انتشار، بے چینی اور مایوسی کے دور میں شکوک و شبہات اور بداعتمادی جنم لیتی ہے۔ سب ایک دوسرے کے گریبان چاک کرنے کی فکر میں ہوتے ہیں۔ سب ایک دوسرے کو مجرم قرار دیتے ہیں۔ اس کی نمایاں مثال انقلاب فرانس کا وہ دس سالہ عہد ہے جب انقلاب کی ابتداء کرنے والوں، جیل اور سزائیں بھگتنے والوں اور قربانیاں دینے والوں پر بھی شک کرکے ان کے سرقلم کردیئے گئے۔ ایسے ماحول میں حقیقت تک پہنچنا اور صحیح راستہ تلاش کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ اِن دنوں آئی پی پیز کے بلوں سے جہنم کی طرح جھلسے مجبور عوام کی ہمدردی میں ہرطرف رونا پیٹنا شروع ہے۔ اگر غور کریں تو آئی پی پیز کے خلاف عوام کا غصہ ابھارنے کا یہ موجودہ سلسلہ کچھ عرصے سے ایک مرتبہ پھر شروع ہوا ہے جبکہ بجلی کے بل عوام کو ایک لمبے عرصے سے ڈس رہے ہیں۔ چند دن قبل مشہور صنعتکار ڈاکٹر گوہر اعجاز کی ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس میں وہ بتا رہے ہیں کہ کس طرح حکومتیں غریب عوام کا بچا کھچا خون نچوڑ کر آئی پی پیز کو کروڑوں ڈالر مفت میں دے رہی ہیں۔ یہاں ڈاکٹر گوہر اعجاز کی بات کو ذرا چھوڑ کر پہلے آئی پی پیز کی فلاسفی منظر عام پر آنے کی بات کرلیتے ہیں۔ آئی پی پیز کی فلاسفی اُس وقت سامنے آئی جب ملک میں بجلی کی پیداوار بہت کم او ر استعمال بہت زیادہ ہونے کی بات کی جانے لگی۔ اس حوالے سے دو پرانی خبروں کا ذکر کرتے ہیں۔ شوکت عزیز کے دور میں ڈاکٹر گوہر اعجاز کی سربراہی میں بجلی کی کم دستیابی کے خلاف بھرپور مہم چلائی گئی۔ دوسری خبر جون 2014ء کی ہے جس میں آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن کے پنجاب کے چیئرمین اور مشہور صنعتکار ایس ایم تنویر پریس کانفرنس کرتے ہوئے بجلی کے معاملات حل نہ کرنے کی صورت میں احتجاج اور ہڑتال کی دھمکی دیتے ہیں۔ بجلی کی طلب پوری کرنے کے لیے آئی پی پیز کی فلاسفی کو ابھارنے کے پیچھے شاید دو محرکات ہو سکتے تھے۔ پہلا یہ کہ بجلی کی طلب اور رسد میں فرق دن بہ دن بڑھتا جارہا تھا اور یہ مسئلہ حکومتوں کی سیاسی موت بن رہا تھا۔ لہٰذا اُس وقت کی حکومتوں نے سیاسی فائدے کے لیے جلدبازی میں آئی پی پیز کی پالیسیاں تیار کیں۔ آئی پی پیز کی فلاسفی کا دوسرا محرک حکمران اشرافیہ کی بدنیتی اور ساہوکار ذہنیت کا الحاق تھا۔ گزشتہ دہائیوں میں گاہے بگاہے مخصوص صنعت کاروں اور کاروباری شخصیات نے یہ پراپیگنڈہ کیا کہ ملک میں بجلی کی پیداوار کم سے کم ہوتی جارہی ہے اور اندرون خانہ حکومت پر دباؤ ڈالا کہ پرائیویٹ سیکٹر میں بجلی کارخانے لگانے کی اجازت دی جائے اور پھر انہی کارخانوں سے حکومت مہنگی بجلی خریدے۔ ان مخصوص صنعت کاروں اور کاروباری شخصیات نے اپنی فیکٹریوں کے مزدوروں، ملازمین اور ٹریڈ یونین کو استعمال کرکے احتجاج کروائے، ہڑتالیں کروائیں، سڑکیں بند کروائیں، جلاؤ گھیراؤ کئے اور میڈیا میں سنسی خیزی پیدا کی اور تاثر دیا کہ بجلی نہ ہونے کے باعث لاکھوں غریب مزدور بے روزگار ہونے جارہے ہیں۔ ان کے ہمراہ درپردہ بعض حکمران اشرافیہ اور بعض اپوزیشن شخصیات بھی ہمیشہ رہیں۔ اب یہاں یہ کہنا درست نہ ہوگا کہ اُس وقت کی وہ متعلقہ حکومتیں ایماندار تھیں مگر مجبور تھیں بلکہ یہ کہنا درست ہوگا کہ اُس وقت کی وہ متعلقہ حکومتیں بدنیت تھیں۔ ان پالیسیوں کو اتنی جلدبازی میں ڈرافٹ کیا گیا کہ کم پڑھے لکھے بھی ان کو پڑھ کر متعلقہ حکومتوں، متعلقہ سیاسی شخصیات اور متعلقہ صنعت کاروں و کاروباری شخصیات کو ڈاکو کہیں گے لیکن ہائے رے عوام کی قسمت کہ گزشتہ تقریباً تین دہائیوں سے جب سے آئی پی پیز کا ذکر عام ہونا شروع ہوا اور پالیسیاں بننی شروع ہوئیں یہ ڈاکو راج اب تک قائم دائم ہے۔ اب آتے ہیں ڈاکٹر گوہر اعجاز کی اوپر چھوڑی گئی ادھوری بات کی طرف۔ اُن کی اُس وائرل ویڈیو کو دیکھنے اور سننے والے دھاڑیں مارمارکر رونا شروع ہو جاتے ہیں اور ڈاکٹر گوہر اعجاز کو نجات دہندہ سمجھنے لگے ہیں۔ ڈاکٹر گوہر اعجاز کی آئی پی پیز کو نوازنے والی باتیں تو بالکل درست ہیں لیکن ان کے بارے میں ایک تاثر یہ بھی سامنے آرہا ہے کہ ڈاکٹر گوہر اعجاز آئی پی پیز کے معاہدوں کے خلاف مہم کو ہائی جیک کرنے کے لیے پلانٹ کیے گئے ہیں۔ ان کے بارے میں یہ بات بھی کچھ حلقوں میں کہی جارہی ہے کہ ڈاکٹر گوہر اعجاز کا تعلق طاقتور حلقوں سے بھی ہے اور یہ کہ وہ بجلی مافیا کے ملک ریاض بنائے جارہے ہیں۔ کچھ تنقید کرنے والے اس کے ثبوت کے طور پر آئی پی پیز کی ہسٹری کے چند نکات پیش کرتے ہیں۔ مثلاً اس سلسلے میں آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن اور چیمبر آف کامرس وغیرہ جیسی تنظیموں نے گزشتہ تین دہائیوں میں وقفے وقفے سے حکمران اشرافیہ کے ساتھ مل کر انرجی کی کم یابی بڑھا چڑھا کر پیش کی اور اس کا حل آئی پی پیز کی فلاسفی کی صورت میں دیا۔ ابتدائی طور پر انہیں چھوٹے پیمانے پر اپنی ضرورت کے لیے بجلی پیدا کرنے کے لائسنس مل گئے لیکن انہوں نے معاہدوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اس بجلی کو کئی گنا مہنگے داموں بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کو ہی بیچنا شروع کردیا۔ اسی حوالے سے 1997ء میں آئی پی پیز کے خلاف مقدمات بھی درج کئے گئے لیکن حکومتی شخصیت سیف الرحمان کے ساتھ ڈیل کے تحت ان درج شدہ مقدمات پر کوئی کاروائی نہ ہوسکی۔ ایک مرتبہ ایف آئی اے نے ایک انکوائری کی جس سے پتا چلا کہ ایک مخصوص صنعتی گروپ نے بجلی کے سلسلے میں فیصل آباد الیکٹرک سپلائی کمپنی کو تقریباً 30 ارب روپے کا نقصان پہنچایا ہے۔ جب انکوائری افسر نے کسی قسم کی ڈیل سے انکار کیا تو ا س کی ٹرانسفر کردی گئی۔ ایف آئی اے کی اس انکوائری پر جے آئی ٹی بنیں اور دو وزرائے اعظم نوازشریف اور عمران خان کے سامنے ان جے آئی ٹی کی رپورٹیں پیش کی گئیں۔ نواز شریف کی حکومت چلی گئی۔ بعد میں وزیراعظم عمران خان نے معاملہ مل جل کر طے کرنے کا اشارہ دیا۔ یوں ایک مرتبہ پھر ڈیل ہوگئی۔ اُس جے آئی ٹی کا وہی سربراہ کچھ عرصے بعد نگران حکومت میں انرجی کا نگران وزیر بھی بنا۔ یہاں یہ بات واضح کردیں کہ جے آئی ٹی کے وہ سربراہ ڈاکٹر گوہر اعجاز نہیں تھے۔ اب ڈاکٹر گوہر اعجاز آئی پی پیز کے معاہدوں کے خلاف مہم کی سربراہی کررہے ہیں اور ان کی موجودہ وائرل ویڈیو میں ان کے ساتھ وہی ایس ایم تنویر بیٹھے ہیں جو 2014ء میں اپٹما پنجاب کے چیئرمین تھے اور جن کی مذکورہ پریس کانفرنس کا اوپر ذکر کیا گیا ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ ڈاکٹر گوہر اعجاز خود اور ان کے کئی ساتھی بشمول ایس ایم تنویر آئی پی پیز کے معاہدوں کے تحت بجلی پیدا کرنے والے صنعتکار ہیں۔ ہوسکتا ہے یہ اچھے یعنی گڈ آئی پی پیز ہوں اور بیڈ یعنی برے آئی پی پیز کے خلاف مہم چلا رہے ہوں۔ ملک میں اب تک جتنی بھی نمایاں سیاسی سماجی اور معاشی تحریکیں چلی ہیں ان کے حوالے سے بعد میں پتا چلتا ہے کہ وہ کسی نہ کسی مخصوص مفاد کے تحت چلائی گئیں یا ہائی جیک کی گئیں۔ نہ جانے آئی پی پی پیز کے خلاف آواز بلند کرنے والوں کو خواہ مخواہ بدنام کیا جانے لگا ہے یا ایک مرتبہ پھر عوام کی مفلسی اور مجبوری کا تماشہ بناکر ہائی جیکنگ کا کوئی نیا منصوبہ ہے۔ اسی پر مرزا غالب کا یہ شعر یاد آتا ہے
حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں
مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں