توغنی از ہردو عالم من فقیر
حکیم الامت قلندر لاہوری نے عشق کی انتہا کردی علامہ لکھتے ہیں
توغنی از ہردو عالم من فقیر ۔
روزمحشر عذر ہائے من پذیر
گرحسابم راتو بینی ناگزیر
ازنگاہ مصطفی پنہاں بگیر
اے اللہ تو بے پرواہ ذات ھےتمام جہانوں سے-اور میں محتاج فقیر ہوں-ایک اپیل ھے عذر ہے مرے من میں(وہ عذر کیا ھے)(یقینا تونے بندوں کا حساب لینا ھے-مگر حساب کے وقت مرا حساب مرے مصطفی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے نہ لینا)اس شعر میں علامہ مرحوم کا خوف خدا اور عشق رسول انتہا پر ہے۔ شفیع المذنبین رحمتہ اللعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت رب کریم کا احسان عظیم ہے ۔ پروردگار نے کتاب مجید میں فرمایا۔ بیشک ہم نے ایک ایسا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مبعوث فرمایا جو ایمان والوں پر بے حد مہربان رحیم اور رروف ہے ۔ شافع محشر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ظہور پر نور کے بارے انجیل مقدس میں درج ہے ۔ من بعدہ اسمہ احمد ۔ عیسی علیہ السلام فرماتے ہیں میرے بعد وہ نبی آنیوالا ہے جس کا نام نامی احمد ہوگا میں اسکی نعلین پاک کے تسمے بھی باندھ سکوں تو میرے لیئے باعث شرف ہوگا۔ بلکہ تمام انبیا علیہیم السلام نے اپنی قوموں کو وصیت فرمائی کہ وہ ہادی برحق صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائینگے جن کے بعد نبوت کا باب بند ہو جائیگا جو نبی آخرالزمان ہونگے جو شافع روزجزاہونگے وہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وجہ تخلیق کائنات ہونگے ۔لتومنن بھہ ۔اگر تم ان کا زمانہ پاو تو ان پر ایمان لانا پیروی کر نا اس ہادی برحق کی نصرت کرنا ۔محبوب حق تعالی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میں تب بھی نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھا جب آدم مٹی و پانی کے درمیان تھے ۔ جب جبرائیل امین علیہ السلام سے صادق و امین نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اے قاصد خداوندی بتا تیری عمر کیا ہے جبرائیل علیہ السلام نے عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اپنی عمر کے بارے نہیں جانتا ہوں مگر ایک ستارہ ہے جو ستر ہزار سال بعد طلوع ہوتا ہے میں نے وہ ستارہ بہتر ہزار مرتبہ دیکھا ہے ۔ کریم آقا علیہ السلام نے فرمایا جبرائیل انا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔جبرائیل وہ ستارہ میں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ تھا ۔
عیسی آمنہ سلام اللہ علیھا فرماتی ہے جب کریم مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد کا وقت ہوا میرے چہار سو روشنی پھیل گئی اور میرے حجرے کے در و دیوار اس قدر منور اور وسیع وعریض ہوگئے کہ میں نے اپنے حجرے میں بیٹھے شام کے محلات دیکھ سکتی تھی۔ پھر سیدہ آمنہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کچھ عورتیں کہتے پاس آئیں جن میں ایک فرعون کی اہلیہ آسیہ رضی اللہ عنھا تھیں جنہوں نےموسی علیہ السلام کی پرورش کی تھیں سلام کے بعد عرض کرتی ہیں میں نے سمندر کی لہروں پہ تیرتے جب ایک صندوق کو دیکھا تو نکلوا کہ کھولا تو ایک خوبرو نومولود تھا میں نے اس کی پرورش کی وہ اللہ کا نبی موسی علیہ السلام تھا ۔ پھر دوسری عورت آئی سلام کے بعد عرض کیا۔ انا مریم ‘ میں مریم ہوں ۔ عیسی علیہ السلام کی والدہ ہوں جب عیسی علیہ السلام بغیر باپ کے پیدا ہوئے تو لوگوں نے میری پاکدامنی پہ شک کیا میں نے امر خداوندی سمجھ کر صبر کیا میرے رب نے آج مجھے اس انعام میں میں اپنےمحبوب محمد علیہ السلام کی داعیہ بنا کے بھیجا ہے ۔سیدہ آمنہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں جب آپ تشریف لائے تو ناف بریدہ روشن پیشانی مہر نبوت کیساتھ لبوں پہ تبسم سجائے صبح صادق جلوہ گری فرمائی ۔سیدالکونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرمائے ہیں بچپن میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جدھر انگلی گھماتے چاند ادھر گھوم جاتا۔ یہ ساعتیں یہ گھڑیاں اس والی کون مکان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہیں جنکی آمد کی خوشی شاہ ولی اللہ محدث دہلوی منایا کرتے تھے جب ایک سال آپکے پاس پیش کرنے کیلئے کچھ نہ تھا تو آپ نے تھوڑے سے بھنے ہوئے چنے لئے میرے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدح سرائی فرمائی اور تقسیم کردیئے رات سوئے تو خواب میں مسکینوں کا ماوی یتیموں کا والی غریبوں کا ملجا انیس الغریبین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جلوہ گری فرمائی اور ہاتھ میں وہ چنے ہیں اور تناول فرمارہے ہیں کریم آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شاہ ولی اللہ کے خلوص پہ مہر ثبت فرمائی اور یہ اصول دیا بارگاہ مصطفوی میں درودوں کی ڈالیاں لاو سلاموں کے گجرے لاو خلوص دل لاو جنبش لب نہیں چشم تر لاو ۔ اور جب ایک صحابی آپ سے بات کرتے ہوئے ذرا اونچی آواز میں بولے تو فورا رب قدیرنے آیت مبارکہ نازل فرمادی ۔میرے محبوب کی آواز سے اپنی آوازوں کو پست رکھو اگر آواز بلند کی میرے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تو یادرکھنا تمھارے اعمال برباد ہوجائیں گے ۔ میرے آقاکریم علیہ الصلوۃ والسلام تشریف لائے تو سیدہ آمنہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کریم مصطفی کی زبان پہ تھا ۔ یارب ھبلی امتی ۔یارب ھبلی امتی یااللہ میری امت یا پروردگار میری امت جب میرے آقا کا اپنے رب سے ملاقات کا وقت آیا تب بھی محبوب خدا کی زبان پہ تھا یارب میری امت یارب میری امت ۔آپ کے صحابہ فرماتے ہیں اللہ کے محبوب راتوں کو اٹھ اٹھ کہ دعائیں مانگتے داڑھی مبارک آنسوؤں سے تر ہوجاتی پاوں میں ورم آجاتا مگر میرے آقا علیہ الصلوۃ والسلام اپنے رب سے امت کی مغفرت کا سوال کرتے جاتےاپنے محبوب علیہ السلام کی تکلیف میرے رب سے بھی برداشت نہ کوئی رب کریم نے جبرائیل امین علیہ السلام کو بھیج دیا پوری سورہ مزمل دیکر ۔ یاایھاالمزمل ۔قم الیل الا القلیلا ۔ اے چادر اوڑھنے والے میرے محبوب رات کا کچھ حصہ آرام کر لیا کر۔ میرے آقا امت کیلئے اس قدر فکرمند ورنجیدہ سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے روز قیامت میں اس وقت تک سجدے سے سر نہیں اٹھاونگا جب تک میرا آخری امتی جنت میں نہ چلاجائے ۔ مگر ہم نے اس نبی رحمت کی تعلیمات کا کس طرح حق ادا کیا ہم اپنے ہی کلمہ گو بھائیوں کا حق کھاتے رہے ہم نے اپنے ہی نبی کے امتیوں کے گلے کاٹے ۔ ہم تو اس نبی کے پیروکار تھے جو رحمتہ اللعالمین تھے