دل مغموم ہے جگر چھلنی ہے روح گھائل ہے میں کس کے نام لکھوں جو شام وسحر میرے دیس کے باسیوں پہ بیت رہی ہے میرے شہر جل رہے ہیں میر ےلوگ مررہے ہیں سوچتا ہوں کب تک یہ آگ و خون کا کھیل میری دھرتی کی ماوں کا کلیجہ چھلنی کرتا رہیگا مورخ لکھے گا ایسی قوم بھی کبھی اس دھرتی پر آباد تھی جو ظلم پہ ظلم سہتی تھی لاشیں اٹھاتی تھی تعداد میں بھی زیادہ تھے جنگی سازوسامان بھی رکھتے تھے مذمتیں بھی کرتے تھے مگر پھر سب بھول جاتے تھے جب تک نیا سانحہ نہ ہوتا مال روڈ لاہور کا دل ہے کئی اہل سخن نے مال روڈ کی رومانویت جاذبیت اور خوبصورتی پر قلم سے روشنیاں بکھیری محبتوں کے دیپ روشن کئے گذشتہ دنوں اسی مال روڈ کی تارکول کی بنی سڑک کو خون سے سرخ کیا گیا حملہ آوار سینکڑوں لوگوں سے ہوتا ہوا پولیس افسران کے نزدیک پہنچا اور خود کو اڑا دیا حملے میں دو اعلی پولیس افسران سمیت تیرہ کے قریب لوگ جان کی بازی ہار گئے جاں بحق ہونے والے لوگوں میں پولیس کے جوان ایک ڈولفن اہلکار ۔ جاں بحق ہونیوالوں میں زیادہ تعداد فارماسیوٹکلز کمپنیز کے ملازمین کی تھی جو مالکان کے حکم کی تعمیل کیلئے آئے ہوئے تھے شہدا میں ایک بدقسمت لڑکی بھی تھی جو اپنے بھائی کیساتھ شادی کی شاپنگ کیلئے آئی مگر عروسی جوڑے کی جگہ جب کفن میں ملبوس لاش گھر پہنچی ہوگی اس ماں کے دل پہ کیا بیتی ہوگی بیٹیاں تو ماوں کی لاڈلی ہوتی ہیں بھائیوں کی آنکھ کا تارا ہوتی ہیں اس ماں نے کیسے پائی پائی اکٹھی کرکے بیٹی کا جہیز بنایا ہوگا بیٹی تو جس دن پیدا ہوتی ہے ماں تو اسی دن سے دل میں ارمان سجالیتی ہے مگر انسانیت کے دشمن یہ وحشی درندے پل بھر میں برسوں کی کمائی کو اجاڑ جاتے ہیں ۔ حالیہ دنوں دہشتگردی کے واقعات پر سوچتا ہوں یہ نوحہ کس کے نام لکھوں ستم کی داستان کہاں سے شروع کروں چارسدہ سے کوئٹہ سے درگاہ سہیون شریف سے چہار سو بکھری لاشیں بین کرتی ماوں کی چیخ وپکار ہے آج لاہور ڈی ایچ اے میں اس ماں کا نوحہ لکھوں جو روتی ہوئی کہہ رہی تھی ظالمو میری تیس سال کی محنت میرا کڑیل جواں بیٹا جو گھر سے مزدوری کرنے نکلا تھا جو خاندان کا واحد کفیل تھا اسکا کیا جرم تھا کیوں مارا میرے لعل کو ۔ لاہور کی سڑکیں ویرآن نظر آتی ہیں ہم یہ ضد اور انا کی جنگ میں معصوم لوگوں کا قتل عام کب تک کرواتے رہینگے اس دہشتگردی نے کئی خاندانوں کے چراغ گل کردیئے ہاں مگر ہم اب بھی بضد ہیں کہ پی ایس ایل لاہور میں ہی ہونا چاہیئے انسانی لاشوں پہ یہ کھڑی سپر لیگ کی نحوست اس باپ سے پوچھو جسکے بڑھاپے کا سہارا چھن گیا اس بہن سے پوچھو جس کے ناز اٹھانے والا ہمیشہ کیلئے بچھڑ گئی اس بیوہ سے پوچھو جسکا سہاگ لٹ گیا ان معصوم پھول جیسے بچوں سے پوچھو جنکی فرمائشیں پوری کرنیوالا بابا اب اس دنیا میں نہیں رہا تف ایسی سوچ اور فکر پہ جو اب بھی امن کی آشا کا راگ الانپتے نہیں تھکتے معصوم بیگناہ لوگ مروا کر ہی ہم نے کھیل کے میدان آباد کرنے ہیں تو مجھے گھن آتی ہے ایسی سوچ کے حامل حکمرانوں سے اس ملک کے باسیوں کو پہلے امن دو جینے کا حق دو سانس لینے کی آزادی دو پہلے زندگیاں محفوظ بناو ۔ میں اس شب وستم کا کسے ذمہ دار قرار دوں قانون نافذ کرنیوالے اداروں کو پولیس کو عدلیہ کو جس نے آج تک کسی دہشتگرد کو سزا نہیں سنائی ناقص نظام تفشیش کو یقیننا پولیس نے قربانیاں دیں میں ان شہدا کو سلام پیش کرتا ہوں جو مادروطن پہ اپنی جوانیاں لٹا گئے مگر افسوس میں آج بھی جناح ہسپتال کے پاس سے گزرتا ہوں تو ہمارے محافظ جوان گیٹ پہ موجود نشست پر براجمان نظر آتے ہیں یہ احساس ذمہ داری انہیں کون سکھائے گا دہشتگردی کی جنگ میں 80ہزار جانوں کا نذرانہ دیکر بھی ہم اسی شش و پنج میں مبتلا ہیں کہ ہمارا دشمن کون ہے اسکے اہداف کیا ہیں اور یہ خون کی ہولی کھیلنے والے لوگ کون ہیں انکا تدارک کیسے ممکن ہے نیشنل ایکشن پلان ہو یا ضرب عضب یا حالیہ رد الفساد آپریشن عام آدمی ثمرات سے محروم ہے اب وقت آگیا ہے کہ یہ قوم فیصلہ کرے کہ ہم نے امن کی طرف لوٹنا ہے ہم نے آنیوالی نسلوں کا مستقبل محفوظ بنانا ہے ہم نے مسلم امہ کی جنگ بعد میں لڑنی ہے پہلے اپنے خطے کو امن کا گہوارہ بنانا ہے ہمارے بڑے صاحبان یہ بات یاد رکھیں روس پوری دنیا میں کمیونزم کا دفاع کرتا تھا مگر جب وقت آیا تو خود کو بھی نہ بچا سکا اور ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا مگر چائینہ نے صرف اپنے کیمونزم نظام کو محفوظ بنایا اور آج بھی وہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی صف اول میں ہے مگر ہم ہمیشہ پرائی جنگوں میں کودتے رہے جو ہمارے ملک کو کھوکھلا کرتی رہیں کاش ہماری حکومتیں اور ادارے پرائی جنگیں لڑنے کی بجائے اپنے دیس ہی کی جنگ لڑ لیں یہاں امن کی ہوائیں چلیں لوگ اس ملک میں اپنی زندگیاں محفوظ سمجھیں کسی ماں کا بچے کو گھر سے باہر بھیجتے ہوئے دل نا دھڑکے اگر ہم اس مشن میں کامیاب ہوگئے تو پھر وہ وقت بھی آئیگا جب ہم امت مسلمہ کی جنگ لڑنے کے بھی قابل ہوجائینگے تب تک کیلئے ہمیں کسی سانحہ کا انتظار کئے بغیر جنگی بنیادوں پر سیاسی بیانات سے ماورا بلا امتیاز آخری دہشتگرد تک امن کی دشمن سوچ کو منطقی انجام تک پہنچانا ہے عارضی امن کی بجائے مستقل پائیدار حل کی طرف جانا ہے اور اس ارض پاک کے چپے چپے کو دہشتگردی کے عفریت سے پاک کرنا ہے
مت قتل کرو آوازوں کو
تم اپنے عقیدوں کے نیزے
ہر دل میں اتارے جاتے ہو
ہم لوگ محبت والے ہیں
تم خنجر کیوں لہراتے ہو
اس شہر میں نغمے بہنے دو
بستی میں ہمیں بھی رہنے دو
ہم پالنہار ہیں پھولوں کے
ہم خوشبو کے رکھوالے ہیں
تم کس کا لہو پینے آئے ہو
ہم پیار سکھانے والے ہیں
اس شہر میں پھر کیا دیکھو گے
جب حرف یہاں مر جائے گا
جب تیغ پہ لے کٹ جائے گی
جب شعر سفر کر جائے گا
جب قتل ہوا سر سازوں کا
جب کال پڑا آوازوں کا
جب شہر کھنڈر بن جائے گا
پھر کس پہ سنگ اٹھاؤ گے
اپنے چہرے آئینوں میں
جب دیکھو گے ڈر جاؤ گے