پاکستان میں سانپ کے کاٹے کے علاج کے لیے مقامی اینٹی وینم ۔۔۔ ریسرچ وتحریر : بیالوجسٹ اسود خان

‎بیالوجسٹ اسود خان کا ماننا ہے کہ
‎پاکستان میں سانپ کے کاٹنے کے واقعات ایک سنگین عوامی صحت کا مسئلہ ہیں، خاص طور پر ان علاقوں میں جہاں زیادہ تر لوگ زراعت کے پیشہ سے وابستہ ہیں ۔ عالمی ادارہ صحت (WHO) نے سانپ کے کاٹے کو “نظرانداز شدہ استوائی بیماری” قرار دیا ہے، جس سے اس کے بہتر علاج اور عوامی آگاہی کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔

‎ماضی میں پاکستان درآمد شدہ اینٹی وینم پر انحصار کرتا رہا ہے، جو اکثر مقامی سانپوں کے زہر کے خلاف مؤثر نہیں ہوتے، جس کی وجہ سے علاج کی کامیابی متاثر ہوتی ہے۔ نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ (NIH) اسلام آباد نے مقامی سانپوں کے زہر کو بے اثر کرنے کے لیے پولی ویلنٹ سانپ کے زہر کا تریاق (PVAV) تیار کیا ہے، جو سوء اسکیلڈ وائپر (Echis carinatus)، رسل وائپر (Daboia russelii) اور کوبرا (Naja species) جیسے مقامی زہریلے سانپوں کے خلاف مؤثر ثابت ہوا ہے۔

‎میری تحقیق:

جو NIH اسلام آباد کے سیرا لیب میں کی گئی، میں مقامی طور پر تیار کردہ اور تجارتی طور پر دستیاب پولی ویلنٹ اینٹی وینم کے in vivo اور in vitro تجزیے پر توجہ دی گئی۔ میرے نتائج سے ثابت ہوا کہ پاکستان میں تیار کردہ اینٹی وینم مقامی سانپوں کے زہر کو مؤثر طریقے سے بے اثر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، جس سے یہ زیادہ کارآمد اور آسانی سے دستیاب علاج کا ایک بہتر متبادل ہے۔

‎حالیہ مطالعات کے مطابق، پاکستانی وائپر اینٹی وینم (PVAV) مقامی وائپرز کے زہر کے زہریلے اثرات کو مؤثر طریقے سے ختم کرتا ہے، جو مریض کی صحت کو بہتر بنانے اور ملک میں سانپ کے کاٹے سے ہونے والی اموات کو کم کرنے کے لیے ایک اہم پیش رفت ہے۔

‎موجودہ چیلنجز:

‎بہت سے مریض سانپ کے کاٹنے کے بعد فوری طور پر اسپتال جانے کے بجائے روایتی معالجین سے علاج کرانے کی کوشش کرتے ہیں، جس سے قیمتی وقت ضائع ہو جاتا ہے۔

‎طبی مراکز تک پہنچنے میں زیادہ وقت لگنے اور اینٹی وینم کی ذخیرہ کاری کے مسائل کی وجہ سے بروقت علاج فراہم کرنے میں مشکلات پیش آتی ہیں۔

‎عوام میں سانپ کے کاٹے سے بچاؤ کے بارے میں شعور کی کمی ہے، جس سے سانپ کے کاٹنے کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔

‎ممکنہ حل:

‎مقامی اینٹی وینم کی پیداوار اور تقسیم میں اضافہ: پاکستان میں تیار کردہ اینٹی وینم کی پیداوار کو بڑھایا جائے تاکہ یہ ملک کے تمام علاقوں میں باآسانی دستیاب ہو۔

‎طبی سہولیات میں بہتری:

‎دیہی علاقوں میں صحت کے مراکز کو جدید آلات اور تربیت یافتہ عملے سے لیس کیا جائے تاکہ وہ سانپ کے کاٹے کے مریضوں کا بروقت اور مؤثر علاج کر سکیں۔

‎عوامی آگاہی مہمات:

‎روایتی علاج پر انحصار کے خطرات، فوری طبی امداد کی اہمیت، اور سانپ کے کاٹے سے بچاؤ کے لیے احتیاطی تدابیر کے بارے میں آگاہی مہمات چلائی جائیں۔

‎اگر پاکستان ان اقدامات کو ترجیح دے تو سانپ کے کاٹنے سے ہونے والے جانی نقصان میں نمایاں کمی لائی جا سکتی ہے اور ملک کے سب سے زیادہ متاثرہ اور کمزور طبقے کی صحت کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں