گلیگلیو نے جب زمیں کے گول ہونے اور سورج کی بجائے زمیں کے سورج کے گرد گھومنے کا اعلان کیا تو ویلیکن میں کھلبلی مچ گئی کیونکہ چرچ کا موقف اس سے بالکل الٹ چلا آرہا تھا کہ زمیں چپٹی ہے اور کائناٹ کا مرکز ہونے کی وجہ سے سورج بھی اس کے گرد چکر لگاتا ہے گلیگلیو کی کی سوچ کو انجیل اور چرچ کی توہین قرار دیا گیا، ویلیکن نے گلیگلیو پر پادری چھوڑ دیئے۔ اسے اپنے ”کافرانہ” نظریات سے توبہ تائب نہ ہونے پر زندہ جلا دیئے جانے کی سزا سنائی گئی۔ گلیگلیو یہ کہتے ہوئے ”توبہ نامہ” پیش کرتا ہے کہ ”میرے کہنے، نہ کہنے سے زمیں کی حالت و حرکت میں کوئی فرق/تبدیلی نہیں آئے گی”۔
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ گلیگلیو یہ بات کرنے والا پہلا شخص نہیں تھا بلکہ اس سے تقریبا دوہزار سال پہلے یونانی ماہرین فلکیات یہی بات کہہ چکے تھے اگر گلیگلیو یہی بات یونانی ماہرین کے حوالے سے کہتا تو اس پر کفر کا فتوٰی لگتا نہ فتنہ بنتا، لیکن جونہی اس نے دوہزار سال پرانی بات کا خود مشاہدہ کیا، تجربہ کیا اور اسے اپنی تحقیق اور دریافت کے طور پر پیش کیا، ویلیکن میں بھونچال آگیا۔
مروجہ تصورات و نظریات سے ہٹ کر کچھ بھی پیش کرنا کل بھی جرم تھا اور آج بھی جرم ہے، خاص طور پر مزہبی حولے سے تو آج بھی انسان وہیں کھڑا ہے، کوئی نئی سوچ تو دور کی بات، کسی بوسیدہ نظریہ پر سے دھول تک جھاڑنے پر آج بھی وہی فتوٰی لگتا ہے، وہی فتنہ بنتا ہے۔ اصل مقصد فرد کی بیداری کے تمام راستے مسدود کرنا ہے تاکہ فردیت شخصیت کے بوجھ تلے دبی رہے، فرد شخص کا ”میں” دم گھٹ جائے جیسے ریشم کا کیڑا اپنے ہی بُنے ہوئے ریشم میں سکڑتا، سمیٹتا محدود اور قید ہوتا ہوا جاتا ہے اور بالاآخر یہی ریشم اس کا کفن بن جاتا ہے۔ ہمارے تشخص کا ہر روپ، ہماری پہچان کا ہر خول بھی ہماری فردیت و انفرادیت کا کفن ہی ہے، کیڑے کی طرح ہمیں بھی اپنا کفن ریشمی محسوس ہوتا ہے، اب کفن ہم سے نہیں لپٹا بلکہ ہم کفن سے چمٹے ہوئے ہیں، ہم زندہ لاش ہیں، چلتے پھرتے مردے ہیں۔