ذمہ داری کا مظاہرہ کیجیے! ۔۔۔ تحریر: شاہد مشتاق

جمعرات کو مدین سوات میں سیالکوٹ کے شہری کے ساتھ جو ہوا اور بعد میں اسے بطور طنز پنجابی سیاح کہہ کر تعصب ،نفرت اور غیر ذمہ داری کا جو شرمناک مظاہرہ کیا گیا افسوسناک ہے ۔
مقتول نے کچھ کیا تھا یا نہیں ؟ اصل حقائق تو آنے والے دنوں میں سامنے آجائیں گے مگر فی الحال جو کچھ سامنے آیا ہے ہجوم کی سطحی جذباتیت اور بیوقوفانہ طرز عمل کا شاندار مظاہرہ تھا ، اس انتہائی گھناونے اقدام کے ذمہ دار صرف عام آدمی نہیں بلکہ آئمہ مساجد اور معززین علاقہ بھی ہیں جنہوں نے مشتعل افراد کے غصے کو ٹھنڈا کرنے کے بجائے مزید بھڑکایا ۔
توہین مذہب جس میں توہین قرآن و رسالت بھی شامل ہیں پاکستان میں ایک حساس اور گھمبیر مسئلہ بنتا جارہا ہے ہوسکتا ہے کچھ لوگ اس کا غلط استعمال کر کے اپنی ذاتی دشمنی نکالتے ہوں مگر کچھ ایسے کیسز بھی دیکھنے میں آئے جب چالاک لومڑیوں نے مغربی ممالک میں پناہ حاصل کرنے کے لئے خود یہ مذموم حرکت بھی کی اور بعد میں مظلوم بھی بن گئے، اور کئی واقعات میں باقاعدہ پلاننگ کے ساتھ مسلمانوں کے جذبات کو بھڑکانے اور بعد میں انہیں دنیا میں بدنام کرنے کے لئے اس طرح کی شیطانی حرکات کی گئیں ۔
واقعہ سچا ہو یا جھوٹا اور خواہ اس کے کچھ بھی محرکات ہوں بہرحال کسی بھی فرد یا ہجوم کو کسی صورت قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں ہونی چاہئے ، ایک ایسا ملک جہاں ملا مسجد کے منبر پر بیٹھ کر اپنے ہی دوسرے مسلک کے کلمہ گو بھائی کو کافر ، گستاخ اور مشرک قرار دیتا ہو وہاں کسی بھی مخالف پر توہین مذہب کے قانون کا استعمال کرنا چنداں مشکل نہیں ۔
قیام پاکستان سے لے کر 2021 تک، پاکستان میں تقریباً 1,500 سے زائد توہین مذہب کے کیسز رجسٹر کیے گئے ہیں۔ ان کیسز کی تعداد میں 1980 کی دہائی کے بعد ایک نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا، جب جنرل ضیاء الحق نے اسلامی قوانین متعارف کرائے اور توہین مذہب کے قوانین کو مزید سخت بنایا۔
اس حوالے سے پنجاب سب سے زیادہ متاثرہ صوبہ ہے جہاں 79 فیصد کیسز رجسٹرڈ ہوئے ہیں، اس کے بعد سندھ 12.3 فیصد کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے بلوچستان ، خیبر پختونخواہ میں نسبتاً کم واقعات ہوئے ہیں۔
توہین مذہب کے الزامات کے نتیجے میں 1947 سے اب تک یعنی 2024 تک 89 افراد یا ایک دوسری رپورٹ کے مطابق 84 افراد کو غیر قانونی طور پر ماورائے عدالت قتل کیا گیا ہے، جن میں سے زیادہ تر مسلمان تھے یا کم از کم خود کو مسلمان کہلاتے تھے ۔
2000 سے 2024 تک پاکستان میں توہین مذہب کے کیسز میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ سنٹر فار سوشل جسٹس کی ایک رپورٹ کے مطابق 2020 میں توہین مذہب کے کیسز میں خاطرخواہ اضافہ دیکھا گیا، جبکہ مجموعی طور پر 2000 سے 2024 تک ہزاروں کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔
حیران کن امر یہ ہے کہ صرف 2001 سے 2015 کے درمیان 1296 کیسز درج ہوئے، جس میں سے زیادہ تر کیسز پنجاب میں رپورٹ ہوئے،2000 کے بعد ہر سال توہین مذہب کے کیسز کی تعداد میں پچھلے سال کی نسبت اضافہ ہوتا رہا ہے حالانکہ اس میں لبرل ازم کے دعویدار جنرل مشرف کا سخت گیر مگر آزاد خیال دور حکومت بھی شامل ہے ۔
یہ اعداد و شمار میں نے گوگل اور اے آئی کی مدد سے اکٹھے کئے ہیں جو انسانی حقوق کی تنظیموں اور پاکستان میں موجود توہین مذہب کے قوانین کے ناقدین کے لیے تشویش کا باعث ہیں کیونکہ ماضی میں ان قوانین کا غلط استعمال کرکے ذاتی دشمنیوں اور فرقہ وارانہ کشیدگی کو بڑھانے کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے ۔
قیام پاکستان سے اب تک توہین مذہب کے رجسٹرڈ کیسز میں کئی افراد کو عدالتوں نے بری کیا ہے جبکہ کئی ملزمان لوگوں کے خوف یا سزا سے بچنے کے لئے ملک سے فرار ہوگئے ۔
ایک رپورٹ کے مطابق، 2001 سے 2021 تک اکیس سالوں میں 57 فیصد کیسز میں ملزمان کو عدالتوں کی طرف سے بری کر دیا گیا ۔
زیادہ تر کیسز میں عدالتوں نے ناکافی ثبوت، قانونی بے ضابطگیوں، اور شہادتوں کی کمی کی بنیاد پر بریت کے فیصلے کیے ۔
2017 میں ایک ایسے شخص کو بھی سپریم کورٹ نے بری کیا جو پہلے سے توہین مذہب کے کیس میں عمر قید کی سزا بھگت رہا تھا، تاہم بعد میں دائر اپیل پر اعلی عدالت نے شواہد کو غیر معیاری قرار دیکر ملزم کو بری کردیا
بریت کے یہ فیصلے ظاہر کرتے ہیں کہ کئی کیسز میں قانونی عمل اور شواہد کی اہمیت کو نظرانداز کیا جاتا ہے، جس کے نتیجے میں ملزمان پر غلط الزامات عائد ہوتے ہیں، دوسری وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ جب ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں تو لوگوں کی جانب سے شواہد اور ثبوت جمع کرنے کے بجائے موقع پر ہی ملزم کو سزا دینے کی کوشش کی جاتی ہے نتیجتاً ہجوم کے ہاتھوں سارے شواہد اور ثبوت ضایع ہو جاتے ہیں۔
پاکستان میں قیام سے اب تک توہین مذہب کے الزامات پر جتنے لوگ قتل ہوئے ان میں سے اکثر واقعات پنجاب میں رونما ہوئے، جہاں 77.4 فیصد ہلاکتیں ہوئیں۔ ان ہلاکتوں میں ذیادہ تر مسلمان جبکہ کچھ اقلیتی فرقوں سے تعلق رکھتے تھے ۔
یہ اعداد و شمار اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ پاکستان میں توہین مذہب کے الزامات ذاتی اور سماجی تنازعات کی بنیاد پر بھی لگائے جاتے ہیں، جو کہ ماورائے عدالت تشدد اور قتل و غارت گری کا باعث بنتے ہیں تاہم اس قانون کے غلط استعمال کا شکار اقلیتی فرقوں سے ذیادہ خود مسلمان بنتے رہے ہیں ۔
ہمارے ملک میں کئی سالوں سے ایک قوال بھونک بھونک کر اپنی قوالی میں بار بار اللہ رب العالمین کو ” تو اک گورکھ دھندہ ہے ” کہتا رہتا ہے مگر کسی کا ایمان جوش نہیں مارتا کیوں کبھی کسی نے گورکھ دھندہ کا مطلب جاننے کی کوشش نہیں کی؟ ، ہم ایسے ملک میں رہتے ہیں جہاں قرانی اوراق اور آیتیں گندی نالیوں سے ملتے ہیں ، جہاں بابوں کو انبیاء اور بعض اوقات خدا سے بھی اوپر مقام دے دیا جاتا ہے ، ہمارے ہاں صبح سے شام تک اور شام سے صبح تک رشوت ،جھوٹ ، سود ، غیبت حسد ، جادو اور زنا اور پتہ نہیں کون کون سی خرافات عام ہیں ان کے خلاف ہمارا ایمان کیوں نہیں جاگتا؟ ۔
ہم اپنے اندر کیوں نہیں جھانکتے اپنا انصاف خود کیوں نہیں کرتے ؟ ہماری تلواریں صرف دوسروں کا سر قلم کرنے کے لئے کیوں اٹھی رہتی ہیں ؟ ۔
خدارا جاگ جائیے اس سے پہلے کہ اس معاشرے میں صرف درندوں کا غلبہ ہو اپنے حصے کی ذمہ داری کا عملی مظاہرہ کیجئے ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں