خواتین پر تشدد کی بہت سی اقسام ہیں۔ یہ تشدد گھروں میں، گلیوں میں، کام کی جگہوں پر، اسکولوں میں ہوتا ہے۔ اس کی سب سے زیادہ عام شکل گھریلو اور جنسی تشدد کی ہے۔اسقاطِ حمل، نوعمری کی شادیاں، کاروکاری،غیرت کے نام پر قتل بھی دیکھنے میں آتا ہے۔ اس کے علاوہ مارنا،پیٹنا،دھکا دینا،زخمی کرنا،درد پہنچانااورجسم پر تیزاب پھینک دینا،لفظوں سے چوٹ پہنچانا،ذہنی ٹارچر کرنا،عزتِ نفس اور خودداری سے کھیلنا،حقیر سمجھنا،دوسروں کے سامنے بے عزتی کرنا، آزادی سلب کرنا اور دھمکی دینا ہتک آمیز الفاظ کا استعمال، پیسہ نہ دینا، زبردستی جنسی تعلقات قائم کرنا،جنسی طور پر ہراساں کرنااورچھیڑ چھاڑ کرناوغیرہ شامل ہیں۔
پاکستان میں ہر ایک گھنٹے دو خواتین گھریلو تشدد کا نشانہ بنتی ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق نوے فیصد خواتین گھریلو تشدد کا شکار ہوتی ہیں۔ دنیا بھر میں پاکستان خواتین کے لیے تیسرا خطرناک ترین ملک ہے۔ پاکستان میں ہر روز چھ خواتین کو اغوا اور چھ کو قتل، چار خواتین کے ساتھ ریپ اور تین خواتین کی خودکشی کے واقعات سامنے آتے ہیں۔پاکستان میں 2010 اور 2011 میں عورتوں کے لیے قانون سازی کی گئی جن میں ”کام کی جگہ پر عورتوں کو ہراساں کرنے کے خلاف قانون“ اور ”عورت دشمن رواجوں پر پابندی“ کا قانون خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔لیکن بات وہی ہے جو ہر دوسرے کالم میں لکھتے ہیں کہ قانوں سازی کا فائدہ تب ہے، جب اس کا نفاذ ممکن بنایا جائے۔ دراصل ملک میں قانون کے نفاذ کا عمل کمزور ہے اس کے علاوہ طاقت ور اور کمزور کے لیے الگ الگ قانون ہیں۔انصاف کو خریدا جا سکتا ہے۔یعنی انصاف برائے فروخت ہے۔
خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والے ایک غیر سرکاری ادارے عورت فاؤنڈیشن کے جاری کردہ اعداد شمار کے مطابق 2014ء میں پاکستان کے دیگر صوبوں کے مقابلے میں پنجاب بھر میں سب سے زیادہ خواتین پر تشدد کے7 ہزار سے زائد کیسز رپورٹ ہوئے۔مذکورہ سال میں خواتین کو اغوا کرنے کے ایک ہزار 7 سو 7 کیسز جبکہ ریپ اور گینگ ریپ کے ایک ہزار 4 سو 8 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔
ملک عزیز میں خواتین کے بنیادی انسانی حقوق ہمیشہ سے نظر اندا زکیے جا تے رہے ہیں۔ اکثر دیہاتی اور قبائلی نظام میں بسنے والی عورت پر آج بھی دور جاہلیت کے رسم و رواج کا اطلاق کیا جاتا ہے مثلاََ ونی، کاروکاری، جبری مشقت، مار پیٹ، بچیوں کی مرضی کے خلاف شادی، وراثت سے محرومی،جہیز کی رسم،قرآن سے شادی اور 32 روپے حق مہر وغیرہ ان سب کا شریعت اسلامیہ،پاکستانی قانون سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔ یہ سب کچھ شعائر اسلامی کے سراسر خلاف ہے۔ بلکہ اسلام میں تو عورتوں کو اتنے حقوق دیئے گئے ہیں کہ کوئی اور مذہب،معاشرہ پیش نہیں کر سکتا۔مثلاََجنت ماں کے قدموں کے نیچے،بیوی شوہر کا اور شوہر بیوی کا لباس قرار دیا، اس کے علاوہ اللہ تعالی نے قرآن پاک میں بیوی کے متعلق فرمایا کہ ان کے ساتھ اچھے طریقے سے زندگی بسر کرو۔اگر وہ تمہیں ناپسند ہوں تو ہو سکتا ہے کہ ایک چیز تمہیں پسند نہ ہو مگر اللہ نے اسی میں بہت کچھ بھلائی رکھ دی ہو۔(النسا:19)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتم میں سے بہترین وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لیے بہتر ہواور میں،تم میں سے سب سے زیادہ اپنے گھر والوں کے لیے بہتر ہوں اور جب تم میں سے کوئی مر جائے تو اسے چھوڑ دو یعنی اسے برائی سے یاد نہ کیاکرو۔(الترمذی:1828)
مسلمانوں میں سے کامل ترین ایمان والا وہ ہے،جو اخلاق میں سب سے بہتر ہے اور تم میں سے بہترین لوگ وہ ہیں جو اپنی عورتوں کے حق میں اچھے ہیں۔(الترمذی:1161)
بہرحال آہستہ آہستہ عورتیں بااختیار ہورہی ہیں، یونیورسٹیوں اور میڈیکل کالجوں میں ان کی تعداد میں اضافہ ہوچکا ہے، بلکہ وہ نمایا ں پوزیشنز حاحل کر رہی ہیں دوسری طرف دیہی علاقوں میں بھی لڑکیاں تعلیم حاصل کرنے کی جدوجہد کر رہی ہیں۔والدین میں بھی شعور آ رہا ہے وہ اپنی بچیوں کے اچھے مستقبل کے لیے ان کو زیور تعلیم سے آ راستہ کر رہے ہیں۔اس طرح کہ سکتے ہیں کہ اندھیر چھٹ رہا ہے۔،دنیا بدل رہی ہے۔سب سے بڑھ کر خواتین کو بھی اپنے حقوق سے آگاہی ہو رہی ہے۔وہ بیدار ہو رہی ہیں۔
عورتوں پر تشدد کے خاتمے کے عالمی دن کا آغاز 25 نومبر 1960ء کو ہوا تھا جب ڈومینکن ری پبلک کے آمر حکمران رافیل ٹروجیلو کے حکم پر تین بہنوں پیٹر یامر سیڈیز میرابل، ماریا اجنٹینا منروا میرابل اور انتونیا ماریا ٹیریسا میرابل کو قتل کردیا گیا تھا۔میرابل بہنیں ٹروجیلو کی آمریت کے خلاف جدوجہد کر رہی تھیں۔ 1981 ء سے عورتوں کے حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والے افراد ان کی برسی کو عورتوں پر تشدد کے خلاف دن کی حیثیت سے منا رہے ہیں۔17 دسمبر 1999ء کو اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے بھی 25 نومبرکو عورتوں پر تشدد کے خاتمے کا عالمی دن قرار دیا، اور اب دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی 25 نومبر کو عورتوں پر تشدد کے خاتمے کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے، اس دن کے منانے کا مقصد خواتین پر ذہنی، جسمانی تشدد اور ان کے مسائل سے متعلق آگاہی فراہم کرنا ہے۔اسی روز عورتوں پر تشدد کے خاتمے کے حوالے سے سولہ روزہ تقریبات کا بھی آغاز ہوتا ہے اور اختتام دس دسمبر کو انسانی حقوق کے عالمی دن کے موقع پر ہوتا ہے۔
عالمی دن منانے کا مقصد خواتین پر گھریلو و جسمانی تشدد اور ان کے مسائل کو اجاگر کرنا تھا،لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ دنیا کے بہت سارے ممالک میں بھی خواتین کو کسی نہ کسی حوالے سے تشدد کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے،اور اکثر خواتین تو خود پر ہونے والے ظلم کے خلاف آواز بھی نہیں اٹھاسکتیں،اقوام متحدہ کے اعداد وشمار کے مطابق دنیا بھر میں ہر تین میں سے ایک عورت تشدد کا شکار ضرور بنتی ہے،پاکستان سمیت جنوبی ایشائی ممالک میں خواتین پر زیادہ گھریلو تشدد کیا جاتا ہے۔
عالمی ادارے کی ایک رپورٹ نے پاکستان کو خواتین کیلئے بدترین ملک قراردے دیا ہے جہاں غیرت کے نام پر عورتوں پر تشدد اور ان کا قتل تیزاب سے حملوں اور ان کے ساتھ امتیازی سلوک کے خاتمے کیلئے حالیہ برسوں میں قانون سازی بھی ہوئی ہے تاہم پاکستان میں خواتین کی بہبود اور ترقی کیلئے کام کرنے والے ادارے اسے کافی نہیں مانتے ا ن کا کہناہے کہ ملک میں قانون کے نفاذ کا عمل کمزور ہے انتظامیہ عدلیہ اور پولیس میں بڑے پیمانے پر اصلاحات اور خواتین پر تشدد کے بارے میں حساسیت لانے سے ہی کچھ بہتری کی امید کی جاسکتی ہے۔
پوری دنیا میں ہی عورتوں پر تشدد کے واقعات پائے جاتے ہیں،بنگلہ دیش بھی اپنی خواتین کو تحفظ دینے میں ناکام رہا ہے۔اسی طرح ہندوستان میں جہیز نہ لانے والی خواتین کو جلا دیا جاتا ہے۔، اقوام متحدہ کے اعداد وشمار کے مطابق دنیا بھر میں ہر تین میں سے ایک عورت کبھی نہ کبھی تشدد کا شکار ضرور بنی ہے۔