عطائے عقیدت اور سلام دربارِ مصطفیٰ ﷺ ۔۔ تحریر: امجد علی

کی محمد سے وفا تُو نے، ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا، لوح و قلم تیرے ہیں

یہ وہی بارگاہِ رسالت ہے جہاں صحابۂ کرامؓ جان ہتھیلی پر رکھ کر دائم دست بستہ حاضر رہتے، جہاں جنیدِ بغدادیؒ، بایزید بسطامیؒ اور احمد رضا بریلویؒ جیسے عظیم المرتبت اولیائے کرام بھی سرِ نیاز جھکائے کھڑے ہوتے، جہاں ملائکہ، جن و انس، ارض و سما، افلاک، شجر و حجر، چاند، سورج اور ستارے تک باادب ایستادہ ہیں۔ وہ جو وجہ تخلیق کائنات، وجہ احسنا تقویم، وجہ متفخر انسانیت اور محبوب کبریا ہیں۔ وہ جن کے وجود مسعود سے انسانیت کو شرف ملا۔ وہ بارگاہ کہ جہاں جلال و اکرام والے ربِ کریم خود آدابِ تعظیم سکھائیں، جہاں معلم الملکوت، عابد و موحد ازازیل کو ایک لمحے کی بے ادبی راندۂ درگاہ کر دے۔

یہ وہ دربار ہے جہاں اونچے اونچے سونے کے پہاڑ بھی آپﷺ کے قدموں میں ڈھیر ہوئے، مگر محبوبِ کبریا ﷺ نے انہیں ایک نظر بھی نہ دیکھا۔ جہاں زور سے سانس لینا بھی بے ادبی ٹھہرتا ہو، وہاں میرے جیسے گناہ گار کی کیا مجال کہ بے باکی کرے! میرا تخیل، میرا قلم، میرے الفاظ سبھی سجدہ ریز ہو جاتے ہیں۔ لیکن اس دربار میں حاضری کے بغیر زیست بھی تو بے معنی اور بے وقعت ہے۔ اسی لیے میں، عاجز و گناہ گار، آنکھوں کے لبریز کٹوروں میں وہ ستارے لیے، جو دل سے پھوٹنے والے پاکیزہ چشموں کے پانیوں سے ابل کر پلکوں پر ٹمٹمانے لگے ہیں، سلامِ عقیدت پیش کرتا ہوں: فداک روحی و قلبی یا رسول اللہ!

وہ وہی محبوبِ خدا ہیں جو میری پیدائش سے بھی صدیوں پہلے، میری پر تقصیر زیست کی بخشش کے لیے راتوں کو اشک بار ہو کر رب کے حضور جھولیاں پھیلایا کرتے تھے۔ میری پلکیں، ابرو اور جبیں سب مدینے کی گلیوں، گنبدِ خضریٰ، روضۂ رسول ﷺ، مسجدِ نبوی کے در و دیوار، حجرۂ اطہر، ریاض الجنہ اور خاکِ طیبہ کو سلام پیش کرتے ہیں۔
اسی نسبتِ عشق و محبت کی ایک روشن قندیل جناب جاوید القادری صاحب کی تصنیف “عطائے عقیدت” ہے، جو ایک بے مثال نعتیہ شعری مجموعہ ہے۔ یہ کتاب نعتیہ ادب میں ایک انمول خزانہ ہے، یہ محبت عقیدت اور ادب میں ڈوبی تصنیف ہے۔ جس میں سیرتِ طیبہ کے مختلف گوشوں کو اشعار میں سمو دیا گیا ہے۔ تقریباً ساٹھ ہزار اشعار پر مشتمل یہ مجموعہ عشقِ رسول ﷺ کی خوشبو میں بسا ہوا ہے۔ نعت گوئی کی روایت قدیم ہے۔ صحابۂ کرامؓ سے لے کر تابعین، تبع تابعین، محدثین اور علمائے کاملین نے ہر دور میں محبتِ مصطفیٰ ﷺ میں گلہائے عقیدت نچھاور کیے، مگر “عطائے عقیدت” ایک ایسا منفرد سرمایہ ہے، جس میں سیرتِ رسول ﷺ کو منظوم شکل میں پیش کیا گیا ہے۔

یہاں ولادتِ باسعادت سے لے کر نبوت کی ساعتوں تک، ابراہہ کے انجام سے لے کر غارِ حرا کی خلوتوں تک، ہجرت کے لمحات سے لے کر بدر و احد کی وادیوں تک، ہر واقعے پر عقیدت کے پھول برسائے گئے ہیں۔ مصنف کا قلم عشقِ رسول ﷺ میں ایسا محو ہے جیسے صبا مدینے کے گلی کوچوں میں مسلسل طواف کرتی ہے۔ ہر شعر میں محبت کی جوت جلتی ہے، ہر مصرع دل کی دھڑکنوں کو تیز کر دیتا ہے، ہر لفظ حضور کی یاد میں بھیگی ہوئی رتوں کی خوشبو بکھیرتا ہے۔ جاوید القادری صاحب زبان و بیان میں بلیغ اور لغت میں بحر عمیق اور محبت نبوی میں سر تا پا معطر ہیں۔
کتاب کے مختلف ابواب ہیں جس میں انہوں نے سیرت نبوی کو مرحلہ وار بیان کیا گیا ھے۔اسطرح شاعر نے سرکار کی ابتدائی زندگی سے لے کر ان کی حیات مطہرہ ظاہرہ کے آخری ایام و واقعات کو انتہائی خوبصورتی سے شعری زبان میں رقم کیا ھے۔مصنف کے جسم و جاں، قلب و نظر، خون کی بوند بوند اور جسم کے رواں رواں میں موجزن حب رسول مسلسل پھوٹ رہی ہے۔ آپ بزبان شاعری کوئے حبیب میں ظہور پانے والی ہر حقیقت میں اپنی منظر نگاری کے رنگ بھر دیتے ہیں۔ آپ ایک کیفیت سے گذرتے ہیں محسوس کرتے ہیں جس میں ایک عاشق رسول، دیدار مصطفیٰ کے انتظار میں اونگھ کے دوران کوئی پر کیف جھلک محسوس کر رہا ہو تو وہ احوال کی منظر کشی کچھ یوں کرتے ہیں۔
بلا سبب تو نہیں کیف و نور کی بارش
ہمارے دل میں وہ تشریف لائے بیٹھے ہیں
آئیے ان اشعار کے حسین دریچوں سے دیار مصطفوی میں جھانک کر جنت نظیر وادی کے نظاروں کا حظ اٹھاتے ہیں۔

کچھ منتخب اشعار:

یہ کہکشاں، یہ ستارے ہیں جن کی راہ کی دھول
ہم ان کی راہ میں آنکھیں بچھائے بیٹھے ہیں

وہی حلاوتِ ایمان سے شاد کام ہوئے
جو ان کی یاد دلوں میں بسائے بیٹھے ہیں

بلا سبب تو نہیں کیف و نور کی بارش
ہمارے دل میں وہ تشریف لائے بیٹھے ہیں

اللہ اللہ۔۔ حضور کی ۔۔۔باتیں
لطف و کیف و سرور کی باتیں

ہم نہ بہلیں گے ذکر جنت سے
ہم سے کر تو حضور کی باتیں

ہے بنایا رب قدیر نے تجھے ایسا یکتا کہ بالقین
سبھی وصف ہیں تیرے حق نما، ترا خلق خلقِ عظیم ہے

وہ خوش نصیب ہیں وہ بخت کے سکندر ہیں
جو ان کے پیار میں جاں تک لٹائے بیٹھے ہیں

کوئے نبی ہے یہاں سانس بھی لے آہستہ
یہاں ملائکہ بھی سر جھکائے بیٹھے ہیں

جو دھڑکتی ہے ترے نام پر وہی نبض’ نبض حیات ہے
جو مچلتا ہے تیری یاد میں وہی قلب ‘ قلب سلیم ہے

یہ اشعار محض الفاظ نہیں، بلکہ قلب و نظر کی حاضری کا اظہار ہیں۔ اس کتاب کا ہر صفحہ عشقِ نبی ﷺ سے لبریز ہے، جو عاشقانِ مصطفیٰ ﷺ کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں۔ میں علامہ جاوید القادری کی اس انتھک محنت کے نتیجہ میں انمول، بیش قیمت بحر عشق سے تر بتر تخلیق پر شاد ہوں ممنون ہوں اور دعاء گو ہوں اقاء کریم ان کو ایسے ہی اپنی نظر کرم سے ثروت مند رکھیں۔ کیونکہ وہ بلا شبہ میرے نبی رحمت اللعالمین ہیں عظیم تر ہیں۔

یہ چند کلمات، یہ چند عقیدت کے موتی اس وسیع سمندر “عطائے عقیدت” کے سامنے کچھ بھی نہیں، مگر محبت میں مقدار نہیں، نیت دیکھی جاتی ہے۔ ہم اپنی پلکوں اور جبینِ نیاز کو خم کیے، آستانۂ رسالت پر فریاد کناں ہیں کہ:

اے شافعِ محشر! ہم سب کی حاضری قبول ہو!
اللہم صل علیٰ سیدنا محمد و علیٰ آل سیدنا محمد و بارک وسلم۔

اپنا تبصرہ بھیجیں