مو لانا صاحب ہمارے بہترین دوستوں میں سے ہیں کبھی کبھا رچائے پہ بُلالیتے ہیں آنا جانا لگا رہتا ہے صوم وصلوٰتہ کے پابند اور وضع دار آدمی ہیں ایک دن یو نہی جانا ہوا ابھی بیٹھے کچھ دیر ہی ہوئی تھی کہ ایک نو جوان کو مولانا کے شاگر دتقریباََ گھسیٹتے اور مارتے پیٹتے ہوئے لیکر آئے او اپنے اُستاد کے سامنے پیش کر دیا ۔میں اپنے تئیں ایک ناکام سی کوشش کی کہ اس نوجوان کو پہچان سکوں مگر نا کام رہا جس کی وجہ نوجوان کہ سر اور بھنویں مونڈ دی گئیں تھیں چہر ے پر ملی سیاہی نے نوجوان کی معصومیت کو بھی ڈھکا ہو اتھا مگرمظلومیت اور بے بسی اُس کی آنکھوں سے چھلک رہی تھی شاگردوں نے مولانا کو بتا یا کہ یہ وہی نوجوان ہے جو ہمارے مدرسے سے تین انرجی سیو ر چوری کر چُکا ہے اور آج چوتھی واردات کیلئے ہم نے اس کو نقب لگائے ہو ئے بیٹھے رنگے ہاتھوں پکڑ ا ہے میں نے ساری کاروائی موجودہ اور گزشتہ جب سُن لی تو مولانا سے پو چھا کہ اب آپ اس کو شرعی سزا دیں گے یا قانونی مولا نا نے فرمایا شرعی سزا تو چور کا ہاتھ کا ٹنا ہے مگر قانونی سزا چھے سوروپے مالیت کی چوری پرہوجائے یہ کسی صورت ممکن نظر نہیں آتا یہاں تو بڑے بڑے مگر مچھ آزاد پھررہے ہیں اگر میں ذاتی اثر رسوخ سے اسے پکڑوابھی دوں تو یہ بُہت جلد باہر آجائیگا اس لئے جو اس کے ساتھ ہو گیا یہی کافی ہے ۔جب مولانا اپنی بات پوری کر چُکے تو میں محو استغراق میں پہنچ چکا تھا اور سوچ رہا تھا کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں چھ سوروپے کے تین انرجی سیوراتارنے پر ہماری قوم سر بھنویں بھی مونڈھ دیتی ہے منہ پر سیاہی بھی مل دی جاتی ہے بلکہ اس سے تو کہیں بڑھ کر اندرون پنجاب یا اندرون سند ھ کی بات کریں تو یہا ں چورکو گدھے پہ بٹھا کر علاقے بھر کا چکر بھی لگوا یا جا تا ہے ۔مگر تصویر کا دوسر رُخ دیکھتے ہی انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے جب پاکستانی قوم کے چھ سو کروڑ لوٹ کر سوئس بینک بھرنے والے سابق صدر آصف علی زرداری کو جب گیارہ سال قید کاٹنی پڑتی ہے عدالتوں کے پھیرے لگانے پڑتے ہیں اپنے دور حکومت میں وقت کے وزیراعظم کو پیسے واپس نہ منگوانے پر وزارت عُظمیٰ سے ہاتھ دھونا پڑتے ہیں ۔ مگر قربان جاؤں میں میاں محمد نوازشریف پہ جنہوں نے ثابت کردیا کہ لگائی کیسے جاتی ہے اور نبھائی کیسے جاتی ہے خبر یہ ہے کہ پاکستان کے سابق صدر آصف علی زرداری نیب میں دائر سوئس بینک کیس میں با عزت بر ی ہو گئے ہیں یقینناََ یہ بُہت بڑی خبر ہے خبر تو یقینناََ جتنی بڑ ی ہے سہی ۔ مگر یہ اُس سے کہیں بڑ اوہ تھپڑ ہے جو ہمار ے انصاف فراہم کرنے والے اداروں کے مُنہ پر پڑ اہے ہمارے یہاں لگ بھگ ڈیڑھ سو سال سے جاری انگر یز کا فرسودہ نظام انصاف جو آج بھی پوری آب وتاب کیساتھ چل رہاہے جس ملک میں میں گواہوں کو ڈرا دھمکا کر یا پیسے کی چمک دکھا کر خرید لیا جاتا ہو جہاں نظام عدل اس قدر مضبو ط ہو کہ پاکستان کے نام و ر سیا ستدان نبیل گبول کے بھتیجے اور حاضر سروس ڈی ایس پی کے بیٹے کو گولیوں سے بھون دیا جائے اور عدالت عالیہ قاتل کو با عزت بَری کر دے اور قاتل شاہ زیب بگٹی وکٹری کا نشان بناتا ہو ا عدلیہ کے مُنہ پر تھپڑ رسید کر تا ہو ا نکل جائے تو آج مقتول شاہ رخ جتوئی کی فیملی پاکستان چھوڑ چُکی ہے کہاں ہے انصاف ۔جس ملک میں ولی بابر جیسا دلیر صحافی دن دیہاڑے سفاکیت کی بھینٹ چڑ ھ جائے اور پھر چُن چُن کر اس کے گواہوں کو ماردیا جائے تو یہاں محفوظ کو ن ہوگا ۔ میر ااُس دن سے قلم اُٹھانے کو دل ہی نہیں کر رہا جب ہائیکورٹ کے باہر مقتول زین رؤوف کی ماں سے ایک صحافی بار بار پو چھ رہا تھا کہ آپ کیوں اپنے بیٹے کے قتل کی پیر وی کر نا نہیں چاہتیں کیا آپ پر کوئی دباؤ ہے ؟ وہ ماں کی آوازمیں درد نے جو ضرب میرے دل پر لگائی کا ش ایوان عدل میں بیٹھے مُنصف سمجھ سکتے ۔ جو کہہ رہی تھی کہ میں نے اپنے بیٹے کا خون معاف نہیں کیا مگر دو جوان بیٹیوں کے ہوتے اتنے طاقتور لوگوں کا مقابلہ نہیں کر سکتی ۔یقین کر یں اس قدر گھبرائی ہو ئی آواز سہمی ہوئی ماں جس کا اکلوتا بیٹا زین ایک جاگیر زادے سابق وزیر مملکت صدیق کانجو کے عیاش بیٹے مصطفی کانجو کی فرعونیت کی بھینٹ اُس وقت چڑھا جب وہ شراب کے نشے میں دُھت اند ھا دُھند فائر نگ کر رہا تھا زین رؤوف گلی سے گُزرتا ہوافائرنگ کی زد میں آگیا اور دو جوان بہنوں کے ارمانوں کا خواب چکنا چور ہوگیا اور بیوہ ماں کاسولہ سالہ اکلوتا سہا را تکبر اور طاقت کے نشے میں بدمست ہاتھی پیروں تلے روندگیا۔اور پھر وہی ہوا جو ہمیشہ سے ہوتا آرہا ہے اس کیس کہ چودہ گواہ تھے ۔ چودہ کے چودہ مُکر گئے جن میں ایک مقتول کا ماموں سُہیل افضل بھی تھا جو ڈرگئے یا بک گئے یہ ہے اسلامی جمہوریہ پاکستان جہاں کمزور کیلئے الگ قانون اور طاقتور کیلئے الگ قانون ہے آئین پاکستان صر ف اشرافیہ کے دفاع کا نام ہے نوابوں کے شہزادوں کوتحفظ دینے کا نا م ہے ۔ ایسے اسلامی نظریاتی ملک میں سیلاب تو پھر آئیں گے زلزلے بھی آئینگے ۔آج زمین پر قبضہ کرنا ہے تو پٹواری خرید لو ۔اگر فیصلہ اپنے حق میں لینا ہے تو مہنگا وکیل کرنے کی بجائے مہنگا جج کر لو ۔ اگر کسی مخالف کو ڈرانا دھمکانا یا زبان بندی کروانی ہے تو پولیس کی خدمات حاصل کر لو ۔ جب ادارے چوروں رسہ گیروں اور مجرموں کو تحفظ دینے لگ جائیں پھر شریف آدمی بھی اپنی شرافت اُتاردیتا ہے ۔ ہمارے یہاں انویسٹی گیشن کا نظام اس قدر اعلیٰ ہے کہ اگر کسی جگہ قتل ہواتو اس علاقے سے بیس بندوں کو پکڑ لو ۔ پہلے مُدعی پارٹی سے پکڑنے کے پیسے لے لو ۔ پھر مُلزم پارٹی سے چھوڑنے کے پیسے لے لو ۔ گڈ گورننس کے دعوے کرنے والے آنکھیں کھولیں اور ذرادیکھیں کہ عام آدمی کس طرح ذلیل ہورہا ہے ۔جب خلیفہ ثانی حضرت عُمرؓ کے دور میں زلزلہ آیا حضرت عُمر نے زمین پر دُرہ مارا اور فرماکیا عُمر تجھ پہ انصاف نہیں کر تا جو تو نے کانپنا شروع کردیا راوی کہتا ہے اُس دن کے بعد مدینہ کی زمین پہ کبھی لرزہ طار ی نہ ہوا مگر میں آج پاکستان کے انصاف مہیا کرنے والے ایوان عدل سُپریم کورٹ آف پاکستان کی دیواروں میں زلزلے کے بعد پڑی ہوئی دراڑیں دیکھتا ہوں اور مسجد کے میناروں کے گِرے ہوئے کنگر ے دیکھتا ہوں تو مجھے حضرت علیؓ کا وہ قول یاد آجاتا ہے کُفر کا نظام چل سکتا ہے مگر ظلم کا نظا نہیں چل سکتا ۔ اگر یہ ظُلم کا نظام اسی طرح چلتارہا تو پھر یادرکھنا نہ ہم رہیں گے اور ناں ہماری حکومتیں رہیں گی کیونکہ خُدا ظُلم کرنے والوں اور ظالموں کا ساتھ دینے والوں کو کبھی پسند نہیں کر تا اور جسے وہ پسند نہ کرتا ہواُسے وہ نشان عبرت بنا کر مصر کے میو زیم میں رکھوادیتا ہے تا کہ نسل انسانی اسے دیکھ کر ظا لموں کا انجام دیکھتی رہے