افغانستان کی وزارتِ داخلہ کے مطابق ضلع سنگین میں گذشتہ رات سرکاری فورسز سے لڑائی میں ایک مقامی طالبان کمانڈر سمیت پچاس طالبان شدت پسند ہلاک ہو گئے ہیں۔
افغانستان کی سرکاری فورسز ضلع سنگین کا قبضہ طالبان سے چھڑانے کی کوشش کر رہی ہیں جنھوں نے بدھ کو پورے ضلع میں قبضہ کر لیا تھا ۔
افغان فورسز کو سنگین پر قبضہ قائم رکھنےمیں مشکلات
افغان حکام کا کہنا ہے شدید جنگ کے بعد سرکاری فورسز نے ضلع سنگین میں اہم عمارتوں پر قبضہ کر لیا جبکہ امریکی افواج اس دوران فضائی کارروائی کرتی رہیں۔
وزارت داخلہ نے کہا کہ ہلاک ہونے والے مقامی طالبان کمانڈر کا نام ملا ناصر تھا جو طالبان رہنما ملا اختر منصور کے معتمد خاص تصور کیے جاتے تھے۔
سنگین صوبہ جغرافیائی اعتبار سے اہمیت کا حامل ہے اور یہ پوست کی کاشت کا بھی مرکز رہا ہے۔ اس علاقے پر قبضہ طالبان کے لیے بہت اہم ثابت ہو سکتا ہے۔
گذشتہ ہفتے طالبان کے حملے کے بعد سکیورٹی فورسز پولیس کے ہیڈکوارٹر تک محدود ہو کے رہ گئی تھیں
گذشتہ ہفتے سنگین کے اطراف میں طالبان کے حملوں نے شدت اختیار کر لی تھی اور بدھ کو انھوں نے پورے صوبے پر اپنا تسلط قائم کرلینے کا دعوی کیا تھا۔ طالبان کے حملوں کی وجہ سے ضلع میں موجود سکیورٹی فورسز پولیس کے ہیڈکواٹر تک محدود ہو کر رہ گئی تھیں۔
افغانستان کی وزارتِ دفاع نے ان دعووں کو رد کیا تھا اور کہا تھا کہ انھوں نے فوجی کمک روانہ کر دی ہے۔
جمعرات کو کئی مقامی حکام اور ضلعی گورنر کے دفتر نے دعوی کیا کہ سنگین میں پولیس کے ہیڈکواٹر کی عمارت کو طالبان سے چھڑا لیا گیا ہے۔
ہملند سے تعلق رکھنے والے سینیٹر ہاشم الکوزئی نے کہا کہ گزشتہ رات تازہ دم دستے سنگین پہنچ گئے اور انھوں نے وہاں موجود فوجیوں کو خوراک اور گولہ بارود بھی فراہم کیا۔
انھوں نے مزید کہا کہ پولیس ہیڈکواٹر پر دوبارہ قبضہ کر لیا گیا اور سکیورٹی فورسز ضلع کے باقی علاقوں کو بھی طالبان سے خالی کرانے کی کوشش کریں گی۔
سرکاری فورسز کے دعوے اپنی جگہ لیکن صوبے ہلمند کا وسیع علاقہ ابھی طالبان کے کنٹرول میں ہے۔