بچوں کا اغوا اک اور دریا: انجینئیر افتخار چو ہدری

14089639_1134646913267060_1056198925_n.png
اک اور دریا کا سامناتھا منیر مجھ کو
میں ایک دریاکے پار اترا تو میں نے دیکھا
لگتا ہے منیر نیازی نے اس پاکستانی قوم کا رونارویا جس کو آئے روز مصیبتوں کی گھاٹیاں اترنا چڑھنا پڑتی ہیں۔ جن شہروں کے قبرستان آبادیوں سے بڑھے ہونا شروع ہوں وہاں کوئی آفت ہی آئی ہوتی ہے۔کیا پاکستان ایک آفتہ زدہ ملک ہے؟۶۹ویں یوم آزادی پر یہ چھبتا سوال آپ کے سامنے رکھے دیتا ہوں۔رات ڈاکٹر نبیل کا فون تھا کہ ابو اس کو کالم کا مضمون بنائیں ۔ہر طرف خوف ہر طرف وحشت۔مائیں لخت جگروں کو دن دیہاڑے کھو رہی ہیں۔وہ گجرانوالہ شہر جو محبت بھائی چارے اور الفت کی علامت تھی وہ شہر حیران کر رہا ہے۔
بچے کسی بھی قوم کا سرمایہ ہوتے ہیں اس سرمائے کو ڈوبتا دیکھ کر یقین کیجئے دل ڈوبتا ہے۔اس قوم کو کون کون سی آزمائیشوں سے گزرنا ہے ایک مصیبت ختم نہیں ہوتی دوسری آن کھڑی ہوتی ہے کوئٹہ کے لاشے اٹھائے تو ان بچوں کا سلسلہ ء اغوا شروع ہو گیا۔اور یہ کون سے آخری معرکہ ہے ایک سے گزریں دوسرا کھڑا ہوتا ہے۔
کس کس درد کا ذکر کروں لوگ کہتے ہیں کہ میرے کالموں میں حکومت کے خلاف ہی لکھا ہوا مواد ہوتا ہے۔ لیکن امن و امان جان اور مال کا ذمہ دار کون ہے وہ قومی اور صوبائی حکومتیں ہیں۔حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہے کہ ان موقعوں پر قوم تو متحد ہو جاتی ہے خون دینے والوں کی الئینیں لگ جاتی ہیں مگر دشمن کی چابی سے چلنے والے کھلونے اپنا کام دکھانا شروع کر دیتے ہیں۔اچکزئی ہو یاکوئی اور ان لوگوں کو تو فوج کو گالی دینے کا موقع ملنا چاہئے یقین کیجئے بعض اوقات مجھے لگتا ہے جنرل راحیل بھی صرف نظر کے عادی ہیں ورنہ جو زبانیں گدی سے باہر ہونی چاہئیں وہ ٹر ٹر نہ کرتی نظر آئیں۔
ماضی میں جب اس قسم کے واقعات ہوئے اس وقت کی حکومتوں کو ذمہ دار ٹیا گیا اور اگر اب یہ ہو رہ اہے تو موجودہ حکومتیں اس کی ذمہ دار ہیں۔
ضیاء دور تھا بم دھماکے اس وقت بھی ہوتے تھے ان دنوں ایک ہتھوڑا گروپ سامنے آیا تھا آئے روز خبر ملتی کے سوئے ہوئے لوگوں کے سر بادانوں سے کچلے ہوئے پائے جاتے تھے غریب دور تھا چھتوں پر سونے والے لوگ گلیوں اور کھلے صحنوں میں سوئے لوگ مارے جاتے پھر ایک زمانہ آیا وہ تو حال ہی کی بات ہے کہ آدم خوروں کا چرچا ہو گیا ہر لمبا آدمی جس کے دانت باہر نکلے ہوئے تھے لوگوں نے اسے پکڑ کے مارنا شروع کر دیا۔یقین کیجئے میرا حکومتوں کا ساتھ دینے کو دل کرتا تھا کہ مل جل کر ان آفتوں کا مقابلہ کریں۔ایک نئی آفت بچوں کے اغوا کی ہے گجرانوالہ کے واپڈا ٹاؤن میں ایک واقعہ ہوا بچہ جب اغوا ہوا تو والدین نے مین گیٹ بند کر کے تلاش شروع کی تو پولیس آ گئی اور اس نے ڈنڈے مار کر گیٹ کھلوایا پیپلز کالونی میں دن دیہاڑے دو بچے اغوا ہو گئے۔
پریشانی سی پریشانی ہے بچے ماں باپ کی آنکھوں کا تارا اور نور ہوتے ہیں آنکھوں سے اوجل ہو جائیں تو ماں باپ تڑپ کے رہ جاتے ہیں۔اغوا ہونے والوں بچوں کے ساتھ کیا ہوتا ہے اس کا تو علم نہیں مگر سوشل میڈیا نے والدین کو تڑپا کے رکھ دیا ہے کوئی کہتا ہے یہ تھائی لینڈ جاتے ہیں اور وہاں ان کے گردے وغیرہ نکال کر پھینک دیا جاتا ہے کوئی کہتا ہے انڈیا میں بچوں کو اغوا کر کے اسی قسم کے مذموم مقاصد کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔
اس وقت دنیا میں بلین ڈالرز کی انڈسٹری بن چکی ہے اعضاٗ کی پیوند کاری میں چائینہ اور ہندوستان سب سے بڑی منڈیاں ہیں۔خود چائینہ میں اغواء کی وارداتیں ہو تی ہیں۔انڈیا ایک ایسا ملک ہے جہاں سب کچھ ہوجاتا ہے مگر دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا دعوی اس کے گناہوں پر پردہ ڈال دیتا ہے۔
پاکستان کے بچے ایوب دور میں بھی اغواء ہوتے تھے گلی محلوں سے بچوں کو کوئی چیز سونگھا کر بے ہوش کر کے لے جایا جاتا تھا ان بچوں کے معذور بنا کر علاقہ غیر میں جبری مزدوری پر لگا دیا جاتا تھا اس وقت ایک کتاب یاغستان سے واپسی پڑھی تھی جس میں خرکاروں کے اغواء کرنے کے بعد کے حالات بتائے گئے ہیں۔
اغواٗ برائے تاوان تو اب بھی ہوتا ہے لیکن ان معصوم کلیوں کا اتنی بڑی تعداد میں غائب ہونا یقیناًحکومت کے لئے چیلینج ہے۔پنجاب پولیس کو ڈنڈہ ماری کلچر سے باہر آنا ہو گا ۔حکومت کو چاہئے یونیورسٹیوں کو یہ مسئلہ سٹڈی کے لئے دین این جی اوز کو شامل کریں۔کاش طلاباٗ تنظیمیں متحرک ہوتیں۔میں میاں نواز شریف سے درخواست کروں گا کہ یہ ٹاسک اسلامی جمعیت طلبہ آئی ایس ایف اور دیگر تنظیموں کو دیں کہ وہ سروے کرکے اس مسئلے کی سٹڈی کر کے رپورٹ کریں۔علامٗ کا کردار بھی شامل رکھا جائے۔مساجد میں جمعے کے خطبوں میں بچوں کی حفاظت پر لیکچر دئے جائیں تا کہ عوام میں شعور پیدا ہو۔
عوام کیا کریں؟میری ذاتی رائے ہے ماں باپ ان چند دنوں کے لئے محتاط ہو جائیں۔اسکولوں کے بچے جو چند دنوں میں کھل جائیں گے انتظامیہ سیکورٹی مزید سخت کرے اور بچوں کو والدین کے حوالے
کرے۔اب آپ اپنے آپ کو بچائیں پالیسی پر عمل کرنا ہو گا۔بعید از قیاس نہیں کہ ملک دشمنوں نے جس طرح لڑکیوں کے اسکولوں پر حملے کئے تھے اسی طرح اب وہ انارکی پھیلا کر پاکستان کو مزید کمزور کرنا چاہتے ہیں۔جب اس قسم کی صورت حال ہو تو لوگوں کو چوکنا ہو نا پڑے گا ہمارے ہاں انتظامات تو کر لئے جاتے ہیں مگر وہ ناکافی ہوتے ہیں۔پرائیویٹ سیکورٹی گارڈز کی حالت دیکھ کر لوگ ان پر ترس کھاکر پیسے دیتے نظر آتے ہیں۔اس قسم کے انتظامات کیا معنی رکھتے ہیں؟
بچے کسی بھی قوم کا سرمایہ ہوتے ہیں اس سرمائے کو ڈوبتا دیکھ کر یقین کیجئے دل ڈوبتا ہے

اپنا تبصرہ بھیجیں