ہم کیسے اپنے ملک کے اندر رواداری کو قائم کرکے امن و امان لا سکتے ہیں؟؟ ۔۔۔ تحریر : ماریہ عبدالقھار

اپنے مزاج کے خلاف دوسرے کے عقیدے، سوچ و فکر، اور نظریہ کو صبر و تحمل کے ساتھ برداشت، ان کے ساتھ نرمی اور حسن سلوک کے پیش آنا، اور انہیں انکی سوچ و عقیدے کے مطابق زندگی گزارنے کا حق دینا۔۔۔
مثال کے طور پر اگر کوئی شخص یا گروہ آپ کےعقیدے یا مسلک کے برعکس کوئی دوسرا عقیدہ یا مسلک رکھتا ہے تو اس کی بات کو سننے اور اسے اپنے عقیدے اور مسلک کے مطابق قائم رہنے کا حق دینا رواداری کہلاتا ہے۔۔۔۔

لیکن اگر ہم کسی کو زبردستی اپنی مرضی کے مطابق اپنے مذہب کی تعلیم دلوانا رواداری کے خلاف ہے۔

( اللہ پاک قرآن مجید میں فرماتے ہیں )
دین کے معاملے میں کوئی زبردستی نہیں ہے۔ صحیح بات غلط خیالات سے الگ چھانٹ کر رکھ دی گئی ہے۔۔

کسی بھی ملک کے امن کے لئے ضروری ہے کہ وہاں کہ رواداری سے کام لیا جائے، کیونکہ جہاں مختلف مزاہب کے لوگ رہتے ہیں اسلئے اگر ہم ایک دوسرے کو نہیں سمجھے گے تو فساد فتنہ ہوگا۔ لیکن اب یہ بھی نہیں ہے کہ دین اسلام کو چھوڑ کر انکا ہی ہم کلچر اپنالیں۔۔۔

اسلام ہی وہ دین ہے جس نے سب سے پہلے رواداری کا علم بلند کیا اور مذہبی و مسلکی تنگ نظری و تنگ دلی کے خاتمے کا علان کیا۔۔۔۔

( ارشاد باری تعالیٰ ہے )
جو چاہے ایمان لے آئے اور جو چاہے کفر اختیار کرے۔۔۔

اسکے فائدے بھی بہت ہیں اور ہر ملک میں اہمیت بھی، لیکن جہاں مختلف مزاھب کے لوگ آباد ہوں وہاں اس کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔ ایسے ملک میں امن و امان کی فضاء تب قائم ہوسکتی ہے اور ایسا مادی و روحانی ترقی تب کرسکتا ہے جب وہاں کے باشندے کا ایک دوسرے کے ساتھ روادارانہ رویہ ہو۔۔۔۔

اپنا تبصرہ بھیجیں