پاکستان میں جب سے پرائیویٹ میڈیا کا آغاز ہوا تو بچیوں ، بچوں اور عورتوں کے ساتھ زیادتی اور قتل کے واقعات آہستہ آہستہ سامنے آنے لگے ، اسکا مطلب ہے کہ ایسے افسوس ناک واقعات پہلے بھی ہوتے تھے لیکن لواحقین کی بے بس سسکیاں اور درد بھری چیخ و پکار لوگوں تک نہ پہنچتی اور مقامی سطح پر ہی دم توڑ جاتی ، معصوم بچیوں کے ساتھ زیادتی اور قتل کے واقعات 2002 کے بعد تیزی سے میڈیا پر آنے لگے لیکن شائد وقتی طور پر بریکینگ نیوز تو چلتی لیکن اس کے بعد کسی کو نہ یاد رہتا کہ اس کے ماں باپ پر کیا گزرتی ہو گی جن کی دنیا ہی چکنا چور ہو گئی ہو لیکن گزشتہ چند سالوں سے میڈیا بہت حد تک آزادی کے ساتھ کام کر رہا ہے لوگوں میں آگاہی پھیلائی جا رہی ہے اور خاص طور پر فیس بک ، ٹویٹر اور دیگر سوشل میڈیا ذرائع کے آنے سے لوگوں کی رسائی اور آواز دنیا کے ہر طول و عرض میں پہنچنے لگی ہے اور انہی گزشتہ چند سالوں میں پاکستان میں ہر سال سینکڑوں کی تعداد میں عورتوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات سامنے آنے لگے ، نہ صرف بالغ عورتوں بلکہ ان میں گجرانوالہ کی دو ننھی منھی بہنیں بھی شامل ہیں جو صبح گھر سے روانہ تو سکول کے لئے ہوئی تھیں لیکن کسے پتہ تھا کہ چند گھنٹوں پر انکی نعشیں ملے گی جو کسی کی درندگی کا شکار ہو چکی ہو ، اور اسی دن کراچی کے ساحل سے ایک تیرہ سالہ بچی کی نعش ملتی ہے جسے سکول جاتے ہوئے اغواہ کر کے وحشی درندے نے حوس مٹائی اور قتل کر کے کراچی کے ساحل پر پھینک دیا ، ان میں لاہور کی پانچ سالہ بچی بھی شامل ہے جسے اغواہ کاروں نے کئی بار نوچا اور پھر لاہور کے ایک ہسپتال کے باہر کوڑا کرکٹ سمجھ کر پھینک دیا ، ایسے واقعات کی تعداد اب اتنی زیادہ ہے کہ انکو گنتی میں لانا مشکل ہے خاص طور پر ایسے واقعات کا رجحان پنجاب میں تیزی سے بڑھتا جا رہا ہے ، جو کہ لاہور ، فیصل آباد ، ملتان ، اوکاڑہ ، چکوال ، سرگودھا ، جلالپور ، بہاولنگر ، بہاولپور ، شیخوپورہ سمیت کئی دوسرے چھوٹے بڑے شہروں اور دیہاتوں میں روہ نما ہو رہے ہیں ، اور گزشتہ کچھ عرصے سے قصور میں ایسےافسوسناک اور انسانیئت سے گرے ہوئے گھناونے واقعات مسلسل پیش آ رہے ہیں لیکن افسوس کہ شائد ہمیں معاشرے میں ہونے والے اتنے بھیانک اور خوفناک ظلم و ستم کی اس لئے بھی پرواہ نہ رہی ہو کہ نہ تو کہیں زمین پھٹی اور نہ ہی آسمان ، ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہمارے پر پہلی قوموں جیسا عذاب نازل نہیں کیا جاتا ورنہ ہم لوگ کب کے نیست و نابود ہو چکے ہوتے ۔
حال ہی میں قصور میں ایک بار پھر ایسا ہی المناک واقعہ زینب کے ساتھ پیش آیا اور چار دن کے بعد وہ کوڑے کے ڈھیر پر پائی گئی اور جس وقت اس کے والدین اللہ کے حضور سر بسجود تھے تو زینب کی روح اس وقت تک اس بدکار اور غلیظ دنیا سے حقیقی دنیا کی طرف کوچ کر چکی تھی اس وحشیانہ حرکت نے قصور کے لوگوں کا ضمیر جگایا اور لوگ غم و غصہ کی حالت میں سڑکوں پر نکل آئے ، سڑکیں بلاک کر دی ، توڑ پھوڑ کی ، پولیس افسران پر دھاوا بولا جس کے نتیجہ میں جوابی کاروائی میں دو مظاہرین کو موت کا سامنا کرنا پڑا ، زینب اور اس جیسی ہزاروں بچیوں کے ساتھ جو ہوا اس پر صرف مذمت کافی نہیں ہے لیکن اس کا یہ حل بھی نہیں ہے کہ ہم اپنے ہی ملک اور لوگوں کی املاک کو نقصان پہنچانا شروع کر دیں دراصل بظاہر قوم نہ تو ہم سوئے ہوئے ہیں اور نہ ہی ہمارا ضمیر بلکہ ہم نشے کی حالت میں ہیں ، وہ نشہ ہمارے ذاتی مفادات کا ہے ، اگر کسی نشئی کو آپ زور سے پکڑ کر جنجوڑے تو وہ ایک دم سے اٹھے گا ، چیخے چلائے گا اور ہاتھ میں جو آیا زور سے پھینکے گا چاہے وہ کسی کے جانی یا مالی نقصان کا سبب ہی کیوں نہ بنے اور پھر ایک دم سے زمین پر دڑھم سے گر جائے گا ، ہمارا حال بھی کچھ ایسا ہی ہے اگر آپ ماضی کو بھول بھی جائے تو گزشتہ دس سال سے پنجاب میں ایک ہی جماعت حکمرانی کے مزے لوٹ رہی ہے اور خود کو خادم اعلی کہلوانے والے خادم کا یہ حال ہے کہ وہ زینب کے والدین کو ملنے کے لئے انتہائی سخت سیکیورٹی میں رات کے اندھیرے میں چھپ کر ملنے جاتا ہے شائد اسے احساس نہیں ہے کہ کتنا بد بخت انسان ہے کہ جسے اللہ نے اختیار دیا لیکن وہ ان ہزاروں بے گناہ معصوم بچیوں کی حفاظت کرنے میں ناکام رہا اگر پچھلے دس سال میں وہ پولیس کا نظام ہی ٹھیک کر دیتا تو آج سینکڑوں کلیاں اپنے والدین کے آنگن میں کھل کھلا رہی ہوتیں اور اس سے دہشت گردی کے جن کو قابو کرنے میں بھی بے پناہ مدد ملتی اور شائد ہزاروں بے گناہ پاکستانی دہشتگردی کا لقمہ بننے سے بچ جاتے ، لیکن شائد اس سے بھی زیادہ بد بخت تو ہم لوگ ہیں جو چھوٹے چھوٹے مفادات کو ان بچیوں کی عزت و آبرو اور جان پر ترجیح دیتے ہیں اور جب ہمیں کوئی جنجوڑتا ہے تو ہم بھی اس نشئی کی طرح کرتے ہیں ، زور زور سے چلاتے ہیں ، توڑ پھوڑ کرتے ہیں اور پھر ایک دم سے زمین پر گر جاتے ہیں میں یہ نہیں کہتا کہ احتجاج نہیں کرنا چاہیے ہمیں احتجاج کا طریقہ بدلنا ہو گا ہمیں اپنے آپ کو بدلنا ہو گا اور ہمیں مسلسل حوش و حواس میں رہ کر فیصلے کرنا ہو گا اور اس عمل کو مسلسل جاری بھی رکھنا ہوگا پھر آپ کو کوئی دوسری زینب نہیں ملے گی ، جمہوریت میں عام آدمی کی سب سے بڑی طاقت اس کا ووٹ ہے لیکن افسوس کہ جب وہ مرحلہ آتا ہے تو ہم دیکھتے ہیں ہمیں نالی کس نے بنوا کر دی ، ہمارے بیٹے کو نا اہل ہونے کے با وجود نوکری کس نے دلوائی وغیرہ وغیرہ میری آپ سے ہاتھ جوڑ کر التجا ہے کہ اگلی بار جب آپ گھر سے ووٹ ڈالنے کے لئے نکلے تو جانے سے پہلے اپنی پانچ سے نو سالہ بیٹی ، بھانجی ، بتیجی یا نواسی کو ایک بار ضرور دیکھے اور سوچے کے اگر ایک دن خدا نخواستہ یہ بھی کسی درندے کی حوس کا شکار بنی تو آپ پر کیا گزرے گی اگر ان معصوم کلیوں کو آنکھوں میں سجا کر بیلٹ باکس تک لے گئے تو مجھے یقین ہے کہ یہ آپ پر چھوٹے موٹے ذاتی مفادات اور وابستگیاں حاوی نہیں ہونے دے گیں ، اور آپ جو بھی فیصلہ کرے گا وہ درست ہی ہوگا