زوال پذیر پاکستان ۔۔۔ تحریر : صوفی محمد ضیاء شاہد

خدا کرے مری ارض پاک پر اترے
وہ فصل گل جسے اندیشہ زوال نہ ھو

احمد ندیم قاسمی کا یہ دعائیہ شعر مدت سے پڑھ رھے ھیں ۔ لیکن رب نے ابھی تک یہ دعا قبول نہیں کی۔ کیونکہ پاکستان بنانے والوں نے رب سے وعدہ کیا تھا کہ اس کے احکامات ملک کا قانون ھو گا۔ لیکن پاکستان بنانے والوں نے رب سے کیا ہوا وعدہ پورا نہ کیا۔ بلکہ رب کے ساتھ بھی بے وفائی کی۔ رب سے وعدہ خلافی کی۔ رب کے حبیب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ بھی مسلسل بیوفائی کر رھے ھیں۔ زوال کسے کہتے ھیں۔ ملک پر جو زوال آ چکا ھے اس سے بڑھ کر دنیا میں کوئی زوال نہیں ھوتا۔ 26 کروڑ عوام میں سے صرف وہ چند ھزار لوگ خوشحال ھیں جنہوں نے اس مملکت خداد کو لوٹا ھے اور دن رات قانون کی چھتری کے نیچے لوٹ رھے ھیں۔ اور وہ لوگ بھی خوشحال ھیں جو ان ملک کو لوٹنے والوں کے سہولت کار ھیں۔ ان لوگوں کو بھی کوئی پریشانی نہیں ھے جو قبضہ گروپ، بیوروکریٹس، جاگیردار اور سرمایہ دار ھیں۔ کچے کے ڈاکو اسلحہ کے زور پر عوام کو لوٹتے ھیں جبکہ پکے کے ڈاکو اپنے اپنے طریقوں سے ملک کو لوٹ رھے ھیں۔ اشرافیہ کی عیاشیوں کے لیے عوام پر بجلی گیس ادویات اور ضروریات زندگی کی اشیاء پر بھاری ٹیکس لگایا کر عوام کو زندہ درگور کر دیا ھے۔ عوام کے پاس دو وقت کے لیے کھانا میسر نہیں۔ عوام غربت مہنگائی اور ناانصافی کی وجہ سے خودکشیاں کر رھے ھیں۔ لیکن نام نہاد لیڈران پر اس بات کا کوئی اثر نہیں ھے۔ عدم تحفظ کی صورت حال یہ ھے کہ گھر سے باھر نکلنے پر کوئی گارنٹی نہیں ھے کہ زندہ واپس بھی گھر لوٹ سکیں گے۔ ملک کے سیکیورٹی ادارے کے اھلکار کسی کو بھی گولی مار سکتے ھیں۔ کسی شخص پر بھی کوئی الزام لگا کر اسے تشدد کا نشانہ بنایا جا سکتا ھے۔ کوئی بھی بگڑی نسل کا نواب زادہ کسی شہری کو بھی اپنی گاڑی کے نیچے کچل سکتا ھے۔ خداد مملکت پاکستان صرف نام کی حد تک پاک ستان ھے جبکہ یہ دھرتی قدم قدم پر غریب عوام کے لیے مقبوضہ ریاست کی شکل اختیار کر گئی ھے۔ وہ دھرتی جس کے قدم قدم قربانیاں دینے والوں کا لہو ھے جنہوں نے اپنی عزتوں کی قربانیاں دیں اپنے گھر بار قربان کیے وہ پاکستانی آج تک وہ پاکستان تلاش کر رھے ھیں جس کے لیے ان سے وعدہ کیا گیا تھا۔ وہ پاکستان جس میں صرف اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احکامات ہی چلانے کا خواب دکھایا گیا تھا۔ وہ مقبوضہ ریاست جس میں اسی ملک کے ادارے کسی بھی پاکستانی کے ساتھ جو چاھیں سلوک کریں۔ ان کے اختیارات بہت وسیع ھیں۔ ان سے کوئی سوال نہیں کر سکتا۔ سوال کرنے والے کی سانس کاٹ دی جاتی ھے۔ حق مانگنے کا بھی اختیار نہیں ھے۔ ماچس کی ڈبیا سے لے کر پانی تک ٹیکس ادا کرنے والے کو کوئی اختیار نہیں ھے کہ وہ اپنے حقوق اپنے تحفظ اپنے بچوں کے مستقبل کے بارے میں کوئی بات کرے۔ عام پاکستانی کے حقوق اور سانسیں محدود ھیں۔ عام پاکستانی کو جینے کا حق صرف اس لیے دیا جاتا ھے کہ وہ اشرافیہ کی عیاشیوں کے لیے صرف ٹیکس دیتا رھے۔ بس۔

اپنا تبصرہ بھیجیں