اکستان کے 13ویں چیف جسٹس سید سجا د علی شاہ بھی دنیا سے رخصت ہو گئے۔بد قسمتی سے عدلیہ کی آ زادی کے لیے بہت اچھے کام کر نے کے با وجو د وہ میاںنواز شر یف کے دوسرے دور وزارت عظمیٰ میں ان سے محاذآ را ئی کی بنا پر متنازعہ ہو گئے ۔میاںنواز شر یف نے اس حوالے سے صرف یہ عزت کما ئی کہ ان کی آشیرباد سے سپر یم کو رٹ پرحملہ کیا گیا اور بالا ٓخروہ سپریم کو رٹ میں دراڑیں ڈا ل کر سجا د علی شاہ کو تنہا کر کے عضو معطل بنانے میں کامیاب ہو گئے ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ سندھی جج جسٹس سجا د علی شاہ کو چیف جسٹس بنانے کا کر یڈٹ محتر مہ بے نظیر بھٹو کو جا تا ہے، شاہ صاحب جسٹس افتخا ر محمد چو ہدری کی طر ح اپنی ہٹ کے پکے تھے ۔محتر مہ بے نظیر بھٹو نے ان سے اس خواہش کا اظہا ر کیا کہ سندھ کے ایک ڈسٹر کٹ جج کو ہائیکو رٹ کا جج بنا دیں جس پر شا ہ صاحب نے یہ کہہ کر انکا ر کردیا کہ وہ میرٹ پر پو را نہیں اتر تا اور سنیا رٹی میںتیسویں نمبرپر ہے ۔ محتر مہ نے منت کی عید کی آ مد آمد ہے اسے جج بنا کر عید کا تحفہ دے دیں لیکن شاہ صاحب نے کوراساجواب دیدیا ۔یہیں سے شاہ صاحب اور محتر مہ کے درمیان ٹھن گئی، سجا د علی شاہ نے مارچ 1996 ء میں الجہا د ٹر سٹ کیس میں ججز کی تقر ری اور سنیا رٹی کا معاملہ ہمیشہ کے لیے طے کردیا ۔ اس فیصلے کی رو سے ہا ئیکو رٹس اور سپریم کو رٹ میں سینئر ترین ججوں کو ہی چیف جسٹس مقر ر کیا جا سکتا ہے ۔ اس لحا ظ سے دیکھا جا ئے تو شاہ صاحب کا یہ فیصلہ ہی عدلیہ کی مو جو دہ آزادی کا منبع ہے اس میں ایگز یکٹو کی صوابدید کو یکسر ختم کر دیا گیا ہے۔
مجھے اچھی طر ح یا د ہے کہ جن دنوں محتر مہ بے نظیر بھٹو کی سجا د علی شاہ سے ٹھنی ہو ئی تھی ۔صد ر فاروق لغاری کے بیٹے کی شادی کی تقر یب میں میں نے بے نظیر بھٹو سے پو چھا کہ آ پ جسٹس سجاد علی شاہ سے تنازع کے تناظر میں آ ئندہ کس کو چیف جسٹس بنا ئیں گی، انھوں نے اپنے سامنے مو دبانہ کھڑے جہا نگیر بدر کی طرف اشا رہ کرتے ہوئے کہا کہ میں ان کو چیف جسٹس لگا سکتی ہوں۔جس پر جہا نگیر بدر نے کو رنش بجا لا تے ہوئے کہا کہ بی بی میں حا ضر ہوں ۔ اسی سال نومبر میں جب بے نظیر بھٹو کو صدر فاروق لغا ری نے گھر بھیج دیا تو معاملہ سپر یم کو رٹ کے پاس چلاگیا تو شاہ صاحب نے اس فیصلے کوکا فی لٹکا یا اور آخری وقت پر بے نظیر بھٹو کی کر پشن کے الزام میں بر طرفی کے فیصلے پر مہر تصدیق لگا کر میاں نوا ز شر یف کے لیے را ہ ہموار کر دی ۔ بعدازاں بھاری مینڈیٹ سے سرشارمیاں نواز شریف نے اقتدار میں آتے ہی کچھ سرکا ری افسروں کو بر طرف کیا تو سجا د علی شاہ نے ان کے اس فیصلے کو کالعدم قراردے دیا ۔اس کے علا وہ میاں نواز شر یف جو خصوصی عدالتوں کے تحت فوری انصاف کے نام پر عدلیہ کے پر کا ٹنا چاہتے تھے ان کے اس ممکنہ اقدام سے محا ذ آرا ئی مزید بڑ ھ گئی ۔ اسی دوران شاہ صاحب نے میاں نوازشر یف سے سپریم کو رٹ میں ججوں کی تعداد پوری کر نے کے لیے مزید جج ما نگ لیے۔ اس صورتحا ل میں میاں نواز شر یف سجا د علی شاہ سے اکتا چکے تھے اور ان سے ہر قیمت پر چھٹکا را حاصل کر ناچا ہتے تھے لہٰذا میاں صاحب انھیں جج دینے کو تیا ر نہ ہو ئے، دوسر ی طرف سجا د علی شاہ اپنی چھر یاں تیز کیے بیٹھے تھے۔ انھیں صدر فاروق لغا ری اور اس وقت کے آئی ایس آ ئی کے سر برا ہ لیفٹیننٹ جنرل نسیم رانا کی خاموش آشیر با د بھی حا صل تھی ۔ میری جسٹس سجاد علی شاہ سے ذاتی یاداللہ تھی ،پہلے تو میر ی ڈیو ٹی لگی کہ میاں صاحب کی طرف سے سجا د علی شاہ سے صلح صفا ئی کے لیے بات چیت کر وںکیو نکہ اس وقت محتر م مجید نظامی با ئی پاس سر جر ی کے بعد امر یکہ میں آ رام کر رہے تھے ۔شاہ صاحب نے کہا کہ اگر جج دے دیئے جا ئیں اور نواز شریف تو ہین عدالت کیس میں عدالت میںپیش ہو جائیں تو معاملہ رفع دفع ہو سکتا ہے لیکن پھر ایسی خبر یں آنے لگیں کہ سجا د علی شاہ کے تیو ر کچھ بدل گئے ہیں ۔ اتنے میں مجید نظامی صاحب واپس لاہو ر پہنچ چکے تھے ۔ میاں نواز شر یف نے ایک آ خر ی کوشش کے طور پر اپنے معتمد خاص اسحق ڈار کو جہاز دے کر بھیجا کہ مجید نظامی اورعارف نظامی کو اسلا م آبا د لے آ ئیں تا کہ وہ چیف جسٹس کو منانے کی کوشش کر یں ۔ اس حوالے سے سجا د علی شاہ کے سند ھی دوست سابق جج ووزیر اعلیٰ سندھ سید غو ث علی شاہ بھی انھیں منا نے پر لگے ہو ئے تھے ۔ سجا د علی شاہ نے راولپنڈی میں واقع چیف جسٹس ہاؤس میں ہمیں پر تکلف کھانا کھلا یا لیکن ساتھ ہی واضح کر دیا کہ اگر میاں نواز شر یف عدالت میں بنفس نفیس پیش ہو کر غیر مشروط معا فی نہیں ما نگیں گے تو وہ انھیں توہین عدالت کے جر م میں سزا دے دیں گے ۔مجھے اچھی طرح یاد ہے ان کا کہنا تھا کہ تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے گو یا کہ معاملہ اب ججوں کی تقر ری سے آ گے جا چکا تھا ۔سجا د علی شاہ کے گھر سے اٹھ کر ہم وزیر اعظم ہاؤس آ گئے،جہاں سے میاں شہباز شریف کے بار بار فون آ رہے تھے ،ہم نے میاں نواز شر یف کو مخلصا نہ مشورہ دیا کہ وہ عدالت میں پیش ہو جا ئیں ۔ اس مشورے میں ان کے وکیل ایس ایم ظفر بھی شر یک تھے۔اگلے روز میاں نواز شر یف عدالت میں پیش ہو گئے ۔میں عدالت میںمیاں نوازشر یف کے با لکل عقب والی نشست پر بیٹھا تھا ۔ سجاد علی شاہ نے ان کی بات فوراًسننے کے بجا ئے معاملہ ٹی بر یک سے آگے لٹکا دیا ۔وہ یقیناً نواز شریف کو نادم کرنا چاہتے تھے۔ ،اس موقع پر اکر م شیخ جو اس وقت غالباً سپریم کورٹ بار کے صدر اور شاہ صاحب کے زبردست حامی تھے ، انہوںنے میاں نواز شر یف کو اخلا ق کی مار دیتے ہو ئے دعوت دی کہ’ آ ئیںمیرے چیمبر میں آ کر چا ئے پیئں‘۔بعدازاں شاید اسی بنا پر خصوصی آشیرباد کی وجہ سے خواجہ آ صف نے اکر م شیخ کی پٹا ئی کرد ی اور 28نومبر 1997کوتوبا قا عدہ مسلم لیگ(ن) کے مشتعل ورکروں نے جن میں مسلم لیگ کے بعض سرکردہ رہنما بھی پیش پیش تھے، سپریم کو رٹ پر دھاوا بو ل دیا اور شاہ صاحب توہین عدالت کی کا رروائی معطل کر نے پر مجبو ر ہو گئے ۔ اس کے بعد کھلم کھلا لڑا ئی شر وع ہو گئی ، میاں نواز شر یف نے وزیر اعظم کی بر طرفی سے متعلق آرٹیکل 58ٹو ۔بی کو ختم کیا تھا ۔سجا د علی شاہ نے وزیراعظم کو برطرف کر نے کی یہ طا قت بحال کردی ۔ لیکن اس دوران میاں صاحب سپر یم کو رٹ دوگروپوں میں با نٹنے میں کامیاب ہو چکے تھے ۔منٹوں کے اندر تیرہو یں تر میم کو معطل کر کے سجا د علی شاہ کے اس فیصلے کو جسٹس سعید الزمان صدیقی کی سر برا ہی میں سپر یم کورٹ کے دس رکنی بینچ نے کا لعدم قرار دے دیا ۔اب جج آ پس میں لڑ رہے تھے اور میاں نواز شر یف موج کر رہے تھے ۔اسی طر ح کو ئٹہ بینچ نے تو کھلم کھلا سجاد علی شاہ کو چیف جسٹس ماننے سے ہی انکا ر کردیااور بینچ کے سر بر اہ جسٹس سعید الزمان صدیقی نے واضح طور پر سجا د علی شاہ کو اپنے فر ائض منصبی ادا کر نے سے روک دیا ۔ شاید انہی خدمات کی بنا پر میاںنواز شر یف نے اپنے موجودہ دور حکومت میں انتہائی علیل سعید الزمان صدیقی کو سند ھ کا گورنر بنا دیا ۔نواز شر یف جو پہلے ذہنی طور پر وزیر اعظم ہاؤس کو خیر با د کہنے کی تیا ری کر رہے تھے پانسہ پلٹ چکے تھے ۔ شاہ صاحب نے آ رمی چیف کو خط لکھا کہ انھیں حفاظت کے لیے فو ج فراہم کی جا ئے تو آ رمی چیف نے یہ خط وزیر اعظم کو بھجوا دیا ۔فاروق لغا ری نے جنرل جہا نگیر کرامت کو جو بر طا نیہ کے دورے پر تھے واپس بلایا ، واپسی پرانھوں نے پہلے نواز شر یف سے ملاقا ت کی پھر صدر سے ۔لغا ری صاحب نے واضح کیا کہ اگر میاں نواز شر یف کو فارغ نہ کیا گیا تو وہ مستعفی ہو جا ئیںگے ۔ جس پر جنر ل صاحب نے ٹکا سا جواب دیا کہ یہ آ پ کی صوابدید ہے اور اس طر ح لغا ری صاحب بھی گھر چلے گئے۔
نا قد ین کے مطابق میاں نواز شر یف کو 1997ء میں دوبارہ اقتدار میںلانے کے حوالے سے ان کے تین محسن تھے جنہیں میاں صاحب نے باری باری گھر کی راہ دکھا دی ۔ فاروق لغاری جنہوں نے بے نظیر بھٹو کو فارغ کیا ، سجا د علی شاہ جنہوں نے اس فیصلے کی تو ثیق کی اور جنر ل جہانگیر کرامت جو نہ صرف بے نظیر بھٹو کی فرا غت کے فیصلے میں شامل تھے بلکہ لغا ری نواز کشمکش میں لغا ری صاحب کے بجا ئے اپنا وزن نواز شر یف کے پلڑے میں ڈال دیا تھا ۔لیکن میاں نواز شر یف کو کیا پتہ تھا کہ وہ ایک اور جرنیل پرویز مشر ف کے ہا تھوں نہ صرف فارغ ہو جائیں گے بلکہ جلا وطنی میں چلے جا ئیں گے۔