کہانی کی ابتدا ہوتی ہے مہمند ایجنسی سے!
فاٹا ایجنسیز میں پولیٹیکل ایجنٹ گورنر کا نمائندہ ہوتا ہے ، اور پوری ایجنسی کے سیاہ و سفید کا مالک ،
کسی بھی ایجنسی سے منشیات ، اسلحہ ، ودیگر اشیاء کی سمگلنگ اس وقت تک ناممکن ہوتی ہے، جب تک پولیٹیکل ایجنٹ کی مدد شامل نہ ہو،
ہر ایجنسی میں بڑے سمگلرز کا غیراعلانیہ ایک کنسور شیم بنا ہوتا ہے، جس میں اہم ترین معاملات طے کئے جاتے ہیں ،
سرکاری حکام کو رشوت دینی ہو، آپس کے جھگڑے طے کرنے ہوں ، یا دیگر جتنے بھی اہم معاملات ہوں ، ان لوگوں نے طے کرنے ہوتے ہیں ، ہر ایجنسی میں ان کی تعداد تین سے پانچ تک ہوتی ہے ، ان کا فیصلہ حرف آخر ہوتا ہے، تمام سمگلرز نے اسے من و عن قبول کرنا ہوتا ہے، ان کے ہر قسم کے تمام اخراجات چھوٹے بڑے تمام سمگلرز نے حصہ بقدر جثہ مل کے ادا کرنے ہوتے ہیں،
مئی 2012 کے تیسرے ہفتہ میں تین قبائلی بڑی خاص سفارش سے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی ملاقات کے لئے پرائم منسٹر ھاؤس آتےہیں ، ان کی ملاقات کا مقصد مہمند ایجنسی میں اپنی مرضی کا پولیٹیکل ایجنٹ لگوانا ہے، وزیر اعظم سے 25 کروڑ میں سودا طے پاتا ہے، چار ہفتے کا ٹائم دیا جاتا ہے،
پولیٹیکل ایجنٹ کی تقرری گورنر نے کرنی ہوتی ہے، جو وفاق کا نمائندہ ہوتا ہے،
گیلانی صاحب بگ باس کو بھی ان کا حصہ پہنچا چکے ہیں ، کہ 12 جون 2012 کو عدالتی حکم پہ گیلانی صاحب کو پرائم منسٹر ھاؤس سے گھر بھیج دیا جاتا ہے،
ان کے گھر پہنچنے کے پانچویں دن وہی تین قبائلی ان کے پاس پہنچ جاتے ہیں ،
عرض گذارتے ہیں ، حضور آپ نے اپنا کام نہیں کیا، اور آپ اب پرائم منسٹر بھی نہیں رہے، ازراہ کرم ہمارا پچیس کروڑ واپس کردیں !
راجہ پرویز اشرف میری ہی سفارش پہ پرائم منسٹر لگے ہیں اور میں پارٹی کا وائس چئرمین بھی ہوں ، آپ لوگ ٹینشن نہ لیں ، آپ کا کام ہوجائے گا، مجھے ایک ہفتہ مہلت دیں، گیلانی صاحب نے یہ جواب دے کے ان کو واپس بھیج دیا،
گیلانی صاحب کو مہلت تو مل گئی ، لیکن بگ باس سے رقم بھی واپس نہیں مل رہی تھی ، اور کام بھی نہیں ہورہاتھا، ایک ہفتہ کی بجائے پورا ایک ماہ گذر گیا، لیکن ان قبائلیوں کو رقم واپس نہ کی گئی،
ایک مہینہ گذرنے پہ قبائلی ملتان پہنچ گئے،
گیلانی صاحب سے ملاقات کی ، اور انہیں بتلایا، حضور ہم نے اپنا بندہ لگوالیا ہے، کیونکہ ہمارا روزانہ کا کروڑوں کا نقصان ہورہاتھا ، اب آپ ہماری رقم واپس کردیں!
یہ سنتے ہی گیلانی صاحب کے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی ،
جواب دیا، میرے پاس تو دو کروڑ ہے ، جو میرے حصے میں آیا تھا، میں تو وہی واپس کرسکتا ہوں ، نیز اس طرح کے کاموں میں دی ہوئی رقوم واپس نہیں ہوتیں!
چلیں دو کروڑ دیں ، باقی بات پھر کرلیں گے ، گیلانی صاحب نے دو کروڑ لاکے ان کے سامنے رکھا، رقم قبضے میں لیتے ہی قبائلی وفد کا لیڈر بولا!
جناب ! ہم نے رقم آپ کو دی تھی ، ہم کسی بگ باس کو نہیں جانتے، اور ہم نے لینی بھی آپ ہی سے ہے، اور پوری پچیس کروڑ!
جو ہم نے آپ کو دی تھی، اب ہم نے واپس نہیں جانا، ہم سندباد ہوٹل ( ملتان کا مشہور ہوٹل ) میں ٹہرے ہیں ، جب تک آپ رقم نہیں دیں گے ہمارا قیام اسی ہوٹل میں رہےگا ، وہ خرچہ بھی آپ نے دینا ہے، اور مہلت بھی صرف تین دن کی ہے، تین روز بعد بقیہ تئیس کروڑ ہمیں واپس چاہئیں ،
قبائلیوں کے جانے کے بعد گیلانی صاحب نے ملتان پولیس میں اپنے کسی ممنون احسان کو فون کیا، اور کہا! سند باد ہوٹل میں تین قبائلی پٹھان روم نمبر فلاں میں ٹہرے ہوئے ہیں ، ان پہ کوئی ایسا کیس ڈالیں ، کہ یہ دوچارسال جیل سے باھر نہ آئیں ، پولیس نے ہوٹل انتظامیہ کو اعتماد میں لے کے مطلوبہ روم پہ چھاپہ مارا، قبائلیوں کو چرس سمگلنگ کے الزام میں گرفتار کرلیاگیا!
معاملہ عدالت میں پہنچا، مارچ 2013 میں قبائلی باعزت بری ہوگئے،
جیل سے رہائی ملتے ہی قبائلی پھر گیلانی ھاؤس پہنچے ، اور عرض گذار ہوئے، آپ کا دیا ہوا دو کروڑ روپیہ تو پولیس ، ججز وغیرہ پہ خرچ ہوگیا ہے، اسی لئے ہم باعزت بری ہوگئے ہیں ، اب آپ کی طرف ہمارا تیس کروڑ ہے،
پانچ کروڑ ہرجانہ ، پچیس کروڑ اصل رقم!
اور ٹائم صرف ایک ہفتہ!
گیلانی صاحب نے جواب دیا !
I Am X Prime Minister ، اور تم میرے ہی گھر میں بیٹھ کے مجھے دھمکیاں دے رہے ہو ، شرافت سے چلے جاؤ، نہیں تو اب ساری زندگی کے لئے جیل میں سڑوگے!
یہ سنتے ہی قبائلی خاموشی سے وہاں سے چلے گئے،
ٹھیک ڈیڑہ ماہ بعد 9 مئی 2013 کو الیکشن کمپین میں مصروف علی حیدر گیلانی کے دو گن مینز کو قتل کرکے علی حیدر گیلانی کو اغواکرلیا گیا،
ایکس پرائم منسٹر کے بیٹے کا اغوا معمولی بات نہیں تھی ، تمام ایجنسیاں اور قانون نافذ کرنے والے ادارے دن رات اس کی تلاش میں لگ گئے، لیکن علی حیدر گیلانی کو زمین کھاگئی یا آسمان ؟ کچھ پتہ نہیں چل رہا تھا!
کچھ روز بعد گیلانی صاحب کو فون آیا، آپ کا بچہ ہمارے پاس ہے! تیس کروڑ روپیہ ادا کردیں ، اور اپنا بچہ واپس لے لیں ،
دوسری طرف خفیہ ایجنسیز کو اپنے ذرائع سے کچھ معلومات مل گئیں ، کہ مغوی کو اکوڑہ خٹک کے قریب فلاں مقام پہ رکھا گیا ہے!
پولیس اور ایجنسیز کے ذمہ دار پاور فل ریڈ کی تیاری کررہے تھے، اور لمحہ بلمحہ صورت حال سے گیلانی صاحب کو آگاہ کررہےتھے،
گیلانی صاحب سے یہاں ایک فاش غلطی ہوئی ، کہ ایک صحافی جو ان کا بڑاقریبی دوست ہونے کا دعویدار تھا، اسے اس چھاپے کے بارہ میں آگاہ کردیا،
اس صحافی دوست نے گیلانی صاحب کی پشت میں چھرا گھونپا ، سب سے پہلے خبر بریک کرنے کے چکر میں اس نے اپنے ٹی وی چینل پہ خبر چلوادی،
اغواکنندگان کے گرد گھیرا تنگ کردیاگیا ہے، چند گھنٹوں بعد علی حیدر گیلانی کو بازیاب کروالیا جائےگا،
یہ خبر سنتے ہی اغواکنندگان افراتفری کے عالم میں علی حیدر کو ساتھ لے کے افغانستان فرار ہوگئے، اتنا وقت نہیں تھا، کہ سارے مغویوں کو ساتھ لیجاتے، پولیس نے جب چھاپہ مارا ، علی حیدر گیلانی کو اس وقت تک افغانستان پہنچایا جا چکا تھا،
افغانستان پہنچنے کے بعد گیلانی صاحب سے پھر رابطہ کیا گیا ، انہوں نے تیس کروڑ ادائیگی کی حامی بھر لی ، اسلام آباد اور اکوڑہ خٹک کی دو اہم ترین شخصیات کو بیچ میں ڈالاگیا ، تیس کروڑ کی ادائیگی کردی گئی لیکن اکوڑہ خٹک کے جس مقام پہ چھاپہ ماراگیا تھا انہوں نے بھی پچیس کروڑ کا مطالبہ علی حیدر کے اغوا کنندگان سے کردیا کیونکہ ان کے دو مغوی پولیس کے ہاتھ لگ گئے تھے،جن کا تاوان پچیس کروڑ ان کے ورثاء سے مانگاگیا تھا!
گیلانی صاحب کے لیت و لعل پہ مغوی کو افغانستان کے ایک گروپ کے ہاتھ پچپن کروڑ میں بیچ دیا گیا،
گیلانی صاحب ایک بار تیس کروڑ اور دوسری بار پچیس کروڑ کل ملا کے پچپن کروڑ دے چکے تھے ، لیکن ان کے لیت ولعل کے دوران علی حیدر پچپن کروڑ میں آگے بِک چکا تھا،
افغانی گروپ نے گیلانی صاحب سے رابطہ کیا، اور اسی کروڑ تاوان طلب کرلیا، یعنی قیمت خرید پہ پچیس کروڑ منافع !
اس سودے پہ کئی ماہ تک گفت و شنید چلتی رہی ، گیلانی صاحب کا مؤقف یہ تھا ، کہ میں پچیس کا نادھندہ تھا اور ستاون کروڑ ( دو پہلی قسط تیس دوسری قسط اور پچیس تیسری قسط ) ادا کرچکا ہوں ، اب میں ایک روپیہ بھی اور نہیں دونگا،
بالآخر گوجرانولہ کی ایک پارٹی جو گیلانی صاحب کے بہت بڑے سپورٹر اور ذاتی دوست ہیں ، پنجاب کے اہم شہروں میں 70 سے زائد ان کے پیٹرول اسٹیشن ہیں , دیگر کاروبار اس کے علاوہ، بلامبالغہ وہ کھرب پتی پارٹی ہے، انہوں نے گیلانی صاحب کو بتائے بنا اپنی طرف سے پچیس کروڑ مزید ادا کئے،
یوں علی حیدر گیلانی کو اغوا کنندگان نے افغانستان میں ایسے مقام پہ پہنچایا، جہاں سے افغان فورسز نے اسے وصول کر کے پاکستانی حکام کو اطلاع پہنچائی ،
اس سارے واقعہ میں گیلانی صاحب ان کی فیملی و دیگر عزیز و اقارب نے جو ذہنی اذیت تقریبا تین سال تک اٹھائی ، وہ بیان سے باھر ہے،
یوں علی حیدر بخیر و عافیت گھر واپس پہنچ گئے، یہاں یہ بات بھی قارئین کو بتاتا جاؤں ، کہ علی حیدر کینسر کے مریض بھی ہیں ، اغوا کے روز اول سے رہائی تک کسی روز بھی نہ تو ان کے علاج معالجہ میں کوئی کوتاہی کی گئی ، اور نہ ہی ان کی خوراک میں،
عبرت کی بات یہ ہے، کہ باپ اور فیورٹ انکل ( Big Boss ) کے جرم کی سزا بیگناہ بیٹے اور پوری فیملی کو بھگتنی پڑی !
جو روز مر مر کے جیتے رہے۔
یوں اس ڈرامے کا ڈراپ سین ہوا،