقی رہ گئی ہے تو وہ تحریک انصاف میں شامل ہوکر پاک صاف ہوجانا ہے۔ اسی جماعت سے ایک ملتا جلتا برانڈ ’’پاک سرزمین پارٹی‘‘ کے نام سے کراچی میں بھی متعارف ہوچکا ہے۔ مصطفےٰ کمال کی چلائی ہوئی ایک ہٹی ہے۔ وہاں پہنچ کر سرنگوں کردیں تو انیس قائم خانی کسی بلدیہ فیکٹری میں لگائی آگ کا ذمہ دار نہیں سمجھا جاتا۔’’ اُمید کی کرن‘‘ بن جاتا ہے۔پارسائی فروشوں کی بھڑکائی ہوئی آگ کا نشانہ محض سیاست دان ہی نہیں رہے۔ توجہ اب’’ لفافہ‘‘ صحافیوں کی طرف بھی مبذول ہورہی ہے۔ سوشل میڈیا پر طعن وتشنیع تو پرانی بات ہوگئی۔ اب کسی ’’انقلابی‘‘ جماعت کا جلسہ یا جلوس ہو تو اس جماعت کے غول بڑے جارحانہ انداز میں ’’لفافہ‘‘ صحافی کو اکیلا کرکے پھینٹی لگادیتے ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ تمام تر باہمی اختلافات کے باوجود کسی ایک صحافی پر حملہ پوری صحافی برادری پر حملہ شمار ہوتا تھا۔ ہم سب متحد ہوکر صحافیوں کو تشدد کا نشانہ بنانے والوں کے خلاف کھڑے ہوجایا کرتے تھے۔ صحافی مگر اب صحافی نہیں رہے۔ اپنے اپنے اداروں کے ویسے ہی غلام بن گئے ہیں جیسے بھٹہ مالکوں کے عمر بھر کے لئے خریدے ہوئے مزدور۔ انہیں اپنے مالکوں کو ہر صورت Ratingsمہیا کرتے ہوئے خوش رکھنا ہے۔ برادری گئی بھاڑ میں۔ ہر صحافی کو اپنی بقاء کی جنگ اب بالکل اکیلے رہتے ہوئے لڑنا ہے۔ دیکھتے ہیں ہم میں سے کتنی ڈھیٹ ہڈیاں افراتفری کے اس ماحول میں صحافت کے شعبے میں اپنا وجود برقرار رکھ سکتی ہیں۔
اپنے ہنر کو بڑی محنت کے ساتھ سیکھتے ہوئے شاید اب صحافت کی ویسے بھی ضرورت نہیں رہی۔ سمارٹ فون آچکے ہیں۔ ان کی وجہ سے مارکیٹ میں آئے ہیں نام نہاد Citizen Journalists۔ وہ کسی بھی شخص کے بارے میں جو چاہے بولتے ہوئے ایک Footageبناکر اسے انٹرنیٹ پر Postکرسکتے ہیں۔ ایسی اول فول پوسٹ ہوجائے تو انٹرنیٹ جہادیوں کا ایک غول ہر صحافی کو وہ فوٹیج بھیج کر بڑی رعونت سے معلوم کرنا شروع ہوجاتا ہے کہ ’’بکاؤ‘‘میڈیا اس فوٹیج کو اپنے چینل پر دکھانے کی جرات کیوں نہیں دکھارہا۔گزشتہ چند دنوں سے مجھے بھی ایسی ہی ایک فوٹیج بار بار بھیجی گئی۔ اس میں پیپلز پارٹی کے ان دنوں میں لندن میں مقیم ایک رہ نما شرجیل میمن کو پاکستانی سیاستدانوں کی کرپشن سے اُکتایا کوئی شخص فٹ پاتھ پر روک کر غلیظ ترین مغلظات سے نوازتا ہے۔ مجھ سے مطالبہ ہوتا رہا کہ میں اس فوٹیج کو اپنے ٹی وی پروگرام میں دکھاؤں۔میں تمام تر احتیاط کے باوجود جبلی طورپر بزدل نہیں ہوں۔ صحافت کا مگر پہلا اصول یہ ہے کہ یہ معلوم ہوکہ آپ کو فوٹیج کس نے بھیجی ہے۔ اس کا نام اور اتہ پتہ کیا ہے تاکہ وہ فوٹیج دیکھنے کے بعد اگر آپ کے ذہن میں کوئی سوال اٹھیں تو آپ اس شخص سے رابطہ کرکے ان سوالوں کے جوابات حاصل کریں۔ مذکورہ فوٹیج بھیجنے والوں نے ایسا کوئی اہتمام ہی نہیں کیا۔ ہمیں تو یہ بھی معلوم نہیں ہوپاتا کہ شرجیل میمن کو ایسی مغلظات سنانے والے کا نام، عمر اور پیشہ کیا ہے۔ اس کی صرف آواز سنائی دیتی ہے۔کرپشن سے نفرت کرنے والوں کا اصرار مگر یہ رہا کہ میں یہ فوٹیج آن ائر کرنے کی جرات دکھاؤں۔ میں نے گالیاں Muteکرکے وہ فوٹیج بالآخر اپنے پروگرام میں چلادی۔ دو فقرے مگر میں اس فوٹیج کے ابھی تک ہضم نہیں کرپارہا۔ شرجیل کو گالیاں بکتے ہوئے اس فوٹیج میں نظر نہ آنے والا شخص بارہا بہت فخر سے اعلان کرتا ہے کہ “I Am a British Citizen”۔ رعونت بھرے اس اعلان کے علاوہ وہ شرجیل کو بارہا یہ بات بھی یاد دلاتا رہتا ہے کہ “This is not Pakistan”پاکستان میں اس کے خیال میں ’’سب‘‘ یعنی ’’کرپشن‘‘ چلتی ہے مگر اس کے وطن (I Am a British Citizen) میں منی لانڈرنگ سنگین جرم ہے۔ وہ پولیس کوفون کرے گا تو وہ فوراََ جائے وقوعہ پر پہنچ کر شرجیل کو گرفتار کرلے گی اور اسے مبینہ منی لانڈرنگ کا حساب دینا ہوگا۔
شرجیل میمن کو سرِراہ روک کر گالیاں دینے والے شخص کو یاد نہیں رہا کہ لندن یقیناً(It is not Pakistan)نہیں ہے۔ اس ملک کا لیکن ایک سکاٹ لینڈ یارڈ بھی تو ہے۔ وہاں کی پولیس نے ہمارے ایک بھائی کے لندن ہی کے گھر میں چھاپا مارکر مبینہ طورپر ٹیکس سے بچائی دولت جو کونوں کھدروں میں چھپائی گئی تھی دو روز کی محنت سے برآمد کرلی۔ اس چھاپے کو اب کئی ماہ گزرچکے ہیں۔ ’’بھائی ‘‘کے خلاف ابھی تک مگر کوئی مقدمہ کسی عدالت کے سامنے باقاعدہ طورپر پیش نہیں ہوا ہے۔ شرجیل میمن کا یہ پولیس کیا بگاڑلیتی۔اپنے برطانوی شہری ہونے پر نازاں ’’مجاہد‘‘ کو شاید یہ علم نہیں کہ دُنیا بھر کے کئی ممالک سے کرپشن کے ذریعے یا ٹیکسوں کی چوری سے بنائی دولت میں سے زیادہ تر جائیداد برطانیہ ہی میں خریدی گئی ہے۔ تھیچر کے آخری ایام سے مسلسل کساد بازاری کا نشانہ بنے برطانیہ نے اس دولت کو من وسلویٰ کی صورت قبول کیا۔ اس دولت کی وجہ سے جائیداد کے کاروبار میں جو بوم آیا اس نے برطانوی معیشت کو بحال کرنے کے بعد تیز رفتار ترقی کی راہ پر ڈالا۔ ہمارے کسی’’ مجاہد‘‘ نے ان دنوں لندن میں رہتے ہوئے پاکستان سے آتے ایسے کسی سرمایے کے خلاف کوئی مہم نہیں چلائی۔ دیوانہ گھر کا سیانا ہوتا ہے۔ ہمارے مجاہدین کو خوب علم تھا کہ ایسی رقوم نہ آئیں تو برطانوی معیشت کا بھٹہ بیٹھ جائے گا اور برطانوی سرکار سے بے روزگاروں کو زندہ رہنے کے لئے جو ہفتے وار Doleملتی ہے وہ بند ہوجائے گی۔ہمارے سیاپہ فروشوں کو یہ تمام حقائق مگر پاکستانی عوام کو نہیں بتانے ہیں۔ ’’ہمارے‘‘ لئے ذرائع کی جانب سے آیا حکم صرف اتنا ہے کہ پاکستانی سیاستدانوں کو ہر طرح کی برائیوں کی علامتیں بناکر پیش کرو۔ ہم نوکریاں بچاتے ہوئے برانڈڈ سوٹوں کے ساتھ اپنی اس Assignmentکو دل وجان سے نبھاہ رہے ہیں۔ ربّ سے فریاد ہے کہ میرے رزق کی فراہمی کا کوئی اور بندوبست کرے۔