فرانس میں علاقائی انتخابات کے دوسرے مرحلے میں ووٹنگ کے بعد کے جائزوں کے مطابق انتہائی دائیں بازو کی جماعت ’نیشنل فرنٹ‘ کو شکست کا سامنا ہے۔
ایگزٹ پول کے مطابق نیشنل فرنٹ 13 علاقوں میں سے ایک میں بھی کامیابی حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوئی ہے۔
ووٹنگ کے بعد کے جائزوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک ہفتہ قبل پہلے مرحلے میں ہونے والے انتخابات میں 13 میں سے چھ علاقوں میں کامیابی کے باوجود دوسرے مرحلے میں ’نیشنل فرنٹ‘ تیسری پوزیشن پر چلی گئی ہے۔
ایگزٹ پول کے مطابق سابق صدر نکولس سرکوزی کی قیادت میں دائیں بازو کی ریپبلکن پارٹی زیادہ نشستیں حاصل کرے گی اور یہ حکمراں جماعت سوشلسٹ پارٹی سے آگے ہے۔
ایک جائزے کے مطابق نیشنل فرنٹ کی سربراہ مارن لا پین کو اپنے علاقے میں 42.5 فیصد ووٹ ملے ہیں جبکہ ریپبلکن پارٹی کو 57.5 فیصد ووٹ ملے ہیں۔
نیشنل فرنٹ کی رہنما مارن لا پین نے شکست کو تسلیم کرتے ہوئے اپنی جدوجہد کو جاری رکھنے کا عزم کیا ہے۔
انھوں نے اپنے حامیوں سے بات کرتے ہوئے کہا:’ہمیں کوئی نہیں روک سکتا ہے، جمہوریہ فرانس زندہ آباد، فرانسیسی قوم زندہ آباد، فرانس زندہ آباد۔‘
مارین لپین نے شمالی علاقے’نور پا ڈا کیلے پیکارڈی‘ سے انتخاب میں حصہ لیا جبکہ ان کی بھانجی نے ملک کے جنوبی علاقے ’پرووانس آلپس کوٹے ڈازیور‘ سے انتخابات میں حصہ لیا۔
دونوں نے پہلے مرحلے میں 40 فیصد ووٹ حاصل کیے تھے جس کے بعد سوشلسٹ جماعت نے دوسرے مرحلے میں حصہ نہیں لیا تھا تاکہ ان کے ووٹر نیشنل فرنٹ کے مقابلے میں ریپبلکن جماعت کی حمایت کریں۔
سابق صدر نکولس سرکوزی کی جماعت سوشلٹ جماعت سے آگے ہے۔
گذشتہ ماہ میں ہونے والے پیرس حملوں کے بعد ملک کے پہلے علاقائی انتخابات منعقد ہوئے ہیں۔
فرانس میں مقامی ٹرانسپورٹ، تعلیم اور اقتصادی ترقی کے معالات میں زیادہ اختیارات علاقائی حکومتوں کو دیے جاتے ہیں۔
13 نومبر کو ہونے والے پیرس حملوں کے بعد ان انتخابات کی اہمیت میں اضافہ ہو گیا ہے کیونکہ عوامی رائے کے مطابق ملک میں تارکین وطن کی آمد اور یورپی یونین کی مخالف پارٹی ’نیشنل فرنٹ‘ کی مقبولیت میں اضافہ ہوا تھا۔
اگر نیشنل فرنٹ ان علاقوں میں سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرتی تو یہ ملک کی تاریخ میں پارٹی کی جانب سے حکمرانی کا پہلا موقع ہوتا۔
پیرس حملوں کے بعد حکومت کے رد عمل پر صدر فرانسواز اولاند کی مقبولیت میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ جائزوں کے مطابق ان کی مقبولیت میں 30 فیصد سے لے کر 50 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔
لیکن جہاں صدر اولاند کی ذاتی شخصیت کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے وہاں ان کی ’سوشلسٹ پارٹی‘ میں یہ مقبولیت دکھائی نہیں دے رہی ہے۔اس وقت ان کی پارٹی کو 22 فیصد مقبولیت حاصل ہے۔