ناسائی سے بات کا آغاز ہو تو میری یاداشت اتنی اچھی تو نہیں مگر جو دل میں گھر کرلیتے ہیں تو اُنکی ہر ادا ہر بات کسی نہ کسی بہانے یاد رہ ہی جاتی ہے ۔یہ10جون 2014کی بات ہے ،جب میں ایک آن لائن بلاگ پر طبع آزمائی میں مصروف تھا تو ’’زندگی اک سفر ہے‘‘ کے عنوان سے ایک دلکش تحریر مجھے موصول ہوئی یہ بڑے خوبصورت انداز میں لکھا گیا سات پیراگراف پر مشتمل ایک کالم تھا،نہیں !بلکہ ملتان سے اسلام آباد تک کا سفرنامہ تھا۔۔،نہیں ۔۔بلکہ یہ بھی نہیں۔۔ وہ ملک و قوم کی حالت زار پرایک محب وطن کا نوحہ تھا،اُس تحریر میں اُسکی حقیقت پسندی،صاف گوئی ،بے لاگ اندازِ بیان نے مجھے بہت متاثر کیا۔ مجید احمد جائی کو یہ جان کو حیرت ہو گی کہ اُس کی وہ تحریر آج بھی میرے پاس محفوظ ہے ۔ ۔بس تبھی سے ہماری دوستی کا آغاز ہوا ،چونکہ میں دیارِ غیر میں تھا تو ہمارے رابطے ای میل اور سوشل میڈیا کے ہی مرہون منت رہے ۔ پہلی بالمشافہ ملاقات 15-05-2016کو پیلاک الحمرا میں ادب اطفال کے حوالے سے اکتیس کتابوں کی تقریبِ رونمائی کے موقع پر ہوئی جس میں مجید کی کتاب ’’اخلاق کے انعام‘‘بھی شامل تھی،ملاقات مختصر ترین تو تھی مگر تسکین قلب کے لئے بھرپور رہی ۔کچھ ذاتی غیر متوقع مصروفیات کے باعث مجھے دوران تقریب ہی جانا پڑا مگر جاتے جاتے مجید نے اپنی مرتب کردہ کتاب’’قفس میں رقص‘‘ جو نسل نو کے نامور افسانہ نگاروں کے منتخب کہانیوں کا مجموعہ تھا ،پیش کی۔مگر افسوس وقت کی قید سے نکل کر مطالعہ ہی نہ کر پایا۔مجید نے شکوہ تو نہ کیا مگر میرے بک شلیف کی زینت بنی ہوئی یہ کتاب مجھے سوالیہ نگاہوں سے ضرور تکتی رہی ، احساس ہوا اور ندامت بھی۔تو پھر میں نے اپنی تمام مصروفیات اور مجبوریا ں قفس میں رقص کرنے کو چھوڑ دیں اور خود ’’قفس میں رقص ‘‘ کے مطالعہ میں ہی محو حال ہوگیااورنت نئے انداز میں لکھیں نئی نئی کہانیوں سے لطف اندوز ہوتا رہا
majeed-ahmed-jaiمجید احمد جائی کا تعلق مدینہ اولیاء کی مقدس زمین ملتان سے ہے ۔ قلمی سفر کا آغاز 2000میں روزنامہ ’’نیا دور‘‘ سے کیا ، پہلی کہانی ’’خوشی کی تلاش‘‘ نے اہل ذوق احباب کو اپنی طرف بھرپور متوجہ حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔کرن کرن روشنی کے ایڈیٹر کی حیثیت سے بھی اپنی ذمہ داریاں با خوبی نبھا رہے ہیں ۔ چار سوسے زائد کالم اور چار سے زاید افسانے اور کہانیاں لکھ چکے ہیں ۔ پاکستان کے مقبول ترین اخبارات، جرائد، آن لائن میگزین نے بھی ان ککی تحریریں شائع ہوتی رہتی ہیں۔مسلسل پانچ بار ’’ریشم‘‘ ڈائجسٹ سے بہترین لکھاری کا ایوراڈ بھی اِنکا مقدر بن چکا ہے ،بچوں کیلئے انکی پہلی کتاب ’’اخلاق کا انعام‘‘مئی 2016میں شائع ہوئی اور سفرنامہ ، ناول اور افسانوی مجموعے زیراطباع ہیں ،جبکہ حال ہی میں شائع ہونے والی منتخب افسانوں پر مرتب کردہ کتاب ’’قفس میں رقص‘‘بھی ادبی حلقوں میں مقبول عام ہو چکی ہے ۔ ۳۰۵ صفحات کی یہ کتاب ۲۶ افسانوں پر مشتمل ہے جسکے لئے انہیں مجید کو سمیع اللہ خان اور صائمہ نور کی معاونت حاصل رہی ،تزئین و اہتمام اشاعت میں راحت امیرخان نیازی نے اپنی ذمہ داریاں با حسن خوبی انجام دی ہیں اور صدق رنگ پبلی کیشنز ملتان نے شائع کیا ،قیمت صرف ۵۰۰ روپے ہیں۔ انتساب اپنے والد محترم غلام حسین جائی(مرحوم) کے نام ہے جن کی دعاوں اور شفقت سے مجید احمد جائی اِس مقام تک کا سفر کیا ہے
مرزا شبیر بیگ ساجد(ایڈیٹر سلام عرض) اِس کتاب کے دیباچہ میں لکھتے ہیں زیادہ تر قلمکاروں نے کہانی نویسی کے میدان میں اچھی نسل کے گھوڑے دوڑائے ہیں جو کہ خوش آئند اور حوصلہ افزا بات ہے ۔ انہوں نے اپنی تحریرکا مجید کی ادبی کاوش کو سراہتے ہوئے نئے قلمکاروں سے اِس اظہارِ توقع پر اختتام کیاہے کہ وہ آج کے جلتے سلگتے موضوعات کو اپنی کہانیوں کے قالب میں ڈھالیں اور قارئین کے مطالعے کے لئے ایسی کہانیاں تخلیق کریں جو نوجوانوں کے خون کو گرما دیں اور ان کے دلوں میں ایک ایسا جذبہ پیداکریں کہ وہ دہشت گردوں اور خونی درندوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر کیفرکردار تک پہنچائیں۔
نور احمد غازی (ڈائریکٹر صدق رنگ پبلیکیشنز ) اِس کتاب پر اپنے تاثرات بعنوان ’’اظہار خیال‘‘ میں لکھتے ہیں کہ مجید نے منتخب تخلیقات کو اکٹھا کر کے ’’قفس میں رقص‘‘ کے نام سے زخیم اور معیاری ،خوبصورت اور بامقصد کتاب شائع کر کے اعلی مثال قائم کی ہے ۔ جس سے گمنام قلم کاروں کو ادبی حلقوں میں متعارف ہونے کا موقع ملے گا بلکہ ذوق مطالعہ رکھنے والوں کو اچھی کہانیاں بھی پڑھنے کو ملیں گی
محترم راحت امیر نیازی لکھتے اِس خوبصورت کاوش پر مجید احمد جائی کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ قرنا جاؤں مجید احمد جائی جسیے پرخلوص لوگوں سے جو اس دور میں قافلے کی روایت کے امین ہیں ۔ اپنے لئے تو سب بہت کچھ کر لیتے ہیں ،مزا تو تب ہے کہ آپ دوسروں کیلئے کچھ کر گزریں اور مجید احمد نے واقعی ایسا کر دکھایا ہے ۔
مجید احمد ’’عرضِ احوال‘‘ میں اپنے احساسات کو کچھ یوں زبان دیتے ہیں کہ انسان مر کر فنا ہو جاتا ہے لیکن کتاب کو موت نہیں آتی ۔میں نے بھی اِسی سوچ کے ساتھ ادنی کی کوشش کی ہے تا کہ رہتی نسلوں میں بھی زندہ رہوں اور میرے الفاظ بھی ۔ الحمداللہ میری کتاب میں جتنے لوگوں کو شامل کیا گیا ہے سبھی حیات ہیں اور اچھا ادب تخلیق کرنے میں سرگرداں ہیں ۔کتاب کیطرف یہ میرا پہلا قدم ۔۔میں نے اپنے تیءں پوری کوشش کی ہے مگر پہلی کاوش میں خامیوں کا ہونا لازمی امر ہے ۔ معیاری تنقید اور رہنمائی میرے آگے کی راہیں متعین کرے گی اور مجھے نئی راہیں تلاشنے میں آسانی ہو گی ۔۔کیونکہ یہ سلسلہ آگے بڑھے گا اور کئی افسانوں اور کالموں کا مجموعہ بھی جلد منظرعام پر آئیگا ۔
افسانہ نگاروں میں احمد سجادبابر،سمیع اللہ خان، اللہ دتہ مخلص، تسنیم کوثر، جمیل اختر، دوست محمد مری، ڈاکٹر خادم حسین کھیڑا، ریاض ندیم نیازی، رضوان اللہ خان، زوارحکیم محمد ابصار حیدر، سید مبارک علی شمسی، سہیل احمد مراد پوری، سید ناصر احمد شاہ، شاہد سلیم شاہد، شہزاد سلطان کیف ، صائمہ نور، عبدالعزیزجی آ، علی حسنین تابش، عارفہ سعید، ملک عاشق حسین ساجد، مقصود احمد بلوچ، منشی محمد عزیز مئے، ممتاز احمد ، مجید احمد جائی، مسکان گُل اور ندیم احمد ندیم کے نام شامل ہیں ۔
kafs-mein-reqs-title’’قفس میں رقص‘‘میں شامل افسانے فسانے نہیں ،نہ ہی کوئی طوطا مینا کی کہانیاں ہیں بلکہ اِن میں تو حقیقت نگاری کا رحجان خوب غالب ہے ،مگر کہیں حقیقت میں رومانی امتزاج بھی شامل ہے ، افسانوں میں حقیقت کا رنگ بھرتے بھرتے، تعجب ، حیرت ، مہر و محبت ، خلوص و وفااور صدق و صفا ،رنج، خوشی ،غصہ ، نفرت ، حسد، بغض ، غم و غصے ، تعصب و نفرت ،رشک ، رقابت جیسے فطری جذبات کو روکنا بھی لکھاریوں کے بس میں نہیں رہے ہیں ۔اگر کہیں بغاوت کی بو آتی ہے تو کہیں عشق ومحبت میں قاری مہک اُٹھتا ہے، پیار بھی رنگ بدل بدل کر سامنے آتا ہے کہیں دنیا سے تو کہیں دین سے،کہیں کوئی اپنے آپ کیلئے جینے کی تگ و دو میں ہے تو کہیں دوسرے پر جان نچھاور کرنے کی کوشش میں۔ والدین کو اُس مقام پر رکھا گیا ہے جس کے وہ حقدار ہیں بہن بھائیوں جیسے مقدس رشتوں کو اُس درجے پے رکھا گیا ہے جس کے وہ متلاشی ہیں ۔ ازدواجی معاملات کے تقاضوں پر بھی کوئی سودے بازی نہیں کی گئی اور بڑے محتاط پیمانے میں ناپ طول کر زیرموضوع لایا گیا ہے ،زیادہ کہانیوں متوسط گھرانے کی زندگیوں کے اردگر گھومتی ہیں جو درحقیقت ان کہانیوں کا اصل حسن ہے ۔افسانوں میں معیشت و معاشرت اپنے منافقت و صداقت کی آمیزش کے ساتھ نظروں سے گزرتی ہے۔تکنیکی تناظر میں مختصراً یہ کہ افسانوں میں پلاٹ پیچ دار نہیں، کردار کم ہیں، خیالات اور عبارات کی تکرار نہیں ، کرداروں کو حقیقت کے قریب تر پیش کیا گیا ہے، معنی خیز الفاظ کا استعمال بڑی ہنرمندیوں سے کیا گیا ہے ، ہر کہانی قاری پر ایسے اثر پذیر ہو تی ہے جیسے وہ خود اِس کہانی یا واقعے کا چشم دید گواہ ہے،ہستے چہرے دیکھ کر مسکرا پڑتاہے اورنم آنکھیں کی منظر کشی سنجیدہ و غمگین کر دیتی ہے۔میرے نزدیک یہی سب ایک اچھے افسانے کو جانچنے کا پیمانہ ہے۔اورماسوائے ایک دُکا افسانے کے تمام اِسی معیارپر پورا اُترتے دیکھائی دیتے ہیں ۔
بے جا تنقید کسی کی اُبھرتی ، نکھرتی،بکھرتی صلاحیتوں کو قفل نہ لگا دے ۔اِس لئے یہ کوئی اچھاا وطیرہ نہیں۔لیکن پھربھی اُن پوائنٹس کو پوائنٹ آوٹ کرنا چاہوں گاجو قدرے معیوب لگے۔’’قفس میں رقص‘‘ ایک منفرد نام ہے لیکن اِس میں شامل افسانوں اورسرورق پر بنے پنجرے میں قید ایک دوشیزہ سے کیا مناسبت ہے ؟ میری کم علمی اِس تخیل کو میرے سامنے بے نقاب کرنے سے معذور رہی ہے۔ افسانہ نگاروں کا تعارف بمعہ تصاویر بڑی نفاست سے ہر افسانے سے پہلے پیش کردیا گیا تھا توایسی صورت میں ٹائٹل کے آگے پیچھے اندر باہر بیشمار تصاویر کی بھرمار سرورق کے حسن کوکم کرتیں دیکھائی دے رہی ہیں ۔ مجموعی طور پر یہ ایک اچھی کاوش ہے، افسانوں کا چناؤ بڑی سوچ وچار کے ساتھ کیا گیا ہے اور پبلش بھی بڑے ہی اہتمام کے ساتھ۔۔نئے لکھنے والوں کو شائع کر کے مجید احمد جائی نے جو کارنامہ سرانجام دیا ہے انشاء اللہ تعالی مجھے قوی امید ہے کہ’’قفس میں رقص‘‘میں منتخب افسانے الفاظ کے قفس سے آزاد ہو کر قاری کی یادوں میں ایک عرصہ تک رقص کرتے رہیں گے اورمجید کا نام بھی ادب کے لئے گراں قدر خدمات پیش کرنے والوں کیساتھ ذکرِ محفل ہواکرے گا۔ اِس کتاب اور اِس میں موجود افسانوں کے حوالے سے بس اِس بات پراکتفا کرونگا کہ یہ انتخاب، فن و معیاد کے اعتبار سے ایک سنجیدہ و عمدہ کاوش ہے ۔مجید احمد جائی اور انکے معاونین کیلئے ڈھیروں دعائیں اور نیک تمنائیں ۔اللہ کرے زورِ فروغِ ادب اور زیادہ