ڈاکٹر عاصم پر دہشت گردی کے الزامات ختم

image

کراچی میں احتساب عدالت نے سابق وفاقی وزیر ڈاکٹر عاصم حسین کو قومی احتساب بیورو کے حوالے کر دیا ہے اور واضح کیا ہے کہ نیب کے علاوہ کسی اور ادارے کی ان تک رسائی نہیں ہوگی۔
جمعے کو دہشت گردی کے مقدمے سے بریت کے بعد نیب نے انھیں ہائی کورٹ سے سیدھا نیب عدالت کے جج کے روبرو پیش کیا۔
نیب کے افسر 15 روز کے ریمانڈ کی درخواست کی تاہم جج سعید قریشی نے سات روز کا ریمانڈ دینے کا فیصلہ کیا۔
عدالت نے یہ بھی ہدایت کی کہ ڈاکٹر عاصم حسین سے خاندان کی ملاقات کو یقینی بنایا جائے اور انھیں کھانا گھر سے فراہم کیا جائے۔
اس سے قبل سندھ میں انسداد دہشت گردی کی عدالت کے انتظامی جج نعمت اللہ پھلپوٹو نے سابق وفاقی وزیر ڈاکٹر عاصم حسین کو قومی احتساب بیورو کے حوالے کر دیا ہے۔
جمعے کو سماعت کے دوران پولیس نے عدالت کو بتایا کہ ڈاکٹر عاصم پر عائد دہشت گردی کے الزامات میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔
ڈاکٹر عاصم حسین 106 روز رینجرز اور پولیس کی حراست میں رہے۔
رینجرز نے ان پر دہشت گردوں اور ملزمان کو پناہ دینے اور رعایتی نرخوں پر علاج معالجے کے الزامات عائد کیے تھے لیکن پولیس نے اپنی تحقیقات میں ان الزامات کو مسترد کر دیا۔
ڈاکٹر عاصم کو جمعے کو سکیورٹی کے غیر معمولی انتظامات میں عدالت لایا گیا۔
اس مقدمے کے تفتیشی افسر ڈی ایس پی الطاف حسین نے عدالت کو بتایا کہ ڈاکٹر عاصم حسین پر دہشت گردی کے الزامات میں ملوث ہونے کے ٹھوس ثبوت نہیں مل سکے لہذا انھیں رہا کر دیا گیا ہے۔
اس پر عدالت نے ان سے سوال کیا کہ انھیں رہا کر دیا گیا ہے یا کیا جائے گا؟ تفتیشی افسر نے آگاہ کیا کہ ڈاکٹر عاصم رہا ہیں لیکن عدالت کے احترام میں انھیں لایا گیا ہے۔
عدالت نے انھیں ہدایت کی کہ 497 سی آر پی سی کے تحت تفصیلی رپورٹ پیش کی جائے جس کی شق کی تحت ڈاکٹر عاصم کو رہا کیا گیا ہے، تفتیشی افسر نے یہ رپورٹ دس روز میں جمع کرانے کی یقین دہانی کرائی۔
سندھ حکومت اور رینجرز میں اختیارات کی کشیدگی کا عکس عدالت میں بھی نظر آیا جب رینجرز کے وکلا نے ڈاکٹر عاصم حسین کو بری نہ کرنے کی درخواست کی۔
پبلک پراسیکیوٹر کا موقف تھا کہ پولیس کے تفتیشی افسر نے ان سے مشاورت نہیں کی اور یہ بات غلط ہے کہ ڈاکٹر عاصم حسین کے خلاف کوئی شواہد نہیں ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ’ڈاکٹر عاصم حسین نے جن دہشت گردوں کا علاج کیا وہ مطلوب ملزمان تھے۔ لیاری امن کمیٹی کے ظفر بلوچ اور عمر کچھی سمیت دیگر کے علاج کا ریکارڈ عدالت کے پاس موجود ہے، اس کے علاوہ ڈپٹی میڈیکل افسر بھی اعترافی بیان میں یہ قبول کرچکے ہیں لیکن تفتیشی افسر نے اعلیٰ سیاسی عہدیداران اور اعلٰی پولیس حکام کہ کہنے پر یہ کیا ہے۔‘

اپنا تبصرہ بھیجیں