اس قانون کے تحت جنسی تعلق کے لیے جسم فروش کو قیمت ادا کرنے والے شخص کو تین ہزار 750 یورو تک جرمانہ کیا جا سکے گا۔
قانون کے تحت سیکس کے لیے رقم کی ادائیگی کرنے والے ملزمان کو کلاسز لینا ہو گا جس میں انھیں طوائفوں کے حالات زندگی کے بارے میں بتایا جائے گا۔
فرانس میں اس متنازع قانون کو پاس کرنے میں دو برس لگے کیونکہ پارلیمان کے دونوں ایوانوں میں اس پر اختلافات پائے جاتے تھے۔
اس قانون پر آخری بحث کے دوران متعدد سیکس ورکرز نے پارلیمان کے باہر احتجاج بھی کیا۔
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق ان خواتین جسم فروش خواتین نے کتبے اٹھا رہے تھے جن پر درج تھا کہ’ہمیں آزاد نہ کرو کیونکہ ہم اپنا خیال رکھ سکتی ہیں۔‘
فرانس میں جسم فروشوں کی یونین کے ارکان کے مطابق اس قانون سے طوائفوں کا ذریعہ معاش متاثر ہو گا اور ایک اندازے کے مطابق اس وقت ملک میں 30 سے 40 ہزار کے قریب طوائفیں ہیں۔
تاہم اس قانون کے حامیوں کا کہنا ہے کہ قانون سازی سے ملک میں انسانی سمگلنگ کے نیٹ ورک کے خلاف مدد ملے گی۔
اس قانون کے تحت غیر ملکی طوائفوں کو اس شرط پر عارضی رہائشی اجازت نامہ بھی دیا جائے گا کہ وہ جسم فروشی چھوڑ کر متبادلر ذریعہ روزگار تلاش کرنے پر رضامند ہوتی ہیں۔
فرانس میں اس وقت 30 سے 40 ہزار طوائفیں ہیں
سوشلسٹ رکن پارلیمان اور اس قانون کے حامی موود اولیور نے امریکی خبر رساں ایجنسی اے پی کو بتایا کہ اس قانون کا سب سے اہم پہلو طوائفوں کو شناختی دستاویزات ملنا ہے کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ یہاں آنے والی 85فیصد طوائفیں سمگلنگ کا شکار ہوئیں۔
مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق ایوان زیریں میں اس قانون کے حق میں 64 اور مخالفت میں 12 ووٹ پڑے جبکہ 11 ارکان غیر حاضر تھے۔
نامہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ایوان بالا میں دائیں بازو کے ارکان کی اکثریت ہے اور یہ اس قانون کی مخالفت کرتے رہے ہیں۔
قانون کے تحت جنسی تعلق کے لیے جسم فروش کو پہلی بار رقم دینے والے کو 15 سو یورو جرمانہ کیا جائے اور دوبارہ خلاف ورزی کرنے پر جرمانہ دگنا کر دیا جائے گا۔
خیال رہے کہ سویڈن نے پہلی بار اس نوعیت کا قانون متعارف کرایا تھا جس میں جسم فروش کو جرمانے کی بجائے اسے رقم ادا کرنے والا مجرم ہو گا۔