برطانیہ کی خاتون ترینہ شکیل کو چھ سال کی قید کی سزا سنائی گئی ہے، ان پر اپنے کم سن بچے سمیت شام جا کر دولتِ اسلامیہ میں شامل ہونے کا الزام ہے۔
برطانوی میڈیا کے مطابق برمنگھم سے تعلق رکھنے والی ترینہ شکیل کو ٹوئٹر پر پیغامات کے ذریعے دہشت گردی کے اقدامات کی حوصلہ افزائی کا مجرم بھی ٹھہرایا گیا ہے۔ وہ ان الزامات کی تردید کرتی ہیں۔ تاہم انھوں نے تسلیم کیا کہ وہ شام گئی تھیں۔
برمنگھم کراؤن کورٹ میں دو ہفتے کی سماعت کے بعد، ججز نے ان کے اس دعوے کو مسترد کر دیا کہ ان کی خواہش صرف شرعی قانون کے زیر اثر علاقے میں رہنے کی تھی۔
ترینہ شکیل اکتوبر 2014 میں خفیہ طور پر شام چلے گئی تھیں جہاں سے انھوں نے تصاویر پوسٹ کی تھیں جن میں ان کے بیٹے کے سر پر دولت اسلامیہ کا جھنڈا بندھا ہوا بھی دکھایا گیا تھا۔
انھوں نے تصاویر پوسٹ کی تھیں جن میں ان کے بیٹے کے سر پر دولت اسلامیہ کا جھنڈا بندھا ہوا بھی دکھایا گیا تھا۔
ترینہ شکیل کے وکلا کی جانب سے دلائل پیش کیے گئے کہ وہ اپنے چھوٹے بچے کے ساتھ شام اس لیے گئی تھیں کہ وہ ’ناخوش خاندانی زندگی‘ سے فرار چاہتی تھیں۔
ترینہ شکیل دولت اسلامیہ کے زیر اثر علاقے سے جنوری 2015 میں لوٹ آئی تھیں۔
ان کے وکلا کا کہنا تھا کہ وہ شام میں ناخوش تھیں اور انھوں نے عدالت کو بتایا: ’میں اپنی مرضی سے واپس آئی ہوں۔ میں واپس آئی ہوں کیونکہ مجھے احساس ہوا کہ میں نے غلطی کی تھی۔‘
ترینہ شکیل کا کہنا تھا کہ وہ دہشت گرد گروہ کے شکنجوں سے ایک بس کے ذریعے فرار ہوئیں اور اس کے بعد ایک ٹیکسی والے کو رشوت دے کر ترکی کی سرحد پار کی۔