قانون نافذ کرنے والے ادارے اور ان کا رویہ : ڈاکٹر ایم آئی درانی

image

چند دن قبل کراچی میں بارش برسی تو میں نے سوچا کہ قبل اس کے کہ سڑکیں تالاب کا منظر پیش کریں مجھے گھر نکل جانا چاھیئے اس خیال کے آتے ہی میں کلینک سے اٹھ کر گھر جانے نکلا کلفٹن بوٹ بیسن سے ہوتا ہوا میریٹ ہوٹل تک پہنچا تو ٹریفک کے بے پناہ دباو کی وجہ سے ٹریفک مکمل طور پر بلاک ہو چکی تھی ایک ہی جگہہ تقریبا پون گھنٹہ کھڑا رہنے کے بعد فیصلہ کیا کہ شاہراہ فیصل کی جانب سے نکلنا چاھیئے میریٹ ہوٹل کے کٹ سے گاڑی نکال کر شاہراہ فیصل کی جانب چل پڑا پانی اور ٹریفک کے مشکلات کو عبور کرتا آرمی کے اس حدود تک پہنچا جو شاہراہ فیصل پر موجود ہیں یہاں بھی تقریبا وہی صورتحال تھی اب یہاں وہ واقعہ ہوا پیش آیاجو میں آپ کو بتانا چھا رہا ہوں یہاں ٹریفک کے دباو اور پانی کی وجہ سے کچھ موٹر سائیکل سوار آرمی کی حدود میں فٹ ہاتھ پر اپنی موٹر سائیکلیں چڑھا بیٹھے ایک آرمی جیپ میں سوار آرمی کے جوانوں نے ان کی خاطر مدارت شروع کر دی کہ دیکھ کر تکلیف کا احساس ہوا آرمی جوانوں کو بجائے تشدد کے پیار محبت سے ان موٹر سائیکل سواروں کو اس فٹ ہاتھ کو استعمال کرنے سے روکنا چاھیئے تھا اور یقینا وہ اس فٹ پاتھ کو استعمال کرنے سے روکنے کی کوشس کرتے تو کوئی وجہ نہیں تھی کہ کوئی موٹر سائیکل سوار اس فٹ پاتھ پر چڑھتااگر کوئی سیکورٹی وجوھات تھی لیکن مار پیٹ سے آپ دل اور محبت نہیں نفرتیں خرید سکتے ہیں اور بحثیت پاکستانی قوم ہم آپ سے پیار کرتے ہیں اور پاکستان میں ہم آرمی کو نجات دہندہ سمجھتے ہیں لیکن اس طرح کرنے سے دل میں نفرت پروان چھڑتی ہے
کچھ یہی صورتحال رینجرز کے ساتھ بھی ہے ہمیں یہ تسلیم کرنے میں ذرا برابر بھی شک نہیں کہ کراچی میں امن و سکون ہمارے رینجرز سمیت پولیس کے شہدا کے لہو کا نذرانہ ہے آج ہم کراچی کی آزاد فضاہوں میں بے خوف گھوم رہے ہیں یہ آپ ہی کی کاوشوں کا نتیجہ ہے لیکن یہاں ایک سوال بھی ہے کہ کیا اردو اسپیکنگ کے سب کے سب افراد ہی خطا وار ہیں کیا MQMکے علاوہ یہاں یہاں سب فرشتے ہیں یقینا ایسا نہیں کراچی میں اگر MQM کے غنڈہ عناصر موجود ہیں تو دوسری پارٹیوں کے غنڈہ عناصر کے بارے میں کیا خیال ہے یہاں ہر پارٹی کے پاس بے پناہ اسلعہ موجود ہے ہم مطالبہ کرتے ہیں غنڈہ عناصر کسی بھی پارٹی کا رکن کیوں نہ ہو اس کے خلاف سخت کاروائی کی جائے لیکن ایک قوم ایک زبان کے خلاف کاروائیاں مستقبل میں مسائل کا سبب بنتی ہیں اور نفرت پیدا کرنے والے عناصر ان سے اپنے مفادات کے لیئے فائدہ اٹھاتے ہیں آئے دن رینجرز اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ہاتھوں ماروائے قانون ہلاکتوں کی تصاویر اور خبریں کوئی اچھا تاثر پیدا نہیں کر تیں
PIDC
چوک پر ابھی کچھ عرصہ قبل ایک منظر نے مجھے جنجھوڑ کر رکھ دیا جب ایک VIP مومنٹ کے سبب سڑک کو بلاک کیا گیا تھا میں بھی اس ہجوم میں پھنسا VIP کے گزرنے کا انتظار کر رہا تھا کافی دیر ہو چکی تھی اور VIP مسافر کا دور دور تک پتہ نہیں چل رہا تھا کہ ایسے میں اس ہجوم میں سے چند نوجوان آگے بڑے اور VIPکی شان میں گستاخیاں کرنے لگے ان کی دیکھا دیکھی کچھ بزرگ افراد بھی آگے بڑھ کر اس نعرے بازی میں شامل ہوئے اسی اثناء میں VIP مسافر کی گاڑیوں کے ہوٹرز بجنے شروع ہو گئے اور وہ نکل لیئے اب پولیس نے ان نوجوانوں کو پکڑنا چاھا لیکن وہ اپنی جان بچا کر نکل گئے لیکن ایک بزرگ پولیس کے ہھتے چڑھ گئے ایک ٹریفک اہلکار نے میرے سامنے اپنے بازو پر سرخ رنگ کی پٹی کو پھاڑ ڈالا اور اس بزرگ کو ماں بہن کی ننگی گالیاں دیتے ہوئے گریبان سے پکڑ کر PIDC چوکی میں لے گئے اور پھر جو ہوتا ہے آپ سب جانتے ہیں اس بزرگ نے معافی مانگ کر پولیس کے ہاتھ گرم کیئے اور اپنی جان چڑھائی
فری میڈیکل کیمپ سے واپسی اور لانڈھی قائد آباد مرغی خانہ اسٹاپ
ہمارے چیف ایڈیٹر جناب ظفر علی مھر اور میں میری مسسز ظفر علی مھر کی گاڑی میں تھے قائد آباد مرغی خانہ کے قریب بے پناہ گڑھوں کے سبب ٹریفک بہت آہستہ آہستہ چل رہی تھی اور ان گڑھوں میں پانی بھی خوب بھرا ہوا تھا رات کے تقریبا 35۔9 کا وقت تھا ہم دوسری گاڑیوں پر نظر رکھے ہوئے گزر رہے تھے کہ اچانک گاڑی کی پچھلی کھڑکی پر زور دار آواز سے ہاتھ مارنے کی آواز سنائی دی اور انتہائی بدتمیزانہ انداز میں جلد گاڑی آگے بڑھانے کی ھدایت دی گئی پیچھے مڑ کر دیکھا تو ایک پولیس والا انتہائی غلیظ زبان میں یہی حرکت دوسری گاڑیوں والوں سے بھی کرتا نظر آیا ہم نے ایک لمعہ کو پیچھے کی جانب دیکھا تو کوئی VIP صاحب محو سفر تھے اور پولیس اپنی روایتی زبان میں سڑک کو کھولنے کی ھدایت دے رہے تھے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس عظیم الشان سڑک پر پانی میں جہاں گہرے گھڑے موجود ہوں کس طرح تیزی کے ساتھ آگے بڑھا جا سکتا ہے لیکن شاہی سواری کے محافظوں کا حکم تھا کہ سڑک سے ایک طرف ہو جاو اور شاہی سواری کو رستہ دو ہم نے کوشش کی کہ کسی طرح اس شاہی سواری میں سوار اس بادشاہ کو روکیں اور اس سے اس رویہ کی شکایت کریں لیکن شاید وہ عوام سے خوفزدہ تھے کہ کہیں سے کوئی مصیبت نازل نہ ہو جائے وہ انتہائی تیز رفتاری سے نکل لیئے
یہی وہ سلوک ہے جو دلوں میں نفرت اور ناپسندیدگی کو جنم دیتی ہے اس سے محبتوں کے شگوفے نہیں پھوٹتے بلکہ عوام ان کے بارے میں جو زبان استعمال کرتی ہے وہ اگر سن لیں تو
ضرورت اس بات کی ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنے رویوں کو درست کریں عوام میں اپنے خلاف نفرت نہیں محبت پیدا کریں کرخت لہجوں سے رعب نہیں بلکہ نفرت پیدا ہوتی ہے
ہم آپ سے محبت کرتے ہیں آپ ہمارے پاسبان ہیں ہم اگر سڑکوں پر پرامن ہیں ہم اگر اپنے گھروں میں پرسکون ہیں اور تحفظ محسوس کرتے ہیں تو یہ صرف اور صرف آپ کی وجہ سے ہے آپ کی قربانیوں کی وجہ سے ہے لیکن آپ بھی ہم سے محبت کریں اپنے درشت لہجوں کو قابو میں لائیں عوام میں اپنا امیج بہتر بنائیں اپنے آپ کو عوام کا محفظ اور دوست بنائیں نہ کہ صرف اپنے رویوں اور لہجوں کے سبب نفرتوں کو جنم دیں

اپنا تبصرہ بھیجیں