جس معاشرے میں مادہ پرستی عروج کو پہنچ جائے اور عزت و احترام کا پیمانہ صرف مال و دولت ہو تو وہ معاشرہ ترقی یافتہ نہیں بلکہ زوال پزیر معاشرہ ہوتا ہے۔ جس معاشرے میں بدکردار، بدقماش اور سود کھانے والے معزز اور معتبر بن جائیں تو اس معاشرے کو انسانی معاشرہ نہیں کہا جا سکتا۔ جس معاشرے میں صرف مال و زر ہی عزت و احترام کی پہچان ہو جہاں انصاف نوٹوں کے وزن کے مطابق ہوتا ہو وہ معاشرہ انسانوں کا معاشرہ نہیں کہلایا جا سکتا۔ جس معاشرے کے لیڈران چور اور لٹیرے ہوں ان لیڈروں کی موجودگی میں عام انسان کا عزت کے ساتھ جینا ناممکن ہو، جس معاشرے میں رہنے والے اپنے رب اور اپنے نبی ﷺ کے ساتھ وفادار نہ ہوں۔ اور وہ اپنے دین کو پس پشت ڈال کر دوسرے انسانوں کی زندگیاں تنگ کر دیں۔ وہ معاشرہ جس میں عام آدمی کی ماں، بہن، بیٹی کی عزت محفوظ نہ ہو۔ وہ معاشرہ انسانی نہیں حیوانی معاشرہ کہلاتا ہے۔ آخری نبی محمد مصطفیٰ ﷺ کے پیروکار ہونے کے دعویدار ہر وقت دوسرے مسلمانوں کو ذلیل و خوار کرنے کے لیے اپنا مال اپنا اثر و رسوخ استعمال کر رہے ہوں وہ معاشرہ محمدی معاشرہ نہیں کہلا سکتا۔ انسانیت کے خلاف ہر وقت برسرپیکار رہنے والے نام نہاد رہنما انسانیت کے نام پر بھی دھبہ ہیں۔ آج کا معاشرہ نہ دینی ہے اور نہ ہی انسانی ہے۔ جہاں نہ دین کے مطابق کوئی کام ہو رہا ہے اور نہ ہی انسانیت کے حوالے سے انسانوں کے ساتھ سلوک ہو رہا ہے۔ انسانیت اس معاشرے میں دم توڑ رہی ہے۔ آج کے معاشرے میں عام شریف آدمی کا زندگی کے ایام پورے کرنا بھی مشکل ترین ہو چکا ہے۔ اس معاشرے کے نام نہاد رھنماوں نے انسانوں سے ان کا رزق چھین لیا ہے۔ ان لٹیرے اور چوروں نے مختلف حیلے بہانوں اور نعروں سے اقتدار میں آ کر رب کی طرف سے دیا گیا رزق چھین کر اپنی اپنی نسلوں کو اس قدر سنوار لیا ہے کہ ان کی نسلیں آنے والی کئی دہائیوں تک وہ عیاشیاں کریں گیں۔
آج کے معاشرے کی یہ بھی صورت حال ہے کہ ملک کے تمام قانون ان چوروں لٹیروں کے سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑا ہوتا ہے۔ آج کے نام نہاد اسلامی معاشرے میں کوئی اپنا حق نہیں مانگ سکتا۔ حالات اس نہج تک پہنچ چکے ہیں کہ عام انسان اپنی زندگی کی سانسیں پوری کرنے کے لیے بھی پریشان ہے۔ سر جھکا کر جیو تو ٹھیک ہے ورنہ یہ زمین اب سر اٹھا کر جینے والی نہیں۔ آج کے معاشرے میں خوشامدی کی بہت عزت اور احترام ہے ۔ اس خوشامدی ناسور نے حقدار کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ یہ خوشامدی بوٹ چاٹنے کا فن جانتا ہے اس فن کے بل بوتے پر وہ کامیابیاں حاصل کرتا ہے۔ اس کے اس عمل سے حقدار اپنے علم و فن ہونے کے باوجود دنیا میں ذلیل و رسوا ہو کر اپنی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ جب نااہل لوگ معاشرے کے اہم عہدوں پر براجمان ہو جاتے ہیں تو معاشرے میں بے چینی اور مایوسی پھیلتی ہے۔ دنیا میں یہ سب کچھ ہونے کے باوجود ایمان والے اپنے رب پر توکل کرتے ہیں کیونکہ سوھنے رب کی عدالت کا فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے۔ رب کی وہ سچی عدالت جس میں تمام فیصلے عدل و انصاف پر ہونے ہیں۔ اور اس معاشرے کے ستائے ہوئے مظلوم کی نظر اسی عدالت پر لگی ہوئی ہے۔