لاہور سے لندن

image

آج کل پاکستان میں ایک بار پھر سیاسی سرگرمیاں زورو شور پر ہیں قومی اسمبلی کے کچھ حلقوں پر دوبارہ الیکشن ہو رہا ہے جس میں سب سے اہم حلقہ سابقہ سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کا ہے اور پھر ہے بھی لاہور میں کیو نکہ کہا جاتا ہے لاہور پاکستان اور بالخصوص پنجاب کی سیاست کا دل ہے اور اگلے مہینے بلدیاتی انتخابات بھی ہو رہے ہے کچھ یہ بھی وجہ ہے کہ انتخابی مہم میں زیادہ ہی تیزی ہے اور مقابلہ تحریک انصاف اور مسلم لیگ ن میں ہے پیپلز پارٹی جو ایک وقت میں وفاق کی علامت سمجھی جاتی تھی بد قسمتی سے اندرون سندھ تک محدود ہو کر رہ گئی ہے ویسے بھی اگر آپ دنیا کے کسی بھی ملک میں دیکھ لیں یہ انسانی تاریخ ہے کہ لو گ پہلی دو بڑی جماعتوں کی طرف ہی دیکھتے ہیں باقی کچھ چھوٹی
چھو ٹی جماعتیں ضرور ہو تی ہیں لیکن لوگوں کی ترجیحات میں پہلے اور دوسرے نمبر والی جماعتیں ہی ہوتی ہیں اب یہی صورت حال پاکستان کی ہے سیاسی پنجہ آزمائی تحریک انصاف بمقابلہ حکمران جماعت نواز لیگ ہے اور دونوں جماعتوں کی طرف سے تند و تیز بیانات کا سلسلہ اپنے عروج پر ہے کیو نکہ حکمران جماعت جانتی ہے کہ اگر وہ ہار گئے تو عمران خان کے دھاندلی کے مؤقف میں اور بھی وزن آجائے گا جس کی وجہ سے انکی اخلاقی ساکھ کو کافی نقصان پہنچ سکتا ہے پھر اسکا اثر آنے والے بلدیاتی انتخابات اور اگلے عام انتخابات تک بھی جا سکتا ہے جو کہ حکومت کے لئے بڑا سیاسی دھجکہ ثابت ہو سکتا ہے اور تحریک انصاف کی کوشش ہے کہ لاہور کی سیٹ جیت کر لوگوں تک پیغام پہنچائے کہ جو ہم دھاندلی کے متعلق کہہ رہے تھے سچ ثابت ہو گیا اور اگر وہ آنے والے بلدیاتی انتخابات میں لاہور میں مقامی حکومت بنانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو وفاقی اور صوبائی حکومت ناکارہ ہو کر رہ جائے گی شائد اسی لئے ایک دوسرے پر الزامات کی بھرمار ہے
کچھ اسی طرح کا حال آج کل برطانیہ کے دارلحکومت لندن میں بھی ہے کیو نکہ یہاں پر بھی میئر آف لندن کے انتخابات ہونے والے ہیں اور لیبر پارٹی جو کہ اپوزیشن مین ہے پہلے ہی لندن میں کافی مظبوط ہے اور نئے پارٹی سربراہ کے منتخب ہونے کے بعد پارٹی کا گراف کافی تیزی سے اوپر کی طرف گیا ہے اور نیا منتخب ہونے والا سربراہ جیریمی کوربین کافی زیادہ متحرک بھی نظر آتا ہے شائد اسی لئے برطانوی وزیراعظم بھی آج کل تقریروں میں زرہ بوکھلاہٹ کا شکار نظر آتے ہیں لیبر کی جانب سے لندن کے میئر کے لئے پاکستانی نزاد برطانوی شہری صادق خان کو نامزد کیا گیا ہے جو کہ ایک بس ڈرایؤر کا بیٹا ہے اور حکمران جماعت کی طرف سے زیک گولٹھ سمیتھ کو نامزد کیا گیا ہے جو عمران خان کی سابقہ بیوی کا بھائی بھی ہے اب دونو ں جماعتوں کی پالیسیاں بھی ایک دوسرے کے مخالف ہی ہے حکمران جماعت امیگرنٹ کے لئے سخت حکمت عملی رکھتی ہے اس کے بر عکس لیبر کے بارے میں عام تاثر یہ ہے کہ وہ امیگریشن کے قانین میں کچھ نرمی رکھتے ہیں شائد اسی لئے ایشیاء سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی اکثریت لیبر کی حمائت کرتی ہے
کچھ دن پہلے برطانوی وزیراعظم کا ایک ٹویٹ دیکھا جس میں کہا گیا کہ لیبر پارٹی اب برطانوی نسل اور ملکی حفاظت کے لئے خطرہ بن چکی ہے لیکن یہ بات وہی پر ختم نہیں ہوئی بلکہ آج وزیراعظم نے پارٹی عہدے داروں اور ورکرز سے خطاب کرتے ہو ئے پھر وہ بات دہرائی کہ لیبر دہشت گردوں کے ساتھ ہمدردی رکھتی ہے اور ملکی سلامتی کے لئے خطرہ بن گئی ہے کیمرون نے مزید کہا کہ لیبر کے نئے سربراہ کے بارے میں ہزاروں الفاظ لکھے جا سکتے ہیں لیکن میں اسکو اتنا ہی کہو گا کہ اسامہ بن لادن کی موت ایک سانحہ نہیں تھی بلکہ سانحہ تو وہ تھا جب تین ہزار لوگوں کی اموات پیش آئیں سانحہ وہ تھا جب ماں باپ کام سے گھر واپس نہیں آئے اور لوگ ٹاور سے چھلانگیں لگا رہے تھے لیبر پارٹی کے مو جودہ سربراہ نے دو ہزار گیارہ میں ایک ایرانی ٹی وی کو انٹر ویو میں کہا تھا کہ اسامہ بن لادن کی موت ایک سانحہ ہے کیو نکہ اسے قتل کیا گیا ہے اس کو گرفتار کر کے سسٹم میں رہتے ہو ئے سزا دی جاتی اور پھر ہم ایک سے ایک سانحہ کرتے گئے اس نے کہا کہ نو گیارہ سانحہ تھا لیکن عراق اور افغانستان میں جنگ بھی ایک سانحہ تھا جس سے ہزاروں لوگوں کی اموات ہوئی اور دنیا میں بد امنی پیدا ہو رہی ہے اور ہم رکنے کا نام نہیں لے رہے اسی لئے برطانوی وزیراعظم نے اسے ملکی سلامتی کے لئے خطرہ قرار دیا جب میں یہ سب دیکھ رہا تھا تو مجھے وہ زمانہ یاد آیا جب نواز شریف نے بے نظیر بھٹو کو ملکی سلامتی کے لئے خطرہ قرار دیا تھا ہیلی کاپٹر پر پمفلٹ بھی پھینکیے گئے گزشتہ عام انتخابات میں عمران خان کے بارے میں بھی اسی طرح کی ملتی جلتی باتیں کی جاتی تھی کہ یہ دہشت گردوں کی نمائندہ جماعت ہے لیکن انتخابات میں عوام نے فیصلہ اس کے بر عکس دیا۔
کسی نے سچ ہی کہا ہے کہ سیاست کے سینے میں دل نہی ہوتا اور نہ ہی اسے کسی پر رحم آتا ہے پاکستان کو بنے اور ہماری سیاسی جماعتوں کو بنے ہوئے تو چند سال ہی ہوئے ہیں لیکن برطانیہ تو ایک ترقی یافتہ ملک ہے اور اخلاقی جرات کو مد نظر رکھ کر فیصلے کئے جاتے ہیں پھر بھی وہاں کا وزیراعظم سیاسی مفادات کی خاطر ایک ایسی جماعت جس کی بنیاد سو سال سے بھی پرانی ہے کو ملکی سلامتی کے لئے خطرہ قرار دیتا ہے یہ سب لندن میں انتخابات جیتنے کے لئے کیا جا رہا ہے اب یہ تو انتخابات کے نتائج ہی واضح کرے گے کہ آیا برطانوی شہری بھی اسی طرح ہی سوچتے ہیں یا پھر اس کو ایک سیاسی نعرہ کے طور پے لیتے ہیں

اپنا تبصرہ بھیجیں