بلاگرز کا قصہ ایک منفرد واقعہ نہیں۔ یہ آنے والے دور کی ایک دھندلی سی تصویر ہے۔کچھ وہ بھی ہیں جن پر اِس کی سحر بے حجاب ہے۔
سوشل میڈیا ابلاغ کی ایک نئی دنیا ہے۔ یہ ایک نیا چیلنج بھی ہے۔ یہ تہذیبی کشمکش کا نیا میدان ہے۔ فکر و نظرکی وہ بحث جو اس سے پہلے ابلاغ کے دوسرے ذرائع تک محدود تھی، اب یہاں منتقل ہو رہی ہے۔ اس فورم کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اپنی شناخت کو مستور رکھتے ہوئے، وہ کچھ کہا جا سکتا ہے جو شناخت کے ساتھ کہنا مشکل ہے۔ ہر ایجاد دو دھاری تلوار ہے۔ یہ اگر اناڑیوں کے ہاتھ لگ جائے تو خیر پر شر غالب آ جا تا ہے۔ سوشل میڈیا کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہو گیا ہے۔اگر یہ انسانوں کے استعمال میں رہتا تو فکر و نظر کا اختلاف شاید فساد میں تبدیل نہ ہوتا۔ بدقسمتی سے کچھ بھینسے بھی اس طرف آ نکلے ہیں۔انہوں نے یہاں وہی کچھ کیا ہے جو ایک بے مہار بھینسا کسی کھیت میں گھس کر‘ کر سکتا ہے۔کوئی جتنا بھی غیر جانب دار ہو،انسانیت کے شرف سے تو دست بردار نہیں ہو سکتا۔اختلاف ِ رائے کا دفاع تو کیا جا سکتا ہے،بدتہذیبی کے دفاع کا مطلب شرفِ انسانیت سے دست برداری ہے۔
سوشل میڈیا کے سبب،مسلم معاشروں میں جاری اقدار کی کشمکش ایک نئے دور میں داخل ہو چکی۔ یہ لبرل ازم اور مذہبی اقدار کی کشمکش ہے۔ یہ کسی نہ کسی صورت میں پہلے بھی موجود تھی۔ سوشل میڈیا کی وجہ سے اس کی رسائی بہت بڑھ گئی ہے۔ مسلم سماج کی اساسی ترکیب روایتی ہے۔ لبرل ازم نے اس اساس کو چیلنج کیا ہے۔ لبرل ازم دو چیزوں کا مجموعہ ہے۔ یہ ایک نظام فکر ہے اور اس کے ساتھ ایک رویہ بھی۔ ہمارے لبرل دوست بطور نظامِ فکر اس کا ذکر کم کرتے ہیں۔ اس حیثیت میں لبرل ازم تقدس کے کسی تصور کا قائل نہیں ہے، یہ کسی فرد سے وابستہ ہو یا کسی مقام سے۔ وہ کسی کو تنقید سے بالاتر نہیں سمجھتا۔ لبرل ازم کے علم برداروں میں دو طبقات پائے جاتے ہیں۔ایک وہ جو سماجی حساسیت کو پیش ِ نظر رکھتے ہیں۔ یوں ایسی بات کہنے سے گریز کرتے ہیں جو کسی روایتی مذہبی معاشرے میں قابلِ قبول نہ ہو۔ دوسرا طبقہ اس حساسیت سے صرفِ نظر کرتا ہے۔ وہ تنقید کے اس حق کو استعمال کرتا اور یوں انسان سے بھینسا بن جاتا ہے۔ فساد کا سبب یہی طبقہ ہے۔
مذہبی لوگوں میں بھی دونوں طرح کے گروہ پائے جا تے ہیں۔ ایک وہ جو دین کو دعوت سمجھتے اور اسے اچھے اسلوب میں بیان کرتے ہیں۔ بحث کی صورت پیدا ہو جائے تو دلیل کو ہتھیار بناتے ہیں۔ اگر کوئی قبول نہیں کرتا تو بزور نافذ نہیں کرتے۔ کوئی کج بحثی پر اتر آئے تو قرآن مجید کی نصیحت پر عمل کرتے ہوئے اعراض کرتے ہیں۔ دوسرا طبقہ وہ ہے جس کا خیال ہے کہ بدتمیزی کا جواب دینا ان کا حق بلکہ مذہب کا بنیادی تقاضا ہے۔ معاملہ دین کا ہے تو پھرقانون، دلیل، اعراض سب بے معنی الفاظ ہیں۔ ایسے موقعوں پر دینی حمیت کا تقاضا یہ ہے کہ ایسے گستاخوں کا منہ طاقت سے بند کر دینا چاہیے۔
معاملات جب تک پرنٹ یا الیکٹرانک میڈیا تک محدود تھے تو انہیں کسی نظم کا پابندکرنا نسبتاً آسان تھا۔ قانون اور ریاست اپنا کردار ادا کر سکتے تھے ۔ سوشل میڈیا میں یہ ممکن نہیں رہا۔ اس کی باگ کسی اور کے ہاتھ میں ہے۔ہم نے فیس بک کو بند کیے رکھا لیکن لوگوں نے وہاں تک رسائی تک کے لیے چور دروازے تلاش کر لیے۔اس لیے لازم ہے کہ ہم بطور معاشرہ معاملے کی نوعیت کو سمجھیں اور خود کو کسی فساد سے محفوظ رکھیں۔
مسلم سماج میں سوشل میڈیا نے ،ان لوگوں کو اپنی بات کہنے کے لیے جگہ دے دی ہے جو اس سے پہلے یہ حق نہیں رکھتے تھے یا سماج کے نظامِ اقدار کے لیے قابلِ قبول نہیں تھے۔ترقی یافتہ ممالک میں بھی ایسا ہی ہوا۔یہ ‘سماجی اقلیتیں‘ سوشل میڈیا کے آنے سے مضبوط ہوئیں۔امریکہ میں ڈیموکریٹس لبرل تصور کیے جاتے ہیں۔یہ ہم جنس پرستوں کا یہ حق تسلیم کرتے تھے کہ وہ اپنی مرضی سے زندگی گزاریں۔ تاہم وہ بھی اس تعلق کو قانوناً ‘شادی ‘قرار دینے پر آمادہ نہیں تھے۔ 1996ء میں بل کلنٹن صدر تھے، تب بھی مرد و زن کے باہمی تعلق اورمعاہدے ہی کو شادی قرار دیا گیا۔ 2008ء میں اوباما بھی یہی سمجھتے تھے‘ تاہم اب دنیا تبدیل ہو چکی۔ سوشل میڈیا کے باعث ہم جنس پرستی کے حق میں فضا بن چکی ہے۔بہت سے امریکی ریاستوں نے اسے ایک جائز تعلق مان لیا ہے۔
مسلم معاشروں میں بھی ایسے گروہوں نے اپنی آواز بلند کر نا شروع کی۔اس کے لیے انٹر نیٹ نے انہیں مو قع فراہم کیا۔کہتے ہیں کہ بحرین میں ایک ویب سائٹ بنی جس میں ہم جنس پرستوں کے حقوق کی بات ہوئی۔ جیسے جیسے مسلم دنیا میں انٹر نیٹ کا استعمال بڑھتا گیا،اس طرح کی ‘سماجی اقلیتیں‘ بلند آہنگ ہوتی گئیں۔ 2010 ء میں شمالی افریقہ میں 10.9 اور مشرقِ وسطیٰ میں 29.8 افراد انٹرنیٹ استعمال کرتے تھے۔ 2016ء میں یہ تعداد 28 اور 57 فی صد ہو گئی۔ عرب بہار میںعام طور پریہ سمجھا جاتا تھا کہ انٹر نیٹ اور سوشل میڈیا کا سب سے موثر استعمال ہوا ہے۔ لیکن اس کے بارے میں تجزیہ یہ ہے کہ اس کا زیادہ فائدہ اسلامسٹ حلقوں کو پہنچا۔
مارچ کے ‘فارن افیئرز‘ میں ایک مضمون’آنے والے دنوں میں اسلامی کلچر جنگ‘ (The Coming Islamic Culture War) شائع ہوا ہے۔ اس میں یہ بتایا گیا کہ آنے والے دنوں میں مسلم سماج میں ‘سماجی اقلیتیں‘ سوشل میڈیا میں اپنی موجود گی کا زیادہ احساس دلائیں گی۔اس عمل کو سماجی علوم کے ماہرین ایک تھیوری کی صورت میں بیان کررہے ہیں جسے وہ (Identity Demarginalization) کہتے ہیں۔اس کا مفہوم یہ ہے کہ جو طبقے مرکزی دھارے میں شامل نہیں ہیں، وہ ایک دوسرے کے قریب آرہے ہیں اور یوں ان کی آواز میں جان پیدا ہو رہی ہے۔مضمون میں پیش گوئی کی گئی ہے کہ آنے والے دنوں میں مسلمان سماج میں مذہب مخالف خیالات کی صدا مزید اٹھے گی۔ملحد، دھریے ،سیکولر اور مرتد لوگ بہ آواز ِ بلند اپنی بات کہیں گے۔روایتی مذہبی طبقات کا شدید ردِ عمل سامنے آئے گا۔اس سے جوطوفان آنے والا ہے،اسے ہر وہ آ دمی محسوس کر سکتا ہے جو اشاروںکوسمجھتا ہے۔مضمون کے الفاظ ہیں:
“The rise of these religion-critical discourses will in turn trigger a backlash from conservative forces who fear an uprooting of traditional beliefs and identities.The coming social tsunami should be visible to anyone who knows what signs to look for”.
مضمون نگار کا کہنا یہ ہے کہ جہاں توہینِ مذہب کے خلاف قوانین موجودہیں اسے لبرل نہیں کہا جا سکتا۔ اس لیے میرا کہنا ہے کہ یہ قوانین اب اس کشمکش کا بطورِ خاص ہدف بنیں گے۔
اسلام نے انسان کا یہ حق تسلیم کیا ہے کہ وہ جو مذہب چاہے اختیار کرے۔ وہ اسے آزادی رائے کا حق بھی دیتا ہے۔ہمارے لیے اہم سوال یہ ہے کہ ہم ان دو باتوں کو سماجی حساسیت کے تناظرمیں کیسے سمجھتے ہیں۔یہ بھی اہم ہے کہ آزادیٔ رائے اور مقدس شخصیات و مقامات کی توہین کا فرق کیسے واضح کیاجا سکتا ہے؟ ہمارے مذہبی اور لبرل طبقات کو سنجیدگی کے ساتھ اس سماجی سونامی کے خطرات کا ادراک کرنا ہوگا۔یہ محض چند بلاگزکا معاملہ نہیں۔یہ اس سے کہیں بڑا مسئلہ ہے ۔