خدارا ایسا رزق مت تلاش کرے جو کسی کی رسوائی بنے : تحریر رانا بشارت علی خان

 میرے والد صاحب اپنی زندگی میں اپنی والدہ کی قبر پر ے ہرروز جاتے تھے اور اسی طرح جب میرے والد صاحب وفات پا گئے

اپنے والد صاحب کی وفات کے بعد ان کی قبر پر ہر روز حاضری دینا شروع کر دی ایک دن میں نے واپسی پر قبرستان کے نگران گورگن جانے سے پوچھا کہ تم اتنے پریشان کیوں ہو اس کا نام جانا تھا اب وہ بھی وفات پا چکا ہے تو اس نے مجھے کہا رانا صاحب دعا کریں کام بہت ٹھنڈا ہے

دعا کرو کہ کوئی مرے استغفراللہ

میں نے اسے کہا کہ یار جانے بس کر میری جیب میں کچھ پیسے تھے میں نے حسب عادت اسے دیے اور اس سے کہا کہ یہ دعا مت کرو لیکن میں واپسی پر جب گھر جا رہا تھا تو میں نے اپنے ملازم دودی سے کہا کہ کیسا عجیب آدمی ہے کہ لوگوں کے مرنے کی دعا کرتا ہے اسے نہیں پتہ کہ جب کوئی شخص مرتا ہے تو اپنے پیچھے پورے خاندان کو مار دیتا ہے اپنے پیچھے بچوں کو یتیم کر دیتا اپنے اہل و عیال کو بے سہارا ہاں اور اپنی بیوی کو بیوہ چھوڑ جاتا ہے ہے نہ جانے کتنے دکھ اپنے مرنے کے بعد اپنے خاندان کے لوگوں کو دے جاتا ہے نہ جانے کتنے عذابوں میں اپنے گھر والوں کو ٹال دیتا ہے تو میرے ملازم دودی نے کہا کہ رانا صاحب یہ اس کا کام ہے لوگ مریں گے تو اس کے بچے روٹی کھائیں گے۔

940991_10207663757207773_4449826991084130286_n
واقع ہیں اس کو تو اپنی روٹی سے غرض ہے چاہے اس کی ایک وقت کی روٹی کے لیے کسی کی ساری زندگی ویران ہوجائے اس کو دعا مانگتے ہوئے اس چیز کا احساس نہیں ہوتا کہ اس کی دعا کسی کی موت کا سبب بنے گی اسی طرح وہ صحافی حضرات جو صحافت پیسے کے لئے کرتے ہیں وہ کسی کی عزت اچھالنے میں اور کسی کو بلیک میل کرنے میں ایک منٹ نہیں لگاتے چاہے ان کے بلیک میلنگ اور غلط حرکتوں کی وجہ سے کسی کی ساری زندگی تباہ ہو جائے انہیں صرف بلیک میلنگ سے اپنے پیسے کمانے ہوتے ہیں انہیں صرف اس سے غرض ہوتا ہے کہ ان کی پوسٹ لگانے کے بعد کون سا شخص ہے جو ان سے ڈر جائے کبھی انہیں کھانے کی دعوت دے کر اور کبھی ان کی جیب گرم کرکے ان سے اپنی جان چھڑا لے۔

خدارا ایسا کام مت کریں گے آپ کے ایک نوالے کی خاطر کسی کا اونٹ ذبح ہو جائے اور اللہ نے تمہارے لیے جو رزق لکھ دیا ہے

یہ تمہارا اختیار ہے کہ اسے حلال یا حرام طریقے سے کھاؤ ، اےآروائی کا شو سرعام جس کو اقرارالحسن حوسٹ کرتا ہے دیکھ رہا تھا اس شو میں وہ معاشرے کی برائیوں کو عام لوگوں تک پہنجاتا ہے لیکن جو شو میں نے دیکھا اس میں وہ ایک عورت کو کراچی کے فہاشی اڈے سے اٹھاکر اوکاڑہ کے قریب اس کے گاؤں میں 15 سال بعد لے کر آتا ہے کیا ہی اچھا ہوتا کہ اقرارالحسن نہ اس کے گاؤں کا نام اور نہ ہی اس کے گھر والوں کا چہرہ دکھاتا لیکن اقرارالحسن نے صرف اپنے شو کی ریٹنگ کے لیے نہ تو اس عورت کا چہرہ چھپایا نہ ہی اس کے گھر والوں کا چہرہ چھپایا پہلے تو وہ عورت صرف اپنی زندگی عذاب میں گزار رہی تھی اب کیوں کہ اقرارالحسن نے پوری دنیا کے سامنے پیش کر دیا کہ یہ عورت پچھلے پندرہ سال سے فہاشی کے اڈے پر ہے اور اس کا ایک بچہ بھی ہے کیا عزت بچی ہوں گی ان کے گھر والوں کی جن کو پوری دنیا کے سامنے اقرار الحسن نے صرف اپنے شو کی ریٹنگ کے لیے بغیر چہروں کو چھپائے رکھ دیاخدارا ایسا رزق مت تلاش کرے جو کسی کی رسوائی بن کر آپ کے بچوں کی روٹی تک پہنچے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں