ملک کی مختلف یونیورسٹیوں میں اس وقت صحافت کے شعبے قائم ہیں‘ ہم اگر کسی دن طالب علموں کا ڈیٹا جمع کریں تو تعداد لاکھ تک ضرور پہنچ جائے گی گویا ملک میں ہر دو تین سال بعد لاکھ نئے ”صحافی“ پیدا ہو رہے ہیں لیکن کیا یہ نوجوان واقعی صحافی ہیں؟ یہ دس کروڑ روپے کا سوال ہے! میرے پاس یونیورسٹیوں کے ٹورز آتے رہتے ہیں‘ مجھے شروع میں تیس چالیس طالب علموں کی میزبانی میں دقت ہوتی تھی لیکن پھر ہم نے گھر میں بیس تیس لوگوں کی مہمان نوازی کا مستقل انتظام کر لیا یوں اب میرے پاس مختلف یونیورسٹیوں کے شعبہ صحافت کے طالب علم آتے رہتے ہیں اور میں ان سے سیکھتا رہتا ہوں‘ میں نے ان چند ”انٹریکشنز“ کی بنیاد پر چند نتائج اخذ کئے ہیں‘ میں یہ نتائج یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز اور شعبہ صحافت کے چیئرمینوں تک پہنچانا چاہتا ہوں‘ میری خواہش ہے میری رائے کو صحافت کے ایک کارکن کا مشورہ سمجھ کر سنجیدگی سے لیا جائے‘ صحافت کے وہ طالب علم جو میڈیا انڈسٹری کو جوائن کرنا چاہتے ہیں وہ بھی میری رائے کو سینئر کی تجویز سمجھ کر چند لمحوں کےلئے توجہ ضرور دیں مجھے یقین ہے‘ یہ توجہ ان کے کیریئر میں اہم کردار ادا کرے گی۔
میں دس مختلف یونیورسٹیوں کے بارہ ٹورز کی خدمت کر چکا ہوں‘ یہ خدمت ایک ہولناک تجربہ تھی‘ مثلاً مجھے ان بارہ ٹورز کے زیادہ تر نوجوان کتاب سے دور ملے اور اگر کسی سے زندگی میں کتاب پڑھنے کی غلطی سرزد ہو چکی تھی تو وہ کتاب کے نام سے ناواقف نکلا اور اگر اسے کتاب کا نام یاد تھا تو مصنف کا نام اس کے ذہن سے محو ہو چکا تھا اور اگر اسے مصنف اور کتاب دونوں کے نام یاد تھے تو وہ موضوع اور کرداروں کے نام ضرور بھول چکا تھا‘ مثلاً مجھے ان بارہ ٹورز کے طالب علم اخبار سے بھی دور ملے اور یہ ٹیلی ویژن بھی نہیں دیکھتے تھے‘ میں ایک وفد سے دو گھنٹے گفتگو کرتا رہا آخر میں پتہ چلا‘ یہ مجھے کامران خان سمجھ رہے ہیں اور یہ میرے جیو چھوڑنے پر حیران ہیں‘ زیادہ تر طالب علموں کو یہ معلوم نہیں تھا‘ میرے کالم اور میرے شو کا نام کیا ہے‘ میں شروع میں اسے اپنی غیر مقبولیت سمجھتا رہا اور یہ سوچتا رہا لوگ اب مجھے پڑھ اور دیکھ نہیں رہے لیکن جب میں نے دوسرے صحافیوں اور دوسرے پروگراموں کے بارے میں پوچھا تو معلوم ہوا یہ انہیں بھی نہیں جانتے لہٰذا میں نے اطمینان کا سانس لیا‘ مجھے یہ جان کر بھی خوشی ہوئی یہ لوگ صدر پاکستان‘ چاروں گورنرز‘ تین صوبوں کے وزراءاعلیٰ اور سپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینٹ کے نام سے بھی واقف نہیں ہیں‘ یہ لوگ قومی اسمبلی اور سینٹ کے ارکان کی تعداد بھی نہیں جانتے‘ یہ آج بھی بل کلنٹن کو امریکا کا صدر اور ٹونی بلیئر کو برطانیہ کا وزیراعظم سمجھتے ہیں‘ یہ عمران خان کے فین ہیں لیکن عمران خان نے کس کس حلقے سے الیکشن لڑا اور یہ قومی اسمبلی کی کس نشست سے ایوان کے رکن ہیں‘ ان میں سے کوئی نہیں جانتا تھا‘ میں اس وقت حیران رہ گیا جب ایک نوجوان نے قذافی کا نام لیا اور میں نے اس سے قذافی کا پورا نام پوچھ لیا‘ وہ نہیں جانتا تھا‘ میں نے اس سے قذافی کے ملک کا نام پوچھا وہ بالکل نہیں جانتا تھا‘ میں نے صدام حسین اور حسنی مبارک کے بارے میں پوچھا‘ وہ ان دونوں سے بھی ناواقف تھا‘ میں نے باقی طالب علموں سے پوچھا وہ بھی نابلد تھے‘ آپ بھی یہ جان کر حیران ہوں گے یہ نوجوان قائداعظم اور علامہ اقبال کے بارے میں بھی دو دو منٹ نہیں بول سکتے تھے‘ یہ نہیں جانتے تھے مشرقی پاکستان کو مشرقی پاکستان کیوں کہا جاتا تھا اور یہ نائین الیون کی تفصیل سے بھی واقف نہیں تھے‘ آپ کمال دیکھئے جنوبی پنجاب کی ایک یونیورسٹی کے دو طالب علموں نے مجھ سے آٹو گراف لئے باقی کلاس نے حیرت سے پوچھا ”یہ آپ کیا کر رہے ہیں“ میں نے بتایا ”آٹو گراف دے رہا ہوں“ ان کا اگلا سوال تھا ”آٹو گراف کیا ہوتا ہے“ میرے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں تھا‘ میں شروع میں طالب علموں کو اس جہالت کا ذمہ دار سمجھتا تھا لیکن جب تحقیق کی تو پتہ چلا اس علمی گراوٹ کی ذمہ دار یونیورسٹیاں اور صحافت کے شعبے ہیں‘ یونیورسٹیاں طالب علموں کی ذہنی نشوونما پر توجہ نہیں دے رہیں‘ کتاب‘ فلم اور سفر سیکھنے کے تین بڑے ذرائع ہیں‘ یونیورسٹیاں ان تینوں کو حرف غلط کی طرح مٹا چکی ہیں‘ تقریریں‘ مباحثے اور مشاہیر کے ساتھ سیشن علم پھیلانے کے بڑے ٹولز ہوتے ہیں‘ یونیورسٹیاں ان سے بھی فارغ ہو چکی ہیں‘ پیچھے صرف سلیبس بچتا ہے اور یہ بھی 70 سال پرانا ہے اور طالب علم اسے بھی پڑھنا پسند نہیں کرتے‘یہ پچاس سال پرانے نوٹس کی فوٹو سٹیٹس کرواتے ہیں‘ رٹا لگاتے ہیں‘ امتحان دیتے ہیں اور باقی وقت موبائل فون چیٹنگ پر خرچ کر دیتے ہیں اور یوں علم و عرفان کے عظیم ادارے جہالت کی خوفناک فیکٹریاں بن چکے ہیں۔
یہ چند خوفناک حقائق ہیں ‘میں اب یونیورسٹیوں کے ارباب اختیار کے سامنے چند تجاویز رکھنا چاہتا ہوں‘ ہمارے وائس چانسلرز تھوڑی سی توجہ دے کر صورتحال تبدیل کر سکتے ہیں‘ ہمارے تحریری اور زبانی الفاظ پھل کی طرح ہوتے ہیں اگر درخت نہیں ہو گا تو پھل بھی نہیں ہو گا‘ ہمارے طالب علموں کے دماغ خالی ہیں‘ اگر ان کے ذہن میں کچھ نہیں ہو گا تو پھر یہ کیا بولیں گے‘ یہ کیا لکھیں گے لہٰذا یونیورسٹیاں اور شعبہ صحافت سب سے پہلے طالب علموں کی دماغی ٹینکیاں فل کرنے کا بندوبست کریں‘ یہ ان کے ذہن کو درخت بنا دیں‘ پھل خود بخود آ جائے گا‘ آپ شعبہ صحافت کے سلیبس کو دو حصوں میں تقسیم کرد یں‘ ایک حصہ تکنیکی تعلیم پر مشتمل ہو اور دوسرا انٹلیکچول ایجوکیشن پر مبنی ہو۔ 100 کتابوں‘ 50 فلموں اور 25 مقامات کی فہرستیں بنائیں‘ یہ تینوں صحافت کے طالب علموں کےلئے لازمی قرار دے دی جائیں‘ کتابوں میں 50 کلاسیکل بکس‘ 25 دو سال کی بیسٹ سیلرز اور 25 تازہ ترین کتابیں شامل ہوں‘ یہ کتابیں اساتذہ اور طالب علم دونوں کےلئے لازم ہوں‘ فلموں میں 25 آل دی ٹائم فیورٹ‘15 دس سال کی اکیڈمی ایوارڈ یافتہ فلمیں اور باقی 10 اُس سال کی بہترین فلمیں ہوں جبکہ 25 مقامات میں قومی اسمبلی اور سینٹ‘ چاروں صوبوں کی صوبائی اسمبلیاں‘ گورنر ہاﺅس اور وزراءاعلیٰ ہاﺅسز‘ دنیا کے پانچ بڑے ملکوں کے سفارتخانے‘ آثار قدیمہ کے پانچ بڑے پاکستانی مراکز‘ جی ایچ کیو‘ آئی جی آفسز اور میڈیا ہاﺅسز شامل ہونے چاہئیں‘ آپ ان کے ساتھ ساتھ نائین الیون سے لے کر ترکی کی تازہ ترین ناکام فوجی بغاوت تک دنیا کے دس بڑے ایشوز کو بھی سلیبس میں شامل کر دیں‘ یہ ایشوز طالب علموں کو ازبر ہونے چاہئیں‘ آپ ملک کے بیس بڑے ایشوز کو دو طالب علموں میں تقسیم کر دیں مثلاً دو طالب علموں کو بجلی کا بحران دے دیا جائے‘ دو کے حوالے گیس کا ایشو کر دیا جائے اور باقی دو دو میں پٹرول‘ پانی‘ سیلاب‘ دہشت گردی‘ صنعت‘ بے روزگاری‘ صحت‘ تعلیم‘ ٹریفک‘ منشیات‘ انسانی سمگلنگ‘ اغواءبرائے تاوان‘ بھتہ خوری‘ پراپرٹی مافیا‘ ٹیکس اصلاحات‘ آبادی کا پھیلاﺅ‘ بے ہنری‘ سیاحت‘ ماحولیاتی آلودگی‘ خوراک کی کمی اور بے راہ روی جیسے ایشوز تقسیم کر دیئے جائیں‘ یہ طالب علم پورا سال ان ایشوز پر ریسرچ کرتے رہیں‘ یہ ہر ماہ دوسرے طالب علموں کو ان ایشوز پر ایک ایک گھنٹے کی پریذنٹیشن بھی دیں یوں یہ طالب علم ان ایشوز کے ایکسپرٹس بن جائیں گے اور باقی طالب علم ان کی پریذنٹیشن دیکھ اور سن کر ان ایشوز سے واقفیت پا لیں گے اور آپ طالب علموں کےلئے اخبار‘ ٹیلی ویژن اور ریڈیو بھی لازمی قرار دے دیں‘ طالب علموں کے گروپ بنائیں‘ ہر گروپ روزانہ دو اخبار پڑھے‘ ٹی وی کا کوئی ایک شو مسلسل فالو کرے اور کوئی ایک ریڈیو روزانہ سنے‘ یہ گروپ ان دونوں اخبارات‘ اس شو اور اس ریڈیو کا ایکسپرٹ ہونا چاہیے‘ ان سے متعلق تمام انفارمیشن ان کی فنگر ٹپس پر ہونی چاہیے‘ یہ گروپ انٹرن شپ بھی انہی اداروں میں کرے‘ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے یونیورسٹیوں کے پاس وسائل کہاں سے آئیں گے؟ یہ بھی بہت آسان ہے‘ آپ ڈیپارٹمنٹس کی کمپیوٹر لیبس فوراً بند کر دیں‘ ملک میں تھری جی اور فور جی آنے سے کمپیوٹر‘ لیپ ٹاپ اور ٹیبلٹس متروک ہو چکے ہیں‘ آپ اب کمپیوٹر لیبس پر بلاوجہ رقم خرچ کر رہے ہیں‘ ملک میں اب موبائل فون کمپیوٹر لیب ہیں‘ آپ ڈیپارٹمنٹس میں تگڑا وائی فائی لگائیں اور طالب علموں کو موبائل فون کے مثبت استعمال کی عادت ڈال دیں‘ آپ ہر ماہ لاکھوں روپے بچا لیں گے‘ آپ طالب علموں کو بتائیں اخبار‘ ٹیلی ویژن‘ ریڈیو‘ کتابیں‘ فلمیں اور تحقیقی مواد یہ تمام چیزیں موبائل فون پر دستیاب ہیں‘ آپ یہ سہولتیں فون سے حاصل کرسکتے ہیں یوں یونیورسٹی کے پیسے بھی بچیں گے اور طالب علم پڑھ‘ سن‘ دیکھ اور سیکھ بھی لیں گے اور پیچھے رہ گئے صحافت کے طالب علم تو میرا مشورہ ہے آپ اگر صحافی بننا چاہتے ہیں تو آپ ان تمام تجاویز کو تین سے ضرب دیں اور آج سے کام شروع کر دیں‘ میں آپ کو کامیابی کی گارنٹی دیتا ہوں‘ آپ ہم سب سے آگے نکل جائیں گے۔