چیف جسٹس سجاد علی شاہ کے ساتھ ایک عہد دفن ہوا۔ ان کے دور میں سپریم کورٹ پر نون لیگ نے حملہ کیا۔ سجاد علی شاہ کے دور میں شاہراہ دستور پر سپریم کورٹ کی یکہ وتنہا بلڈنگ میں ایک ہی وقت میں دو چیف جسٹس بیٹھے۔ دونوں نے ایک دوسرے کے خلاف فیصلے دیے اور دونوں نے ایک دوسرے کے فیصلوں کو مسترد کر ڈالا۔ 1973 ء کے دستور کے مطابق آئینی عدالت کے کسی جج کو ہٹانے کے لیے صرف ایک ہی راستہ ہے۔ وہ ہے آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت سپریم جوڈیشل کونسل کا فیصلہ ۔ چیف جسٹس سجاد علی شاہ کو ان کے ہمراہی ججوں نے ایک طرح کے ریفرنڈم کے ذریعے چیف جسٹس کے عہدے سے ہٹا دیا۔ ریفرنڈم کے بارے میں آپ جانتے ہی ہیں، حبیب جالب نے یوں کہہ رکھا ہے: ؎
کچھ باریش سے چہرے تھے
سچائی کا ماتم تھا
جِنّ تھا یا ریفرنڈم تھا
شہر میں ہوُ کا عالم تھا
سجاد علی شاہ کے دور میں سپریم کورٹ کے ججوں تک نوٹوں سے بھرے ہوئے بریف کیس پہنچانے کی داستان سامنے آئی۔ جس میں سرکاری پارٹی کے ایک ممتاز سینیٹر مزید مشہور ہو گئے ۔سجاد علی شاہ کے دور میں الجہاد ٹرسٹ کا مشہورِ زمانہ فیصلہ ہوا ۔ جس کے نتیجے میں کئی ججوں کو عہدے چھوڑنے پڑے ۔ سجاد علی شاہ بعد ازاں خود اسی فیصلے کی زد میں بھی آئے مگردرخواست گذار نے مک مکا کر کے انہیں بچا لیا۔ان کی نا اہلی کی درخواست واپس لے لی گئی۔اس فیصلے کو الجہاد نمبر 2 کہا جاتا ہے۔
سجاد علی شاہ نے بی بی شہید کی حکومت کو توڑنے کا فیصلہ درست قرار دیا‘ حا لانکہ پی پی پی کی حکومت نے ہی سجاد علی شاہ کو ”جیٹ سپیڈ ” لگا کر چیف جسٹس کے عہدے تک پہنچایا تھا ۔ وفات سے چند ہفتے قبل سجاد علی شاہ نے اپنے چیف جسٹس والے عہد کے ہوش ربا انکشاف بھی کیے اور چہرے بے نقاب بھی ۔جمعہ کے روز میں سپریم کورٹ پہنچا۔ مین اِنٹری گیٹ سے اندر جاتے وقت سجاد علی شاہ دور کے واقعات یاد آنے لگے۔ پہلا واقعہ انٹری گیٹ کے سامنے مین بلڈنگ کے موٹے پِلر کے ساتھ پیش آیا تھا۔ وہ دن میرے لیے روٹین کا عام دن تھا۔ منشی، سٹاف اور جونیئر وکلاء ساتھ تھے۔ پِلر کی دوسری جانب سے چیخ کی آواز آئی۔ ہم بے ختیاراُس طرف لپکے، سامنے کا منظر پریشان کر دینے والا تھا۔ موجودہ پارٹ ٹائم وزیرِ دفاع المعروف وزیر نہ بجلی نہ پانی ، ہمارے دوست اسفند یار ولی اور پانامہ کیس میں نواز شریف صا حب کے ایک سینئر وکیل میں تلخ کلامی دکھائی دی ۔ ساتھ ہی فو راََ وکیل صا حب پر حملہ ہو گیا۔ ہم نے تینوں کو ایک دوسرے سے علیحدہ کیا ۔ وکیل صا حب کو ماتھے پر چوٹیں آئیں ۔ اُنہیں ڈسپینسری تک پہنچایا ۔ تھوڑی دیر میں چیف جسٹس سجاد علی شاہ کی عدالت سے میرے نام کا بُلاوہ آ گیا۔ لڑائی کے دونوں فریق کہہ رہے تھے ۔ وہ میری گواہی پر اعتبار کریں گے۔ دراصل جھگڑا انگریزی گالی پر شروع ہوا تھا۔ان دنو ں سپریم کورٹ کے عدالتی کمرہ نمبر 1میں موجودہ وزیرِ اعظم کے خلاف توہینِ عدالت کی کاروائی چل رہی تھی۔اس وقوعہ کے اگلے روز ایک مشہور صحافی دوڑتے ہوئے عدالت میں داخل ہوئے اور یہ بانگِ درا بلند کی۔” عدالت پر حملہ ہو گیا ہے”۔ بلوائی ججوں کو مارنے کے لیے کور ٹ ر وم کے باہر پہنچ چکے ہیں۔ عدالت کے چوب دار فوراً سٹیج کی طرف دوڑے اور چیف جسٹس سجاد علی شاہ نے یہ مختصر آرڈر جاری کیا۔ ”The bench is discharged ‘‘بینچ فارغ ہو گیا۔ مقدمے کی فائل پر جسٹس سجاد علی شاہ کے لکھے ہوئے یہ الفاظ 100فی صد سچ ثابت ہوئے ۔
اگلے روز ایک ہوائی جہاز نے لاہور سے کوئٹہ کے لئے اڑان بھری جس میں بڑے بڑے بریف کیس لوڈ کئے گئے۔بے نظیر بھٹو شہید نے اس ایزی لوڈ کو” چمک ” کا نام دیا تھا ۔شہید بی بی کا دیا ہوا یہ نام ہمیشہ ،ہمیشہ کے لئے ان کر دا روں کے ساتھ چمٹ کر رہ گیا۔ جسٹس سجاد علی شاہ اور پی پی پی کی لیڈ ر شپ کے درمیان گرما گرمی اپنے آخری درجے پر تھی ۔تب ایک دن مجھے ان کے چیمبر میں جانا پڑا۔اس ملاقات کا پسِ منظر وزیر اعلیٰ سندھ کے ایک مشیر کا بیان تھا۔مشیر با تدبیر نے کہااگست کے مہینے میںآصف زرداری کو پھا نسی دے دی جائے گی۔یہ بیان قومی اخبارات میںسُپر لیڈ کے طور پر چھپ گیا۔بی بی شہید اس بیان سے بہت ڈسٹرب ہوئیں۔مجھے کراچی بلایا۔رات 9 بجے کے قریب کھانے کی میز پر اُن سے ملاقات ہوئی۔جہاں شاہنوازبھٹوکی بیوہ ریحانہ اور صاحبزادی سَسِی بھی موجود تھیں۔میں نے مشورہ دیا ،فوری طور پرمقامی تھا نے میں تعزیراتِ پا کستان کی دفعہ,506,503 109کے تحت درخواست دائر کی جائے۔اگلی صبح منورسہروردی،عُر س سمیت شہید بی بی کا سٹاف میر ے ساتھ تھانے چلا آیا۔جہاںہم نے رپٹ درج کروائی اور اس کے روزنا مچہ کی کا پی حاصل کی۔واپسی پر محترمہ کی پریشانی کم نہ ہوئی کہنے لگیںکوئی اور راستہ جس کے ذریعے آصف کو بچا یا جا سکے۔میری تجویز سن کر شہید بی بی کا چہرہ لال ہو گیا۔ کہنے لگیں”no way”میں کسی صورت سجاد علی شاہ کے پا س نہیں جا ئو ںگی۔ میں نے اصرار کیا جس پر وہ اس حد تک راضی ہوئیں کہ میں پہلے چیف جسٹس سے شہید بی بی کے وکیل کے طور پراس معا ملے میں ”SUO MOTO”نوٹس لینے کی زبانی درخواست پہنچائوں۔ میں واپس آیا اگلے دن 9 بجے چیف جسٹس کے چیمبر پہنچ گیا۔چیف جسٹس آف پا کستان کا ہمیشہ سے یہ معمول چلا آیا ہے کہ وہ عمومی درخواستیں اور رجسٹرار آفس کے اُٹھا ئے ہو ے اعتراضات پر مبنی مقدمات کی سماعت اپنے چیمبر میں کرتے ہیں۔میری زبانی درخواست مان لی گئی۔اور اگلے روز با قاعدہ درخواست کرنے کی استدعا منظور ہوئی۔ باہر نکل کر میں نے محتر مہ سے رابط کیا اور کہا آپ رات کو پہنچ جائیں کل صبح ہم سپریم کورٹ جائیں گے ۔اگلے روز حاجی نوازکھوکھر،آفتاب شعبان میرانی،ناہید خان میں اور بی بی شہید سجاد علی شاہ کے چیمبر میں پیش ہو گئے۔سجا د علی شاہ کے دور میں پہلی دفعہ عدلیہ با قا عدہ سیاست میں کودی۔ اس کی انتہا یہ تھی کہ نواز دوست اور سیاست نواز فیصلے دینے والا ایک جج صدرِ پاکستان کے عہدے تک پہنچا جب کہ دوسرا منصف پہلے صدارتی امید وار اور پھر سندھ کا گورنر مقرر ہوا۔
چیف جسٹس سجاد علی شاہ تا ریخ کی عدالت سے نکل کر اللہ تعالی کی عدالت میں جا پہنچے ہیں ۔ایک ایسے وقت میں جب سپر یم کورٹ ایک بار پھر ضمیر کی عدالت میں کھڑی ہے۔پا ناما مقدمے میں ایک فریق وہ ہے جس کے بارے میں بلاول نے درست کہاکہ اس کے خلاف کبھی فیصلہ نہیں ہوتا۔دوسری جا نب سپر یم کورٹ کے5فاضل جج آئین کی عدالت میں بیٹھ کر کہہ چکے ہیں،ہم نے اللہ تعالی کی عدالت میں بھی حاضر ہونا ہے۔سیاست اور چمک کے لئے آج عدل کے ایوان” نو گو ایریا ”ہیں۔آخری سیاسی منصف سرکاری خرچ پر زور دارسیاست کرتا رہا۔آج اس کی سیاست اور سرکاری بلٹ پروف گاڑی دونوں آخری ہچکیاں لینے کے قابل بھی نہیں رہے۔فیض نے درست کہا تھا: ؎
ہم دیکھیں گے‘ لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے
جب ارضِ خدا کے کعبے سے سب بُت اٹھوائے جائیں گے
جب تاج اچھالے جائیںگے،جب تخت گرائے جائیں گے