عاشق رسولﷺ امام احمدرضاخان الشاہ بریلوی
جب بھی دین میں کوئی بگاڑپیداہوتاہے تواللہ تعالیٰ اپنے بندہئ مومن کوبھیجتاہے جواللہ تعالیٰ کی مددسے دین ِ متین کااحیاء کرتاہے۔سرکاراعظمﷺ کی مُردہ سنتوں زندہ کرتاہے۔دین ِ متین کی جوشکل مسخ کردی گئی ہوتی ہے اس کوصحیح حالت میں لاکرحق اورباطل کے درمیان فرق واضح کرتاہے ایسے ہی خاصان ِ خدامیں سے ایک ہستی اعلیٰ حضرت امام احمدرضاخانصاب محدّث بریلی ؒ کی ذات ہے۔
قرآن مجیدفرقان حمیدمیں ارشادپاک ہے۔وَتُعِزَِّرُوْہُ وُتُوَقّرُہُ وَتُسبحوہُ بُکْرَۃَََ وَاصِیْلاَ۔ترجمہ کنزالایمان اوررسول ﷺکی تعظیم وتوقیرکرو۔اورصبح شام اللہ پاک کی پاکی بولو۔ (پارہ۶۲سورۃ الفتح)درج بالاآیت کریمہ کے پہلے حصے میں اللہ رب العزت نے یہ حکم دیاہے کہ رسول اللہ ﷺکی تعظیم وتوقیرکروان کاادب واحترام کرو۔اس لئے کہ اگرادب ہے توسب کچھ درست ہے اگرایک مسلمان کے دل میں آقادوجہاں سرورکون مکان ﷺکاادب نہیں ہے۔ توچاہے وہ لاکھوں نمازیں پڑھے کروڑوں روپے کی سخاوت کرے، کعبۃ اللہ کاحج کرے،قربانی کرے الغرض جتنی بھی عبادت وریاضت کرے توسب کچھ بے کارہے۔کیونکہ آقائے دوجہاں سرورکون ومکان ﷺکی محبت دین حق کی شرط اّول ہے۔
محمدﷺکی محبت دین حق کی شرط اوّل ہے اسی میں ہواگرخامی توسب کچھ نامکمل ہے
اعلیٰ حضرت امام احمدرضاخان بریلوی ؒ نے لوگوں کوبارگاہ خداوندی اوردربارمصطفی ﷺکاادب سکھایا۔آپؒ نے قرآن پاک کا جوترجمہ “کنزالایمان” کیاہے وہ اس بات کی گواہی دیتاہے۔قرآن پاک کے ترجمہ کنزالایمان کامطالعہ کیاجائے توالحمدسے لیکروالناس تک ایک ایک آیت بلکہ ایک لفظ میں ادب کے پہلونظرآتے ہیں چودہویں صدی ہجری میں کچھ بے ادب اورگستاخوں نے سرکارمدینہ راحتِ قلب وسینہ ﷺکی شان اقدس میں بے ادبیاں اورگستاخیاں شروع کیں تواللہ رب العزت نے احمدرضاکوپیداکیا۔آپؒ نے قرآن وسنت کی روشنی میں تحریراََ گویاہر لحاظ سے عظمت مصطفیٰ ﷺکواجاگرکر کے بتایاکہ ارے! بے ادب اورگستاخ نام نہادمسلمانوں سنو!وہ عیب ونقص والاکوئی تمہارا نبی ہوگا ہمارا نبی ﷺ ہرقسم کے عیب سے پاک ہے۔وہ توعظمتوں رفعتوں اورشانوں والارسول ﷺہے۔
وہ کمالِ حسن حضورہیں کہ گمان نقص جہاں نہیں یہی پھول خارسے دورہیں یہی شمع ہے کہ دھواں نہیں۔
علم وحکمت کے بے تاج بادشاہ، مجدددین وملت،پروانہ شمع رسالت مآب،عظیم المرتبت محدث،امام اہلسنت، مفکر اسلام،حسان الہند، اعلیٰ حضرت الشاہ امام احمدرضاخان بریلوی رحمۃ اللہ علیہ 10شوال المکرم 1272ہجری بمطابق14جون 1856 ہفتہ کے دن ظہرکے وقت ہندوستان کے مشہورشہربریلی شریف کے محلہ جسولی میں رئیس المتکلمین مولانانقی علی خان علیہ رحمۃ الرحمٰن کے گھرمیں پیداہوئے۔آپؒ کا پیدائشی نام محمداور تاریخی نام “المختار”ہے۔آپ ؒکے جدامجدمولانارضاعلی خان ؒ نے آپؒ کانام احمدرضارکھا اورآپؒ اسی نام سے مشہورہوئے (الملفوظ حصہ اول ص۳) آپ ؒکے والدمولانانقی علی خان ورآپؒ کے جدامجدمولانارضاعلی خان صاحب بھی اپنے وقت کے جلیل القدرعلمائے کرام میں شمارکیے جاتے تھے۔ امام اہلسنت امام احمدرضاخان بریلوی ؒبچپن ہی سے مذہب کی طرف راغب تھے۔ آپؒ اپنے دورکے معتبرعالم دین اورعاشق رسول ﷺہونے کے ساتھ ساتھ علوم قدیمہ وجدیدہ پرگہری نظررکھتے تھے۔آپؒ نے قرآن وسنت کی ترویج واشاعت اوردینی اقدارکے تحفظ میں اہم کرداراداکیا۔آپؒ عالم شباب میں ہی فنون عربیہ اورعلوم دینیہ کے ماہرکے طورپرمشہورہوئے آپؒ اپنی خدادادصلاحیتوں اورحیرت انگیز حافظہ کی بناء پرصرف تیرہ سال دس ماہ چاردن کی عمرمیں علم تفسیرواصول تفسیر،علم حدیث واصول حدیث،فقہ و اصول فقہ،صرف نحو،علم الکلام، منطق و فلسفہ وغیرہ تمام علوم دینیہ کی تکمیل کی۔آپؒ بچپن ہی سے تقویٰ طہارت،اتباع سنت،حسن وسیرت کے اوصاف جلیلہ سے مزین ہوچکے تھے۔ آپؒ کے خادم بیان کرتے ہیں کہ امام صاحب چوبیس گھنٹوں میں صرف ڈیڑھ یادوگھنٹے آرام(وہ بھی سنت رسول
پرعمل کی وجہ سے) فرماتے اورباقی تمام وقت تصنیف وتالیف،درس وتدریس،کتب بینی، افتاء اوردیگرخدمات دینیہ میں صرف فرماتے تھے۔برصغیرکے علمائے کرام آپؒ سے استفادہ کرتے تھے۔ آپؒ کوعربی فارسی ہندی اورمختلف زبانوں پرعبورحاصل تھاآپؒ نے مختلف عنوانات پرکم بیش ایک ہزار(1000) کتابیں لکھی ہیں۔آپؒ کی تصانیف تفسیرواصول تفسیر،حدیث واصول حدیث،فقہ اصول فقہ، صرف نحو،علم الکلام، منطق و فلسفہ،ادب،ریاضی،معاشرتی اصلاح،اخلاقی و روحانی اذکار،فتاویٰ اورسائنس جیسے موضوعات کا احاطہ کرتی ہیں۔ آپؒ نے لاکھوں فتاوٰی لکھے ان میں سے بعض کونقل نہیں کیاجاسکاجتنے فتاوٰی نقل کیے گئے ان کانام “العطایاالنبویہ فی الفتاوٰی رضویہ”رکھاگیاہے آپؒ کوعلم توقیت میں اس قدرکمال حاصل تھاکہ دن کوسورج اوررات کو ستارے دیکھ کرگھڑی ملالیتے تھے وقت بھی صحیح ہوتاتھا۔ اورکبھی ایک منٹ کابھی فرق نہ ہوا۔آپؒ نے ساری زندگی نمازباجماعت اداکی۔آپؒ رحم دل انسان تھے غرباء کوکبھی خالی ہاتھ نہیں لوٹاتے بلکہ ان کی ہمیشہ امدادکرتے تھے۔
؎کروں تیرے نام پرجاں فدانہ بس ایک جاں دوجہاں فدا دوجہاں سے بھی نہیں جی بھراکروں کیاکروڑوں جہاں نہیں
اعلیٰ حضرتؒ کی ساری زندگی درس وتدریس،وعظ تقریرافتاء اورتالیف وتصنیف میں بسرہوئی۔آپؒسرتاپاجذبہ عشق رسول ﷺسے سرشاررہتے تھے۔ آپؒ کونبی کریم ﷺ سے والہانہ محبت تھی۔ذکروفکرکی ہرمجالس میں تصوررسالت مآب ﷺسے آپؒ کا ذہن شاداب رہتاتھا۔آپؒنے دین مبین کے ہرگوشے اورہرشعبے کومحبت رسول ﷺمیں سمودیا۔آپؒ کی زندگی کے تمام گوشے وشعبے اتباع شریعت اوراطاعت ومحبت رسول ﷺ سے معمورتھے۔آپؒ کی حیات مبارکہ کاایک ایک لمحہ کتاب و سنت کی پیروی میں گزرا۔آپؒ نے عالم بیداری میں محبوب خدا ﷺ کادیدارکیا۔ جب آپؒ فریضہ حج کے لئے حرمین جاتے تووہاں کے علماء جوق درجوق آپ ؒسے استفادہ کرنے آتے تھے۔جب آپؒ دوسری بارحج بیت اللہ کے لئے تشریف لے گئے توزیارت نبوی ﷺکی آرزولئے روضہ اطہر کے سامنے دیرتک صلوٰۃ وسلام پڑھتے رہے مگرپہلی رات قسمت میں یہ سعادت نہ تھی اس موقع پرآپؒ نے معروف نعتیہ غزل لکھی۔
؎ وہ سوئے لالہ زارپھرتے ہیں تیرے دن اے بہارپھرتے ہیں
یہ غزل عرض کرکے آپؒ دیدارمصطفی ﷺکے انتظارمیں ادب کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے کہ قسمت جاگ اٹھی جان کائنات محمدمصطفی ﷺ کی چشمان سرسے بیداری میں زیارت اقدس سے مشرف ہوئے۔(بحوالہ حیات اعلیٰ حضرت)آپؒ کے اندرعشق رسول ﷺکوٹ کوٹ کربھراہوا تھا آپؒ فنافی الرسول کے اعلیٰ منصب پرفائزتھے آپؒ کانعتیہ کلام اس بات کی گواہی دیتاہے۔آپؒعلوم دینیہ کے عالم وفاضل ہونے کے ساتھ شعروسخن کابھی اعلیٰ ذوق رکھتے تھے۔آپؒ کاذوق تسلیم حمدوثناء اورنعت ومنقبت کے علاوہ کسی اورصنف وسخن کی طرف متوجہ نہیں ہوا۔آپؒ کے اس شعروسخن کے کلام میں بھی وہی عالمانہ وقارہے۔آپؒ فن ِشعرمیں کمال رکھتے تھے۔آپؒ نے جس والہانہ عقیدت سے اورجذبہ عشق میں ڈوب کرجونعتیں کہیں ان کا ایک ایک لفظ دل کی اتھاہ گہرائیوں سے نکلاہے اوردل میں ہی اترجاتاہے آپؒ کے مشہورزمانہ “سلام”کی گونج پورے عالم اسلام میں سنائی دیتی ہے۔
مصطفی جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام شمع بزم ہدایت پہ لاکھوں سلام
آپؒ فرمایاکرتے تھے کہ اگرکوئی میرے دل کے دوٹکڑے کرے توایک پرلاالٰہ الااللّٰہ اوردوسرے ٹکڑے پرمحمدرسول اللّٰہ ﷺ لکھاہواپائے گا(سوانح امام احمدرضا)آپؒنے اپنے شاہ کارنعتیہ کلام حمدوثناء اورنعت ومنقبت کوچارمختلف زبانوں (عربی فارسی،اردواور ہندی) میں پیش کیاہے۔آ پؒ کانعتیہ دیوان”حدائق بخشش “ہے۔ آپؒ فراق مصطفی ﷺمیں اکثرغمگین رہتے تھے گستاخانہ عبارت کودیکھتے تو آنکھوں سے آنسوجاری ہوجاتے تھے۔ نبی کریم ﷺکے گستاخوں کاسختی سے ردکرتے تاکہ وہ اعلیٰ حضرت کوبرابھلاکہنایالکھناشروع کردیں تاکہ جتنا وقت مجھے برابھلاکہے یالکھے گااس وقت تک آقا ﷺکی شان اقدس میں گستاخی کرنے سے بچارہے گا۔آپؒ اس پرفخرکیاکرتے تھے کہ باری تعالیٰ نے اِس دورمیں مجھے ناموسِ رسالت مآب ﷺکے لئے ڈھال بنایاہے۔
ٓٓٓصحبت صالح تُراصالح کند صحبتِ طالح تُراطالح کند
دُورشوازاختلاطِ یاربد یارِبدبدترازمارِبد
مارِبدتنہاہمیں برجاں زند یارِبدبرجان وبرایمان زند
اچھے آدمی کی مجلس تجھے اچھاکردے گی اوربُرے کی مجلس تجھے بُرابنادے گی
جہاں تک ہوسکے بُرے دوست سے دوررہ کیونکہ بُرادوست برے سانپ سے بھی بُراہے
کیونکہ بُراسانپ صرف جان کوڈستاہے جبکہ بُرادوست جان وایمان دونوں پرضرب لگاتاہے۔
آپؒ سوتے وقت ہاتھ کے انگوٹھے کوشہادت کی انگلی پررکھ لیتے تاکہ انگلیوں سے لفظ “اللّٰہ “بن جائے۔آپؒ پَیرپھیلاکرکبھی نہ سوتے بلکہ داہنی کروٹ لیٹ کردونوں ہاتھوں کوملاکرسرکے نیچے رکھ لیتے اورپاؤں مبارک سمیٹ لیتے۔اِس طرح جسم سے لفظ “مُحمد”بن جاتاہے۔
آپؒ کی زندگی کاایک اورپہلوبھی بہت اہم ہے کہ آپؒ کے دانش وعلم کامرکزصرف عبادت گاہیں،مدرسے ہی نہ تھے بلکہ آپؒ کی نگاہ برصغیرپاک وہنداوردنیاکی سیاست پربھی تھیں آپؒ نے برصغیرمیں اسلامی اقدارکوبرسرنوزندہ کرنے اورمسلمانوں کوان کی گمشدہ میراث واپس دلانے کے لئے بہت جدوجہدکی .آپؒ کے زندہ کارناموں میں سے ایک کارنامہ یہ بھی ہے کہ آپؒ تحریک آزادی کے علمبرداراور دوقومی نظریہ کے نقیب تھے اس لئے آپؒ نے تحریک عدم تعاون اورترکِ موالات کے زمانے میں متحدہ قومیت کے نظریے کوباطل قراردیااور مسلمانانِ برصغیرکوہندؤوں اور انگریزوں کی سازشوں سے خبردارکیاآپؒ نے کبھی کسی انگریزیاہندوکی عدالت میں حاضری نہیں دی تھی حتیٰ کہ آپ ڈاک کاٹکٹ ہمیشہ الٹا چسپاں کیاکرتے تھے۔اس ٹکٹ کوالٹاچسپاں کرنے کی اہم وجہ یہ تھی کہ اس ڈاک کے ٹکٹ پرانگریزملکہ یابادشاہ کی تصویرہواکرتی تھی۔
ایک دن جمعۃ المبارک کی نمازکے بعداعلیٰ حضرت امام احمدرضاخانؒتشریف فرماتھے حاضرین کامجمع تھا۔لوگ مسائل پوچھتے جارہے تھے اوراعلیٰ حضرت جواب دیتے جارہے تھے۔ اس وقت خلیفہ اعلیٰ حضرت،مولاناسیدحافظ محمودجان صاحب نے عرض کیاحضورمیں دیکھتاہوں کہ ہرمسئلے کا جواب آپکی نوکِ زبان پرہے کبھی کسی مسئلے کے متعلق آپؒ کویہ فرماتے نہیں سناکہ کتاب دیکھ کرجواب دیاجائے گاجب اعلیٰ حضرت نے یہ بات سنی توآپؒ کی آنکھوں سے آنسوجاری ہوگئے اورفرمایا،سیدصاحب!جب قبرمیں مجھ سے سوال ہوگاتووہاں کتابیں کہاں سے لاؤں گا۔جب آپؒ کی وفات کاوقت قریب آیاتوآپؒ نے مریدین کوبلاکرفرمایاجب میراانتقال ہوجائے تویادرکھومیری قبراتنی گہری کھودناکہ جس میں میں کھڑا ہو سکوں غلاموں نے عرض کیاحضورحسب معمول توقبراتنی گہری کھودی جاتی ہے کہ جس میں آدمی بیٹھ سکے آپؒ نے فرمایاکہ سرکاردوعالم نور مجسم ﷺکی حدیث پاک ہے کہ جب آدمی فوت ہوجاتاہے تواس کی قبرمیں خودکملی والے ﷺتشریف لاتے ہیں لہذامیں چاہتاہوں کہ میری قبر اتنی گہری ہوکہ جب امام الانبیاء محمدمصطفی ﷺ!میری قبرمیں جلوہ گرہوں تومیں کھڑاہوکرآپ ﷺکااستقبال کروں اورآپ ﷺکی خدمت اقدس میں صلوٰۃ وسلام کانذارانہ پیش کروں تقدیس خداوندی اورناموس رسالت اورعظمت مصطفی ﷺکی جوتحریک آپؒ نے1878ء سے 1921ء تک جاری رکھی اور محفل میلادکی جو آپؒنے مشعلیں روشن رکھیں وہ آج چمکتے ہوئے ستاروں میں تبدیل ہوکرچہاردانگ عالم میں روشنیاں بکھیررہی ہیں۔
اعلیٰ حضرت عظیم المرتبت امام احمدرضاخان بریلویؒ نے ایک طویل مدت تک تشنگان علم ومعرفت کواپنے کمالات ظاہری وباطنی سے مستفیدکرکے عالم ِاسلام میں روحانیت،تقریب الٰہی علم وحکمت اورعشق رسول ﷺکاذوق پیداکرکے 25صفرالمظفر1340ہجری بمطابق28اکتوبر1921 بروزجمعۃ المبارک ہندوستان کے وقت کے مطابق2بج کر38منٹ پر آپؒ نے داعی اجل کولبیک کہا۔ادھرمؤذن نے “حی علی الفلاح”کی صدابلندکی ادھر آپؒ نے جان جان آفریں کے سپردکردی۔اناللّٰہ واناعلیہ راجعون۔آج بھی آپؒ کامزارپرُانواربریلی شریف میں خاص وعام کے لئے زیارت گاہ بناہواہے۔جہاں پرآپؒ کاسالانہ عرس پاک24,25صفرالمظفرکومنایاجاتاہے۔25صفرالمظفرکوبیت المقدس میں ایک شامی بُزرگ ؒنے خواب میں اپنے آپ کودربارِرسالت مآب ﷺمیں پایاتمام صحابہ کرام علیہم الرضوان اوراولیاء عظام ؒ دربارمیں حاضرتھے لیکن مجلس میں سکُوت طاری تھااورایسامعلوم ہوتاتھاکہ کسی آنے والے کاانتظارہے شامی بزرگ ؒ نے بارگاہ رسالت مآب ﷺمیں عرض کی حضور ﷺ! میرے ماں باپ آپ پرقربان ہوں کس کاانتظارہے؟سید عالم ﷺنے ارشادفرمایاہمیں احمدرضاکاانتظارہے شامی بزرگ نے عرض کی حضور! احمدرضاکون ہیں؟ ارشادہواہندوستان کے مشہورشہربریلی کے رہنے والے ہیں۔بیداری کے بعدوہ شامی بزرگؒ مولانااحمدرضاخانؒ کی تلاش میں ہندوستان کی طرف چل پڑے اورجب وہ بریلی شریف آئے توانہیں معلوم ہواکہ اس عاشقِ رسول ﷺکااسی روزیعنی25صفرالمظفر 1340ہجری کووصال ہوچکاہے۔جس روزانہوں نے خواب میں سرورکائنات فخرموجوادت احمدمختار محمدمصطفی ﷺکویہ کہتے ہوئے سناتھاکہ ہمیں “احمد”کا انتظارہے۔(سوانح امام احمدرضا)
محسن ملت اسلامیہ ڈاکٹرعبدالقدیرخان اعلیٰ حضرت امام احمدرضاخان کے بارے میں فرماتے ہیں آج سے سوسال قبل جب انگریزہندوؤں کے ساتھ سازبازکرکے ہندکی معیشت پرقابض ہوئے تومسلمانوں کے تشخص اورتعلیمی نظام کوزبردست دھچکالگااستعماری طاقتوں کے مذموم عزائم کی بدولت مذہبی قدریں زوال پذیرہونے لگی تھیں اس پرآشوب دورمیں اللہ رب العزت نے برصغیرکے مسلمانوں کوامام احمدرضاجیسی باصلاحیت اورمدبرانہ قیادت سے نوازاکہ جن کی تصانیف،تالیفات اورتبلیغی کاوشوں نے شکست خوردہ قوم میں ایک فکری انقلاب برپا کردیا۔امام صاحب کی شخصیت جذبہ عشق رسول ﷺسے لبریزتھی۔آپکی ساری زندگی کومدنظررکھتے ہوئے یہ بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ آپؒ کی ذات نبی کریم ﷺ کے ساتھ وفاشعاری کانشان مجسم تھی آپ کی ہمہ جہت شخصیت کاایک پہلوسائنس سے شناسائی بھی ہے سورج کوحرکت پذیراورمحوگردش ثابت کرنے کے ضمن میں آپؒ کے دلائل بڑی اہمیت کے حامل ہیں آج جبکہ دوسری طرف ہمارادشمن ہمیں تباہ وبرباد کرنے کے لئے گھات میں بیٹھاہے۔تومیں سمجھتاہوں کہ امام صاحب ؒ کی تعلیمات سے بہرورہوکرہم آج بھی ایک سیسہ پلائی ہوئی دیواربن سکتے ہیں مصورپاکستان ڈاکٹرعلامہ اقبالؒ فرماتے ہیں؛ہندوستان کے دورآخرمیں ان جیساطبّاع اورذہین فقیہ پیدانہیں ہوا۔میں نے ان کے فتاوٰی کے مطالعہ سے یہ رائے قائم کی ہے۔ان کے فتاوٰ ی ان کی ذہانت،فطانت،جودت طبع،کمال ثقاہت اورعلوم دینیہ میں تبحرعلمی کے شاہدعادل ہیں۔ مولاناایک دفعہ جورائے قائم کرلیتے اس پرمضبوطی سے قائم رہتے تھے۔یقیناوہ اپنی رائے کااظہاربہت غوروفکرکے بعدکیاکرتے تھے۔لہذا انہیں اپنی شرعی فیصلوں اورفتاوٰی میں کبھی کسی تبدیلی یارجوع کی ضرورت نہیں پڑی۔(حوالہ ہفت روزافق کراچی 22تا28جنوری 1979)
اللہ پاک سے دعاگوہوں کہ اللہ رب العزت ہماری تمام جانی مالی عبادات کواپنے حبیب کریمﷺکے صدقے اپنی بارگاہ میں قبول فرماکرہمارے لئے ذریعہ نجات بنائے۔ ملکِ پاکستان کوامن وسلامتی کاگہوارہ بنائے۔ آقائے دوجہاں سرورکون ومکاں ﷺکی بروزقیامت شفاعت نصیب فرمائے مسلمانوں کوآپس میں اتفاق واتحاد نصیب فرمائے۔اللہ رب العزت عالمِ اسلام اورملک پاکستان کی خیرفرمائے۔اللہ رب العزت آقائے دوجہاں سرورکون ومکاں ﷺ کی سچی اورپکی غلامی نصیب فرمائے۔آمین بجاہ النبی الامین