دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے 34 اسلامی ممالک کا فوجی اتحاد

image

سعودی عرب ( رانا راشد )  دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے پاکستان سمیت 34 اسلامی ممالک نے سعودی عرب کی قیادت میں ایک فوجی اتحاد تشکیل دینے کا اعلان کیا ہے۔
اس میں مصر، قطر اور عرب امارات جیسے کئی عرب ممالک کے ساتھ ساتھ ترکی، ملیشیا، پاکستان اور افریقی ممالک شامل ہیں۔
سعودی خبر رساں ایجنسی ایس پی اے پر ان ممالک کی فہرست جاری کی گئی ہے جنھوں  نے دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے سعودی عرب کی قیادت میں ایک فوجی اتحاد تشکیل دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ روابط اور ملٹری آپریشن کی غرض سے اس کا مشترکہ آپریشن سینٹر ریاض میں ہو گا۔‘
بیان میں اسلامی ممالک کو شدت پسندی میں ملوث ہر اس تنظیم اور گروہ کی تخریب کاری سے تحفظ کو فرض قرار دیا گیا ہے جو زمین پر فساد برپا کر رہے ہیں اور جن کا مقصد معصوم افراد میں دہشت پھیلانا ہے، چاہے اس کا کوئی بھی نام ہو یا کسی بھی مسلک سے تعلق ہو۔
ایران اور سعودی عرب خلیجی ممالک میں اپنے مختلف مفاد کے سبب ایک دوسرے کے حریف ہیں اس لیے اس فہرست میں شیعوں کی اکثریت والے ملک ایران کا نام شامل نہیں ہے۔
سعودی عرب کے وزیر دفاع  شہزادہ محمد بن سلمان نے منگل کو صحافیوں کو بتایا کہ اس  کے ذریعے عراق، شام، لیبیا مصر اور افغانستان جیسے ممالک میں شدت پسندی سے نمٹنے کے لیے کی جانے والی کوششوں کو مربوط کیا جائے گا۔

image
تاہم انھوں نے ایسی کوئی اہم بات نہیں بتائی جس سے یہ معلوم ہو سکتا کہ آيا یہ فوجی مہم کس طرح عمل میں لائی جائےگي۔
ان کا کہنا تھاکہ ’شام اور عراق میں آپریشن کے لیے اہم طاقتوں اور عالمی اداروں کے ساتھ عالمی سطح کے روابط استوار کیے جائیں گے۔ اس جگہ پر ہم قانونی جواز کے ساتھ عالمی برادری کے ساتھ روابط کے بغیر یہ آپریشن انجام نہیں دے سکتے۔‘
ان سے جب پو چھا گیا کہ کیا یہ نیا فوجی اتحاد صرف دولت اسلامیہ پر مرکوز ہوگا تو محمد بن سلمان نے کہا نہ صرف یہ بلکہ ’ہمارے سامنے جو بھی دہشت گرد تنظیم ابھرے گی، ہم اس کا سامنا کریں گے۔‘
سعودی عرب اور اس کے پڑوسی خلیجی ممالک کا اتحاد گذشتہ کئی ماہ سے یمن میں ایران کے حمایت یافتہ حوثی باغیوں کے خلاف فوجی کارروائیاں کر رہا ہے۔
حالیہ دنوں میں جس طرح سے دولت اسلامیہ نے مغربی مقامات کو نشانہ بنایا ہے اس کے بعد سے امریکہ نے خاص طور پر اس بات پر زور دیا ہے کہ اس فوجی طاقت کا مناسب استعمال دولت اسلامیہ کے خلاف ہوتا تو زیادہ بہتر ہوتا۔
منگل کے روز سے ہی اقوام متحدہ کی نگرانی میں یمن میں جنگ بندی کا نفاذ ہونے والا ہے اور ممکن ہے کہ ریاض کے لیے یہ اچھا موقع ہو کہ وہ اب اپنی توجہ شمالی سرحدوں کی طرف مرکوز کر سکے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں