ماہ ِمحرم اسلام کی سربلندی کے لئے عظیم قربانیوں کی یاد دلاتا ہے جبکہ ماہ ِ اگست میں بھی اس کرہ عرض پر اسلام کے نام پر لی گئی دوسری سلطنت خداداد پاکستان کے حصول اور بقاء و سلامتی کی خاطر بے مثال قربانیوں کی داستانیں دلوں کو گرما دینے والی ہیں۔ایک طرف چاہے ہم اگست میں آزادی کا جشن جتنے بھی جوش و خروش،جذبہ و جنون سے منا لیں مگر اِس آزادی کے حصول میں دی گئی لاکھوں قربانیوں کو کبھی بھی بھولایانہیں جاسکتا، ہجرت کی داستانیں اتنی دلخراش اور طویل ہیں کہ انہیں قرطاس و قلم کی زینت بنانا اِس ناچیز کیلئے مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے، جبکہ دوسری طرف اسی ماہ میں تحفظِ پاکستان کے خاطر نچھاور ہونے والیں محبانِ وطن کی جانیں یہ باور کراتیں ہیں کہ کوئی مائی کا لال اس وطن عزیز پر میلی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتا۔
چلیئے تاریخ کے اوراق پلٹتے ہیں۔۔۰۲ اگست ۱۷۹۱ جب نو عمر راشد منہاس پائلٹ آفیسر بننے کے بعد تیسری تنہا پرواز کے لئے نکلے تو غدار انسٹرکٹر سیفٹی فلائٹ آفیسر مطیع الرحمان نے ریڈ سگنل دے کر اس ارادے سے کاک پٹ میں داخل ہو گئے کہ طیارے کا رخ بھارت کی جانب موڑا جائیگا۔مگر راشد منہاس نے بروقت ماری پوڑ کنٹرول ٹاور سے رابطہ کر کے مذاحمت کی ہدایت حاصل کی۔پانچ منٹ کی کشمکش کے بعد راشد منہاس نے طیارے کا رخ زمین کی جانب کر کے شہادت کو گلے لگا کر دشمن کی سازش کو ناکام بنا دیا۔ انہیں نشانِ حیدر سے نوازا گیا۔راشد منہاس نے اپنی شہادت سے چند روز قبل ہی اپنی ہمشیرہ سے اس تمنا کا اظہار کیا تھا کہ ”میں جنگی قیدی بننے سے مرجانا بہتر سمجھتا ہوں“۔ انکی مرقد پر لکھا ہے۔
پرواز ہے دونوں کی اسی ایک فضا میں۔۔مومن کا نشاں اور منافق کا نشاں اور
راشد کی شہادت پہ ہے اقبال کا یہ قول۔۔کرگس کا جہاں اور ہے شاہین کا جہاں اور
۷۱اگست ۸۸۹۱ کوجنرل ضیاء الحق،آئی ایس آئی کی پوری ٹیم اوراعلی امریکی عہداروں سمیت ایک طیارہ حادثے میں شہید ہو گئے۔تادم مرگ وہ سپاہ سالار اور صدارت کے عہدوں پر فائز رہے۔دوسری جنگ عظیم کے علاوہ،اردن کا سیاہ ستمبر اور پاک بھارت ۵۶۹۱کی جنگ میں بھی شامل رہے۔انکی حکمت عملی سے سوویت یونین کو منہ کی کھانی پڑی اورگرم پانی تک رسائی کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا۔انکے دور حکومت میں اسلامی قوانین کے حوالے سے کئی اہم پیش رفت ہوئیں۔بغیر کسی بیرونی دباؤ کے ایٹمی پروگرام کا تسلسل جاری ہے۔کشمیرمیں علیحدگی پسندی کی تحریک عروج پر رہیں جبکہ ہندوستان حکومت سکھوں کی علیحدہ ریاست کی تحریک کے آگے گٹنے ٹیکنے کے قریب پہنچ چکی تھی۔”مرد مومن۔مرد حق“ کا لقب انکے سر کا تاج بنا۔انکی پراسرار موت ابھی تاریخ دانوں کے لئے ایک معمہ ہے۔فیصل مسجد کے باہر احاطے میں آسودہ خاک ہیں جہاں انکے کتبے پر نقش ہے کہ۔۔۔
یا خدا مدد فرما کہ عاجز یعقوب۔۔اپنے دل کے ارماں پورے کر سکے
یہ عالم کل چمن کے پھولوں کو۔۔ضیاء الحق شہید کی مرقدپہ لا کے دھر سکے
اختر عبدالرحمن بھی اُسی حادثے میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے،انہیں ایک پالیسی میکراور دانشور جنرل کی حثیت سے جانا گیا، ؎
اُن شہیدوں کی ویت اہل کلیسا سے نہ مانگ۔۔قدر و قیمت میں ہے خوں جن کا حرم سے بڑھ کر
گوریلا وار کے تمام ہنر سے خوب واقف تھے۔قیام پاکستان کے وقت سرحد پار سے آنے والے مہاجرین کی مدد کرنے کے حوالے سے انکا نام بہت نمایاں ہے۔۵۶۹۱ اور ۱۷۹۱ کی جنگ میں پیش پیش رہے،افغان جنگ میں روس کو شکست دینے میں انکی کامیاب منصوبہ بندی شامل تھی۔ ان کی دفاعی خدمات کو ہر دفاعی سطح پر سراہا جاتا ہے انہیں ستارہ بسالت، ہلال امتیاز اور نشان امتیاز سے نواز گیا۔انہیں یہ اعزاز حاصل ہے کہ ان پر کبھی کسی تجزیہ نگار، تاریخ دان نے تنقیدنہیں کی۔
لیفٹیننٹ جنرل (ر)حمید گل۵۱اگست۵۱۰۲ کو مری میں دماغ کی شریان پھٹ جانے سے انتقال کر گئے۔آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل بھی رہے انکا شمار تادم مرگ بڑے متحرک، بااثر اور معروف پاکستانی فوجی آفسران میں ہوتا ہے۔پاک بھارت جنگ ۵۶۹۱،۱۷۹کے علاوہ بیٹل آف جلال آباد، آپریشن راخشک اور سویت یونین کے خلاف افغان جہاد میں شامل رہے۔انہیں انکی خدمات کے اعتراف میں ستارہ بسالت اور ہلال امتیاز سے نوازا گیا۔دشمنان وطن اور اسلام دشمن سازشوں کو بے نقاب کرنے میں کبھی بھی نہیں ہچکچاتے تھے۔سول ہو یا عسکری ہر اُس شخص کو تنقید کا نشانہ بناتے جن کے اقدامات اور بیانات انکے نقطہ نظر میں پاکستان کے حق نمیں ہ ہوتے۔ٹی وی ٹاک شو پر انکی دفاعی تجزیہ نگاری کو بڑی اہمیت حاصل رہی ہے۔
کرنل (ر) شجاع خانزادہ ۶۱ اگست ۵۱۰۲ کوڈی ایس پی حضر و سید شوکت گیلانی سمیت انیس افراد کو خود کش حملے میں شہید کر دیا گیا،شجاع پیرزادہ ۳۸۹۱ میں سیاچن گلیشیرز سر کرنے والوں میں شامل تھے۔ گراں قدر خدمات کے اعتراف میں ۸۸۹۱ میں تمغہ بسالت حاصل کیا۔انہیں کے لئے شاعر نے لکھا ہے کہ
اپنی جاں نذر کروں اپنی وفا پیش کروں۔۔۔قوم کے مرد مجاہد تجھے کیا پیش کروں
انکا خاندان مثبت سیاست میں بہت فعال رہا ہے۔تین بار پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہو ئے۔وزیر ماحولیات کے بعد وزیر داخلہ کا قلمدان سنبھالتے ہی انہوں نے امن و امان کے حصول کے لئے دہشتگردوں کے طرف سے ملنے والی دھمکیوں کی پروا کئے بغیر انکے خلاف کھلے عام جنگ لڑی۔نیشنل ایکشن پلان کے لئے انہوں نے بڑی جرت مندی اور بہادری سے فرنٹ لائن پر اپنا کردار ادا کیا بھارتی ایجنسی را کی پاکستان میں کرکٹ رکوانے کے لئے کی جانے والی سازشوں کو بھی بے نقاب کیا۔۔
پاکستان کی امن و سلامتی کے لئے دہشت گردوں کے خلاف جنگ فیصلہ کن مراحلے میں داخل ہو چکی ہے مگر اس جنگ میں بھی ہم کئی ہزار جانوں کا نذرانہ پیش کر چکے ہیں۔چند روز قبل ۸اگست کو کوئٹہ میں قیامت خیز منظر ابھی بھی آنکھوں سے اوجھل ہونے کو نہیں، ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بننے والے صدر بلوچستان بار بلال انور کاسی کی میت سول ہسپتان پہنچنے پر بڑی تعداد میں انکے ساتھیوں کی موجودگی کے دوران خودکش دھماکہ میں متعدد وکلا سمیت ۰۷ سے زائد وکلا شہید سمیت ۵۲۱ سے زائد زخمی ہوگئے۔ ۸ اگست ۳۱۰۲ میں بھی ایسی ہی نوعیت کا کی تخریب کاری کی گئی جب محیب اللہ کو ٹارگٹ کلنگ میں شہید کر دیا گیا اور بعدازاں انہیں کی نمازِ جنازہ پر خودکش دھماکہ کر کے ۰۳ سے زائد پولیس اہلکاروں اور افسران کو شہید کر دیا گیا تھا۔ا۱ا گست ۶۱۰۲ کو کوئٹہ شہر زرغون روڈ پرسریاب فلائی اوور کے قریب بھی دھماکہ کیا گیا۔۔۔جبکہ ویکیپیڈیا کے مطابق اگر گزشتہ چند سال کے ماہِ اگست میں قربانیوں کا مختصر ترین جائزہ لیں تو ۵۱ اگست ۴۱۰۲ میں کوئٹہ ایئر بیس پے حملہ کیا گیا۔۲۱ اگست ۲۱۰۲ میں ریموٹ کنٹرولڈ بم حملے میں تین سپاہیوں نے شہادت حاصل کی۔دو اگست ۸۰۰۲ میں منگورہ سوات میں کئی پولیس اہلکار ریمورٹ کنٹرولڈ بم کی زد میں آئے۔ نو اگست ۸۰۰۲ میں ملیٹنٹ حملے میں آٹھ پولیس اہلکار شہید ہوئے۔بارہ اگست ۸۰۰۲ کو بنیر میں پاکستانی ایئر فورس بس کو ٹارگٹ کیا گیا۔انیس اگست ۸۰۰۲ میں خودکش حملے میں ڈیرہ اسماعیل خان میں بتیس پولیس اہلکار شہید ہوئے۔اکیس اگست ۸۰۰۲کو خودکش حملے میں پاکستان آرڈیننس فیکڑی واہ کینٹ کے باہر ستر افراد شہید ہوئے۔۳۲ اگست ۸۰۰۲ کو خودکش حملے میں بیس افراد سوات میں شہید ہوئے۔۵۲ اگست ۸۰۰۲ کو راکٹ حملے میں سوات ہی میں دس افراد شہید ہوئے۔۶۲ اگست ۸۰۰۲ میں اسلام آباد کے علاقے ماڈل ٹاؤن کے ایک ریسٹورنٹ کے باہر بم پھٹنے سے ۸ افراد مارے گئے۔۶۲ اگست۷۰۰۲ میں شانگلہ ڈسٹرکٹ کے مچار ایریا میں خودکش حملے میں چار پولیس اہلکار مارے گئے۔۴اگست ۷۰۰۲ میں پارہ چنا قرم ایجنسی کے ایک بس اسٹیشن پر خودکش حملے میں نو افراد مارے گئے۔۷۱، ۸۱، ۱۲، ۳۲، ۷۲، ۸۲،۹۲، ۰۳، ۱۳ اگست ۲۱۰۲ کو بھی کئی حملوں میں پاکستانیوں نے جام شہادت نوش کی۔۶۲ اگست۶۰۰۲ میں امر کے ایک متنازعہ حکمت عملی کے تحت اکبر بگٹی کو مار کر بلوچستان کے حالات کو مزید کشیدہ کر دیاگیا۔۸اگست ۴۰۰۲ میں ایک بم حملے میں جامعہ بنوریہ مدرسہ کراچی میں آٹھ افراد ہلاک ہو گئے۔۵اور۹ اگست ۲۰۰۲ میں ہونے والے بم حملے میں متعدد افراد ہلاک ہوئے جبکہ ان تمام حملوں میں زخمیوں کی تعداد شہدا سے کہیں زیادہ ہے اور ان قربانیوں کا سلسلہ بھی بہت طویل ہے۔
قربانیوں پے قربانیوں کے باوجود ہماری یک جہتی دشمنانِ وطن کے منہ پر کسی زور دار طمانچے سے کم نہیں۔ پیغام ہے کہ ہم اپنے وطن پر جاں نثار ہوتے رہیں گے مگر ہماری ایمانی قوت ہمیں کبھی منتشر اور بارود سے خوف زدہ نہیں ہو نے دے گی،انشاء اللہ تعالی۔ شہداء کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے ہم عہد کرتے ہیں کہ انکے خون کا ایک قطرہ بھی رائیگاں نہیں جانے دیں گے۔پاک فوج کے شانہ بشانہ وطن کی بقاء اور قوم کی سلامتی کے لئے آج ہر محب وطن پاکستانی کا دل تن من دھن قربان کر دینے کے پختہ عزم کیساتھ کہہ رہا ہے کہ۔۔
میرے محبوب وطن تجھ پہ اگر جاں ہو نثار۔۔میں یہ سمجھوں گا ٹھکانے لگا سرمایہ تن