زندگی کے بہت سے راستوں میں ایک راستہ نقل و حمل یا ٹرانسپورٹیشن کا ہے، ایک جگہ سے دوسری جگہ تک نقل و حمل افراد کی
بھی ہوتی ہے اور سامان کی بھی۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی نے نقل و حمل کے میدان میں کامیابی حاصل کی ہے اور دور جدید کی تیز رفتار سواریوں کی وجہ سے دنیا سکڑ کر رہ گئی ہے۔ بری، بحری اور فضائی راستوں پر چلنے والی عام سواریوں میں ہوائی جہاز یا طیارے سب سے تیز رفتار وسیلہء سفر ہیں جو ایک وقت میں سینکڑوں افراد اور ہزاروں ٹن سامان کو چند گھنٹو ں میں ہزاروں میل دور پہنچا دیتے ہیں۔
پاکستان سمیت دنیا بھرمیں فضائی ٹریفک کنٹرول کرنے والے یعنی ’’ائیر ٹریفک کنٹرول کرنے والے ‘‘ ’’ائیر ٹریفک کنٹرولر‘‘ کا عالمی دن 20اکتوبر کو منایا جاتا ہے۔ ان کو ہم فضائی ناخدا بھی کہ سکتے ہیں ۔ اِس دن کے منانے کا مقصد فضائی سفر کے دوران ائیرٹریفک کنٹرولر کی اہمیت سے آگاہ کرنا ہے ۔ اس دن کی مناسبت سے دنیا بھر کے ہوائی اڈوں پر ائیرٹریفک کنٹرولر کے اعزاز میں تقریبات منعقد کی جاتی ہیں۔
عام مسافر طیاروں کو اڑانے والے تو پائلٹ ہوتے ہیں، لیکن جو لوگ فضا میں ان طیاروں کے محفوظ سفر، ہوائی اڈے سے ان کی محفوظ اڑان (ٹیک آف) اور بہ حفاظت اترنے (لینڈنگ) کے ذمہ دار ہوتے ہیں، وہ طیارے سے بہت دور کسی کمرے یا مینار (ٹاور) میں بیٹھ کر کام کرتے ہیں۔ان لوگوں کو ایئر ٹریفک کنٹرولر کہا جاتا ہے اور بہ حیثیت مجموعی یہ لوگ فضا میں اور زمین پر ہوا بازی کے بین الاقوامی قوانین کے مطابق، طیاروں کی محفوظ آمدورفت کا نازک کام انجام دیتے ہیں۔
فضا ء میں ٹریفک کو کنٹرول کرنا ایک انتہائی نازک ،خطرناک،کام ہے، ان فضائی ناخداں کو خراج تحسین پیش کرنا اس دن کا ایک اہم مقصد ہے ۔ایئر ٹریفک کنٹرولر کی ذمہ داریوں میں فضائی حدود میں پرواز کرنے والے طیاروں کو ایک دوسرے سے محفوظ فاصلوں پر رکھنا ۔ موسم کی کیفیت یعنی اس کے مطابق جہاز کو اران کی اجازت دینا ،طیارے کی سمت اور راستے کا تعین کرنا وغیرہ ہیں ۔ رات کے اوقات یا خراب موسم میں جب حدِ نظر بہت کم ہوجاتی ہے۔ ، ایئر ٹریفک کنٹرولر کی ذمہ داریوں میں بے حد اضافہ ہو جاتا ہے۔ پاکستان میں سول ایوی ایشن اتھارٹی (سی اے اے ) ایئرپورٹ کا نظم و نسق سنبھالتا ہے اس کے علاوہ دوسرا ادارہ پاک فضائیہ ہے ۔
ایئر ٹریفک کنٹرولرسول ایوی ایشن اتھارٹی کے ملازم ہوتے ہیں اور ان کا چناؤ اور فنی تربیت بھی سول ایوی ایشن اتھارٹی کی ذمہ داری ہے ۔
ایئر ٹریفک کنٹرولر کے پیشے کے لیے بی ایس سی ،جسمانی صحت خاص کر نظر کا درست ہونا لازم ہے ۔
ایک کامیاب ایئر ٹریفک کنٹرولر کو چار مختلف یونٹس میں اپنی اہلیت ثابت کرنی ہوتی ہے ،1۔فلائٹ انفارمیشن سینٹر 2۔ایریا اپروچ کنٹرول3۔کنٹرول ٹاور4۔ریڈار۔ان میں سے ریڈار پر صرف وہی افراد کام کرتے ہیں، جو پہلے تین یونٹس میں کام کرچکے ہوں۔ 1980ء سے پہلے ہمارے یہاں کل19 ایئر پورٹ تھے ۔اس وقت ملک میں کم و بیش 33ایئر پورٹ ہیں،بڑے ایئر پورٹس میں کراچی کے بین الاقوامی ہوائی اڈے کے علاوہ اسلام آباد، لاہور ، فیصل آباد، ملتان، سکھر پشاور کے ایئر پورٹس شامل ہیں۔
پاکستان کی فضائی ٹریفک میں روزانہ سینکڑوں جہاز اترتے یا روانہ ہوتے ہیں اور اسی طرح سینکڑوں جہاز ایسے ہوتے ہیں جو ہماری فضائی حدود کو استعمال کرتے ہوئے اوپر سے گزر تے ہیں۔ ہر جہاز ایئرٹریفک کنٹرول کی خدمات استعمال کرنے اور فضائی حدود استعمال کرنے پر پاکستان کو معاوضہ دیتا ہے۔
ایک بڑی دلچسپ بات ہے کہ جہاز کے پائلٹ کو علم نہیں ہوتا کہ اس سے کتنے فاصلے پر کتنے جہاز موجود ہیں، یہ پائلٹ کو ایئر ٹریفک کنٹرولر بتاتے ہیں۔جس طرح زمین کے اوپر بہت سی سڑکیں اور چوک ہیں اسی طرح فضا میں بھی جہازوں کیلئے مخصوص راستے اور چوک ہیں، جہاں بیک وقت میں کئی جہاز ایک دوسرے کو کراس کر رہے ہوتے ہیں ان کی بحفاظت کراسنگ اور مخصوص راستوں پر محفوظ سفر کی ذمہ داری ایئر ٹریفک کنٹرولر پر ہوتی ہے۔ ایئر ٹریفک کنٹرولر جہاز سے ہر لمحہ رابطے میں رہتے ہیں ۔ پاکستان کی فضائی حدود کو دو برابر حصوں میں تقسیم کر کے ان حصوں کی فضائی ٹریفک کو کنٹرول کرنے کیلئے دو مرکز بنائے گئے ہیں جن میں ایک لاہور ایئرپورٹ پر ہے اور ایک کراچی ایئرپورٹ کے پاس۔ لاہور ایئرپورٹ پر جو کنٹرول مرکز ہے وہ ملتان، ڈیرہ غازی خان، لورا لائی اور کوئٹہ سے لے کر پورے شمالی پاکستان کی فضائی ٹریفک کو کنٹرول کرتا ہے اس مقصد کیلئے راڈار لگے ہیں جو جہازوں کی صحیح پوزیشن اور رفتار بتاتے رہتے ہیں۔
ہوائی جہازوں کے حادثات میں خطہ شمالی امریکہ سر فہرست ہے ،دوسرے نمبر پر یورپ،تیسرے نمبر پر ایشیا،چوتھے نمبر پر جنوبی امریکہ،پانچویں نمبر پر افریقہ،چھٹے پر وسطی امریکا،اور ساتویں پر آسٹریلیا ہے،ورلڈ ائیر کرافٹ ایکسیڈنٹ لائبریری کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا میں سب سے زیادہ حادثات کا شکار ہونے والی ائیر لائن روس کی ائیر لائن ہے،دوسرے نمبر پر امریکی ائیر فورس،تیسرے پر برطانوی ائیر فورس ،جبکہ پاکستان کی قومی ائیر لائن حادثات کے لحاظ سے دنیا میں تیئسویں نمبر پرہے۔