قبائلی علاقے کرم ایجنسی کے پارہ چنار بازار میں ہونے والے ایک بم دھماکے میں کم سے کم 24 افراد ہلاک اور 77 افراد زخمی ہوگئے ہیں۔
یہ واقعہ اتوار کی صبح صدر مقام پارہ چنار میں واقع عید گاہ مارکیٹ اور توری مارکیٹ کے درمیان میں پیش آیا۔
آئی ایس پی آر کے مطابق شدید زخمی ہونے والے 23 افراد کو دو ہیلی کاپٹروں کے ذریعے پشاور کے لیڈی ریڈنگ ہسپتال منتقل کیا گیا ہے۔
دھماکہ ٹائم ڈیوائس کے ذریعے دن ساڑھے بارہ بجے کیا گیا تاہم ابھی تک کسی تنظیم کی جانب سے اس دھماکے کی ذمہ داری قبول نہیں کی گئی۔
سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر انصارالمجاہدین اور لشکرِ جھنگوی کی جانب سے اس حملے کی ذمہ داری قبول کیے جانے کی خبریں موصول ہوئی ہیں تاہم انتظامیہ ابھی ان خبروں کی تصدیق نہیں کر سکتی اور واقعے کی تحقیقات جاری ہیں۔
پولیٹیکل انتظامیہ کے مطابق زخمیوں میں تین بچے بھی شامل ہیں۔
اس سے قبل پارہ چنار سے رکن قومی اسمبلی ساجد حسین توری نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے تصدیق کی کہ ’اب تک دھماکے میں انھیں 22 افراد کی ہلاکت کی اطلاع دی گئی ہے اور 60 سے زائد افراد زخمی ہیں جن میں بعض کی حالت تشویش ناک بتائی جاتی ہے۔‘
پولیٹیکل انتظامیہ کا کہنا ہے کہ ہلاک شدگان کا تعلق شیعہ مسلک سے تھا اور ان کی تدفین کر دی گئی ہے تاہم ساجد حسین توری کا کہنا ہے کہ سنی سملک سے تعلق رکھنے والے افراد بھی اس حملے میں نشانہ بنے۔
رکن قومی اسمبلی ساجد حسین توری نے کہا کہ دھماکہ کھلے میدان میں ہوا ہے جہاں گرم کپڑوں اور سویٹروں کی چھوٹی چھوٹی دوکانیں تھیں اور جس وقت دھماکہ ہوا اس وقت وہاں خریداروں کی ایک بڑی تعداد موجود تھی۔
یہاں ماضی میں فرقہ وارانہ فسادات کی وجہ سے ہزاروں لوگ ہلاک ہوچکے ہیں
زخمیوں کو ایجنسی ہیڈکوارٹر ہسپتال اور دیگر نجی طبی مراکز میں منتقل کیا گیا ہے جہاں بعض کی حالت تشویش ناک بتائی جاتی ہے۔
ایم این اے نے مزید بتایا کہ ہلاک ہونے والے افراد کی لاشیں مرکزی اور دیگر امام بارہ گاہوں میں پہنچائی گئی ہے۔ انھوں نے کہا کہ بظاہر لگتا ہے کہ یہ دہشت گردی کا واقعہ ہے جس کا نشانہ پارہ چنار کے عام شہری تھے۔
انھوں نے کہا کہ پارہ چنار میں گزشتہ دو سال سے امن تھا اور علاقے میں حالات کافی حد تک بہتر ہوگئے تھے۔
ابھی تک کسی تنظیم کی جانب سے اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی گئی ہے۔
خیال رہے کہ کرم ایجنسی فرقہ وارانہ جھڑپوں کی وجہ سے انتہائی حساس علاقہ سمجھا جاتا ہے۔ یہاں ماضی میں فرقہ وارانہ فسادات کی وجہ سے ہزاروں لوگ ہلاک ہوچکے ہیں ۔ اس ایجنسی میں شدت پسند تنظیمیں بھی متحرک رہی ہے تاہم علاقے میں گذشتہ کچھ سالوں سے امن قائم تھا جس کی وجہ سے حالات کافی حد تک بہتر ہوگئے تھے۔