پچھلے کچھ عرصہ سے لند ن میں رہ رہا ہو لیکن آج میرے ساتھ ایک ایسا وا قع پیش آیا کہ میرا سر شرم سے جھک گیا یہ کہانی ایک یورپین لڑکی کی ہے جو کچھ دن پہلے پاکستان گئی وہاں اس نے اسلام قبول کیا اور سمندری کے ایک گاوٗں سے تعلق رکھنے والے لڑکے سے شادی کی اور پھر بیس دن کے بعد وہ لندن واپس آگئی وہ میرے گھر کے قریب رہتی ہے تو آج رستے میں میری ملاقات ہو گئی اب یہ میری بد قسمتی کہہ لے یا پھر کچھ اور کہہ میں نے اس سے پوچھ لیا وہ پاکستان گئی تھی تو اسکو کیسا لگا اس نے بڑی خوشی سے بتایا کہ وہاں کے لوگ بہت اچھے تھے سب نے اسکا بہت خیال رکھاگاوٗں کے سب لوگ اسکی بڑی عزت کرتے تھے مجھے یہ سب سن کے بہت خوشی ہوئی لیکن میری یہ خوشی چند لمہوں کی تھی پھر اس نے وہ نہ ختم ہونے والی داستان شروع کی کے جس سے مجھے پہلی بار پاکستانی ہو نے پے شرم مہسوس ہونے لگیاس نے کہا کہ لوگ تو بہت اچھے تھے لیکن وہاں صفائی ستھرائی کا کوئی انتظام نہیں تھا سکولوں کی حالت بہت ہی بری تھی بچے ننگے پاوٗں گند میں پھر رہے ہیں میں نے سوچا کہ چلو ہمارے گاوٗ ں تو ہے ہی ایسے ہی کیو نکہ کبھی کسی نے کوئی خاص توجہ ہی نہی دی اسطرف کیونکہ ابھی تو ہمارے شہروں کی بھی کوئی خاص قابل ذکر حالت نہی ہے پھر اس نے بتایا کہ کیسے شادی کی اگلی صبح کسی نے صبح صبح زور زور سے چلانا شروع کر دیا شور سے اسکی آنکھ کھل گئی اور وہ گبھرا کر باہر آئی کہ باہر کو ئی لڑائی جگھڑا ہو گیا ہے با ہر کوئی چلا چلا کر گھر والوں سے شادی کی مبارک باد کے پیسے مانگ رہی تھی پوچھنے پر اسے بتایا گیا کہ اگر اسکو پیسے نہ دیے تو یہ یہاں سے نہیں جائے گی اور وہ بھی جتنے وہ مانگ رہی ہے یہ اسکے لیئے نیا تھا وہ بڑی حیران ہو ئی لیکن اس نے کچھ نا کہا کچھ دن گزارنے کے بعد وہ واپسی کے لیئے سمندری سے لاہو ر کے لئے نکلے تو راستے میں اسکا شوہر ڈرائیونگ کے دوران موبائل پر بات کر رہا تھا کہ پولیس نے روک لیا اسے خوشی ہو ئی کہ چلو یہا ں پے آخر کار قانون تو ہے لیکن اسکی یہ خوشی بھی چند لمہوں کی تھی جب پولیس والے نے کہا کہ آپ کے ساتھ غیر ملکی ہے اس لئے آپ کو ئی چائے پانی دیں اور جائے جس پر اس کے شوہر نے پولیس والے کو کچھ پیسے دیے اور وہاں سے چل دیے اسکو سمجھ آ گئی کہ پولیس والے نے رشوت لی ہے لیکن وہ چپ رہی پھر وہ مغل بادشاہ کی سلطنت کے اس شہر میں پہنچتے ہیں جسکی بادشاہ کے لوگ ٹی وی پر بیٹھ کر مثالیں دیتے نہی تھکتے جیسے ہی وہ لاہور میں داخل ہوتے ہیں تو ہر ٹریفک سگنل پر بھیکاریوں کی لائن لگ جاتی کہ صاحب کچھ نہی کھایا کچھ چائے پانی کے لئے ہی دے دیں پھر وہ داتاصحب کے دربار پر سلام کرنے کے لئے گئے وہاں جوتے رکھنے کے پیسوں سے لے کر اندر تک سب ایک ہی ڈیمانڈ کر رہے تھے کو ئی کہتا کہ صاحب آپ کی بیوی بہت خوبصورت ہےاس لئے ہمیں کچھ دیں تو کو ئی کہتا کہ کو ئی چائے پانی ہی دے دیں اس نے پریشان ہو کے پوچھا کہ یہ سب کیا ہے یہ لوگے اتنی مقدس جگہ پہ بھی ایسے کام کیوں کر رہے ہیں کیا یہاں پے کوئی انتظامیاں نہیں ہین اور کیا یہ سب اسلام میں جائز ہے کیونکہ اس سے پہلے کبھی اس نے کسی بھی چرچ ،مسجد یا پھر کسی بھی مذ ہبی جگہ پر جوتے رکھنے کے پیسے لیتے ہو ئے نہی دیکھا جب اسے بتایا گیا کہ یہ سب اسلام میں بلکل جائز نہی ہے تو اس نے کہا تو پھر آپ لوگ ایسا کیوں کرتے ہیں کیا انکو یہاں کو ئی پوچھنے والا نہی ہے جس پر اسکے شوہر نے اسکو سمجھایا کہ یہ سب حکمرانوں کی مرضی سے ہوتا ہے وہ اس میں کچھ نہی کر سکتے کیونکہ اس میں بڑے بڑے لو گ شامل ہے پھر وہ داتا صاحب سے نکلے اور ائرپورٹ کی طرف چل دیے کہ ائر پورٹ سے کچھ فاصلے پر ایک بار پھر پنجاب پولیس نے روک لیا وہ سوچنے لگی کہ اب کیا ہو گیا ہے پنجاب پولیس نے گاڑی کے کاغذات چیک کئے جب کچھ نہ ملا تو اپنے روائتی انداز میں کہاں کہ آپ کے ساتھ غیر ملکی مہمان ہےاس لئےکوئی چائے پانی دیں اور چلے جائے ورنہ آپکے سامان کی تلاشی لی جائے گی جس پر اس نے کہا کہ ہم انکو پیسے نہیں دیں گے انکو تلاشی لے لینے دو لیکن اسکے شوہر نے اسکو بتایا کہ یہ ایسے نہیں جانے دیں گے جب تک انکو پیسے نہ دیئے گئے کیو نکہ یہاں یہ سب ایسے ہی چلتا ہے جس پر وہ خاموش ہو گئی اسکے شوہر نے پولیس والے کو کچھ پیسے دیئے اور پھر ایک پولیس والے نے گاڑی کے فرنٹ پے پڑا ایک بیگ چیک کیا جس میں سموسے تھے جو وہ کھا رہی تھی پولیس والے نے واپس رکھنے کی بجائے وہ کھانا شروع کر دیا اب اس سے رہا نہ گیا جس پر اس نے غصے سے وہ سموسہ جو وہ کھا رہی تھی پولیس والے کی طرف پھنک دیا اور قوم کے محافط کی بے شرمی دیکھئے کہ اس نے مسکرا کر منہ دوسری طرف کر لیا اس سے آگے سننے کی میرے میں ہمت نہ تھی اور میرے صبر کا پیمانہ ٹو ٹ گیا اور میری آنکھوں میں پانی آگیا اور میں کچھ کہے بغیر دوسری طرف چل پڑا جس پر وہ بھاگ کر میرے پیچھے آئی اور مجھے سمجانے لگی کہ اس میں تمہارا کیا قصور ہے اس نے معذرت کی کہ میرا مقصد تمہیں شرمندہ کرنا بالکل نہیں تھا لیکن اس وقت میرا سر شرم سے جھک چکا تھا کہ میں کوئی بات نہی سننا چاہتا تھا اور میں وہاں سے چل پڑا میری وزیراعلی پنجاب سے نہائت ادب سے گزارش ہے کہ آپ کے پاس نام نہاد اتنی بڑی اکثریت ہے کہ آپ اسمبلی سے یہ چائے پانی قانونی طور پر جائز کروا دیں تاکہ پھر کبھی کسی بیرون ملک پاکستانی کو اپنا سر شرم سے نہ جکانا پڑے اور وہ فخر سے کہہ سکے کہ یہ چائے پانی تو قانونی طور پر جائز ہےاور جب تک یہ چائے پانی چلتا رہے گا تو پنجاب پولیس خیبرپختونخواہ کے وزیر اعلی سے بھی چائے پانی مانگے گی اور ماڈل ٹاوٗن لاہور جیسے نہائت ہی افسوس ناک واقعات ہوتے رہے گے جن کی جتنی مذمت کی جائے کم ہےراناساجد سہیل