جب سے فرانس پر حملہ ہوا ہے تب سے پوری دنیا خاص طور پر یورپ اور مغرب میں ایک نئی بحث کا آغاز ہو گیا ہے اسکے ساتھ ساتھ شامی بے گناہ پناہ غزینوں اور یورپ، برطانیہ اور امریکہ میں رہنے والے مسلمانوں کے لئے بھی مشکلات میں اضافہ ہو آ ہے ۔
فرانس میں دہشت گردی کے واقعات کے بعد پورے مغرب میں پریشانی کا عالم ہے اور لوگ تذبذب کا شکار ہیں اسکے بعد روس ، فرانس اور امریکہ کی طرف سے شام پر بلا خوف و خطر بمباری میں اضافہ کر دیا گیا جس کی وجہ سے روزانہ سینکڑوں بے گناہ بچے، بوڑھے اور عورتوں کو موت کے گھاٹ اتارا جا رہا ہے ۔ مغربی میڈیا اور حکمرانوں کی طرف سے یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ ہم دولت اسلامیہ کی نام نہاد دہشت گرد تنظیم پر چڑ دوڑے ہیں اب اس کے خاتمے تک اس کا پیچھا نہیں چھوڑے گے ۔جس پر نام نہاد انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی آنکھیں بند کی ہو ئی ہیں کیونکہ سوال یہ ہے کہ کیا فرانس میں کے لوگ ہی بے گناہ اور معصوم تھے جس پر پوری دنیا چیخ اٹھی ان معصوم لوگو ں کا کیا قصور ہے جن پر آپ نے زبردستی جنگ مسلط کر دی جو روزانہ شام ، سیریا، بیروت، پاکستان ، کشمیر ، ایران ، عراق اور افغانستان میں مارے جا رہے ہیں ۔
برطانیہ میں بھی اب ماحول پر سکون نہیں رہا کبھی پولیس دہشت گردی کے خطرات کے باعث ٹوٹنگ براڈ وے کبھی بیکر اسٹریٹ تو کبھی سلو ہ کا اسٹیشن خالی کرواتی ہے۔ لیکن افسوس کے مغرب میں بھی حکمران عوام کے سامنے یہ تسلیم کرنے سے ڈرتے ہیں کہ آج یہ سب انکا اپنا کیا دھرا ہے جس کا نتیجہ سامنے آرہا ہے جس کی وجہ سے وہ مزید دلدل میں پھنستے جا رہے ہیں ۔
آج مغرب میں آزاد رائے کے نام سے مختلف مذاہب اور ثقافتوں کا مذاق اڑایا جاتا ہے جس کی وجہ سے معاشرے میں نفرت پھیل رہی ہے فرانس میں اس سے پہلے بھی کچھ اسی طرح کے واقعات پیش آ چکے ہیں اور یہ معاملہ اس وقت شروع ہوا جب پہلی بار مسلمان خواتین کے نقاب پر پابندی لگائی گئی اور کہا گیا کہ یہ ہماری ثقافت پر حملہ ہے حالانکہ سعودی عرب اور پاکستان سمیت دیگر مسلم ممالک میں اگر عورتوں کو پردے کا کہا جائے تو یہ نام نہاد قوتیں اسے عورتوں پر ظم و جبر کا نام دیتی ہیں اس وقت یہ کیو ں نہیں سوچتے کہ ان ممالک کی بھی اپنی ثقافت ہے اور ہم اس پر حملہ کر رہے ہیں ۔
آپ کو یاد ہوگا کچھ عرصہ پہلے ہی فرانس میں چارلی ہیبڈو میگزین کی جانب سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق گستاخاناں خاکے شائع کئے حالانکہ فرانس وہ ملک ہے جس میں مسلمان لاکھوں کی تعداد میں رہتے ہیں لیکن پھر بھی مسلمانوں کے جذبات مجروح کئے گئے جس کے نتیجے میں ان کے دفتر پر حملہ بھی ہوا اور کچھ لوگ بھی مارے گئے اور مغرب کے تمام لیڈر انکے ساتھ اظہار یکجہتی کے لئے کھڑے ہو گئے دوسرے لفظوں میں اس ادارے اور تمام دوسرے خبر رساں اداروں کو لائسنس مل گیا کہ وہ آزاد رائے کے نام پر کسی بھی مذہب یا ثقافت کا مذاق اڈا سکتے ہیں ۔
کاش اگر فرانس نے اپنی تاریخ سے ہی سبق سیکھ لیا ہوتا تو شائد آج ان کو یہ دن دیکھنے کو نہ ملتے اگر آپ فرانس کی تاریخ کا مطالعہ کرے تو معلوم ہوتا ہے کہ فرانس میں انیس سو ستر کی دہائی میں کوئی دس لاکھ سے زیادہ بیکاری تھے لوگوں کی حالت نہایت ہی خستہ تھی بھوک افلاس کا دور تھا لوگ غربت سے مر رہے تھے فرانس میں بادشاہت کا دور سلطنت پر اشرافیاں کا راج تھا عوام کا کوئی پرسان حال نہیں تھا ایک وقت ایسا آیا کہ لوگوں کی غربت اور بے بسی کا مذاق اڑایا جانے لگا کبھی مذاق میں کہا جاتا کہ بریڈ کھا کر گزارا کریں تو کبھی کہنے لگے کہ اگر اتنی ہی بھوک لگی ہے تو گھاس کیو ں نہیں کھا لیتے اور طرح طرح سے غریب لوگوں کا تمسخر اڑایا جاتا ۔
جب انکی عزت نفس کو مجروح کیا گیا تو وہی ان کے خلاف نفرت کا سبب بنا اور اسطرح لوگوں کے اندر غم و غصہ اور بادشاہ اور انکے حواریوں سے انتقام کا جذبہ پروان چڑھنے لگا جس سے انقلاب کی چنگاری نے جنم لیا انقلاب سے دو سال پہلے ملک میں سخت قحط سالی کا سامنا تھا جس سے لوگوں کی حالت اور بھی خراب ہو گئی عوام کے دکھائے کے لئے ایک آئین اور پارلیمنٹ بھی بنائی گئی لیکن عوام کی زندگیوں میں بہتری کے لئے کچھ نہ کیا گیا اور امراء کی عیاشیاں دن بہ دن بڑھتی جا رہی تھی ۔
پھر وہ دن آیا جب عوام نے ہر گلی محلے میں عوامی عدالت لگائی جس کے ہاتھ نرم ہوتے اسکو لٹکا دیا جاتا تو جس کے کپڑے میلے نہیں تھے اسکا بھی سر کاٹ دیا گیا وہ شخص جو انکا مذاق اڑاتے اور کہتے کہ گھاس کیوں نہیں کھا لیتے انکے منہ میں گھاس بھر کر قتل کیا گیا غرض ہر اس شخص کو موت کے گھاٹ اتارا جو عوام کو لگتا تھا کہ یہ بھی شرفاء میں سے ہے اور انکی غربت اور بے بسی کا مذاق اڑاتے تھے ۔
پھر تاریخ میں وہ دن بھی آیا جب بادشاہ کو عوام کی عدالت میں پیش کیا گیا اور وکلاء کی طرف سے بڑے دلائل دئے گئے حتی کہ بادشاہ نے خود ہیرو بنتے ہوئے عوام سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ میں نے ملک کو آئین اور پارلیمنٹ دیا لیکن عوام کو اس سے کیا لینا دینا اور بادشاہ کی گردن ایک بڑے چھرے کے ساتھ سر عام کاٹ دی گئی اور ایک آدمی نے اس کے خون میں انگلی لگا کر زبان کو لگائی اور بولا بادشاہ کا خون بھی ہماری طرح نمکین ہی ہے اس کے بعد نیپولین آیا اور اس نے عدالتوں کا نظام متعارف کروایا اور ایک مشہور جملہ کہا کہ جب عدالتیں انصاف نہ کرے تو لوگ عدالتیں سڑکوں پر ہی لگائے گے ۔
اگر فرانس اور دوسرے مغربی ممالک تاریخ سے سبق حاصل کرتے کہ ہر انسان کا خون ایک جیسا ہی ہوتا اور لوگوں کے مذہب اور ثقافت کا مذاق نہ اڑائے تو ابھی بھی اس دلدل سے باہر نکل سکتے ہیں ۔