28 مئی یومِ تکبیر ۔۔۔ تحریر: ڈاکٹر غلام مرتضیٰ

28مئی یوم تکبیر ہی نہیں بلکہ یہ ہم پاکستانیوں کے لیے یوم تشکر اور یوم تفاخر بھی ہے اور یہ دن اپنے نام کی طرح ایک بڑا دن ہے۔ یہ دن قومی توقیر اور ہمارے خوابوں کی تعبیر کا دن ہے۔ ہمیں اس دن کو بھی ایک قومی دن کی طرح منانا چاہیے کیوں کہ زندہ دل قومیں اپنا قومی دن تجدید عہد اور جوش و خروش کے ساتھ منایا کرتی ہیں۔ اور یوم تکبیر ایک تاریخ ساز دن ہے۔ اس دن پاکستان نے ایک نئی تاریخ رقم کی۔ اور الحمد اللہ آج کے اِس دن پاکستان ایک ایٹمی طاقت بنا۔ پاکستان کی تاریخ کا وہ تاریخ ساز لمحہ فراموش نہیں کیا جا سکتا جب بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے جواب میں پاکستان نے دنیا بھرکی مخالفت مول لیکر، یکے بعد دیگر 6 ایٹمی دھماکے، کر کے پاکستان کو بھی دنیا میں سربلند کر دیا اور جب ٹی وی پر اس کا اعلان ہوا تو پورا ملک نعرہ تکبیر کے واشگاف نعروں سے گونج اُٹھا اور اس دن پوری قوم سڑکوں گلیوں چوکوں اور چوراہوں میں آ گئی اور رب العزت کے حضور سجدہ ریز ہو گئی کہ اس روز اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جس ایٹمی قوت سے نوازا دنیا اس کا تصور بھی نہیں کر سکتی تھی۔ بلاشبہ 28مئی پوری دنیا کے مسلمانوں کے لیے فخر کا دن ہے۔ اس دن پاکستانی سائنس دانوں نے بھارتی جارحیت کا بھر پور جواب دیا اور دونوں ملکوں کے درمیان ایٹمی توازن قائم کر دیا اور یوں پاکستان نے 28مئی کو ایٹمی دھماکے کر کے اسلامی دنیا کا پہلا ایٹمی ملک ہونے کا اعزاز حاصل کیا اور یاد رہے کہ تمام دنیا میں پاکستان مسلم ملک کے جوہری تجربات کوبہت کمزور تصور کیا جاتا تھا۔یادرہے کہ تکبیر نظریہ پاکستان کا دوسرا نام ہے۔ اور یہ وہ نظریہ ہے کہ جس دن پاکستان معرض ِ وجود میں آیا تھا اور یہ ایک بہت عظیم اور طاقت ور جذبہ ہے۔ اور یہ تاثیرمیں اکثیر سے بڑھ کر ہے۔ اور جب حلقہ یاراں ہو تویہ مسلمانوں کو بریشم کی طرح نرم کر دیتا ہے اور جب رزم حق و باطل ہو تو مسلمانوں کو مانند خوددار مضبوط کرتا ہے۔اور یہ بات روز ِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ جب مسلمان اللہ کی کبریائی کے سامنے سربسجودہو جائے تو ساری دنیا اُس کے سامنے سرنگوں ہو جاتی ہے۔تو ایسے مسلمانوں کا مقابلہ دنیا کی کوئی طاقت بھی نہیں کر سکتی۔حقیقت یہ ہے کہ ہمارا ایٹمی پروگرام ملکی بقاء کی علامت بھی ہے۔اور پاکستان کے دفا اور استحقام اور سلامتی کا ضامن اور دشمن کے ناپاک اور مذموم عزائم کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔جس کی حفاظت اتحادو یگانیت اور قومی یکجہتی سے ہی ممکن ہے۔ مسلمان جب بھی تکبیر کے نعرے کو بلند کرتے میدان میں اُترتے ہیں تو وہ پہاڑوں کی چھاتیوں کو روندتے، سمندروں کو چیرتے، اور مصائب و مشکلات کے کوہِ گراں کو سر کرتے، باطل کو للکارتے اور فتح اور کامیابی کے جھنڈے گاڑتے ہی آگے بڑھتے جاتے ہیں۔
دو نیم اُن کی ٹھوکر سے سحرا و دریا
سمٹ کرپہاڑ اُن کی ہیبت سے رائی
پاکستان نے آج کے دن سر جھکانے کی بجائے سر اُٹھا کر جینے کا فیصلہ کیا۔بلکہ ذلت کی بجائے عزت کے ساتھ زندہ رہنے کا فیصلہ کیا۔ 6 ایٹمی دھماکے، کرکے دشمن کو وردہ حیرت میں ڈال دیا ہے۔اور عالم ِ اسلام کو شادمانی سے سرشار کر دیا۔اور یہ تجربے اور مشاہدے کی بات ہے کہ جب اللہ اکبر کی آواز پر راکٹ اور مزائل چلتے ہیں اور سیدھے نشانے پر لگتے ہیں تو دشمنوں پر ہیبت طاری ہو جاتی ہے۔ اس کی مثال ہم سب کے سامنے ہے جب ہمارے حکمرانوں اور جری جوانوں نے خلوص ِ دل سے کلمہ تکبیر لا اِلہ اِلا اللہ کا نعرہ لگایا تو لاہور کی بی آر بی نہر عبور کرنا بھارتی فوج کے لیے سمندر عبور کرنے سے مشکل تر ہو گیاتھا۔ پاکستان کے ایٹمی دھماکے جب ہوئے تو اہلِ کشمیر نے بھی خوشیاں منائی تھیں اور اہلِ کشمیر آج بھی پاکستان کے نام پر جی رہے ہیں۔ پاکستان کے نام پر شہید ہو رہے ہیں۔ پاکستان زندہ باد کے نعرے لگا رہے ہیں۔ اور پاکستان کے پرچم کو سلام کر رہے ہیں۔ ہم ڈاکٹر عبدالقدیر خاں، ڈاکٹر ثمر مبارک اور بالخصوص ایٹمی دھماکے کرنے والی ٹیم سمیت وہ تمام شخصیات قابل ِ تحسین و صد قابلِ احترام ہیں جنہوں نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھی اور اُسے پروان چڑھایا اور اُسے پایا تکمیل تک پہنچایا۔نعرہ تکبیر، اللہ اکبر، اللہ اکبر، اللہ اکبر

اپنا تبصرہ بھیجیں