۔ڈاکٹر ایم آئی درانی ۔
کو ہم نے ٹھٹھہ کے حاجی ھیجیب گاوں میں فری میڈیکل کیمپ کا انعقاد کیا
اس کیمپ میں 1568 مریضوں کا نہ صرف فری طبی معائینہ کیا گیا بلکہ ادویات اور فری الٹراساونڈ بھی کیئے گئے لیکن اس کیمپ میں چند باتیں بڑی شدت سے محسوس کی گئیں جو ہم نہ صرف اپنی ناظرین و قارین سمیت حکومت سندھ کے بھی گوش گزار کرنا چاھیں گے کہ شاید اگر اتر جائے دل میں تیری میری بات
1۔امراض اطفال ۔
چھوٹے چھوٹے بچوں میں گردوں کے امراض خصوصا پتھری جبکہ بعض کم عمر بچے ایسے بھی سامنے آئے جن کی پتھری کے سبب آپریشن ہو چکے تھے لیکن اب دوبارہ پتھری بن رہی تھی غالبا اس کا سبب وہ ناقص پانی ہے جو وہ ہی رہے ہیں جس میں جانور گائے بھینسیں بھی نہاتی ہیں اور یہی پانی یہاں کے مکین اپنے پینے کے لیئے استمعال کرتے ہیں جو کسی بھی طرح محفوظ نہیں کہلائی جا سکتی جس کے سبب یہاں گردوں ہیپاٹیٹس ٹی بی اور پیٹ کے امراض پھیل رہے ہیں
2۔خون و کیلشیم کی کمی حفظان صحت کے اصولوں سے نابلد
بچوں میں خون کی بے انتہا کمی۔کیلشیم کی کمی ہر 2 بچوں میں سے ایک بچہ پیلا زرد یا تو اس میں خون کی کمی یا یرقان خوراک کی کمی بہتر نشونما کا فقدان غربت کے سبب مناسب رہائش اور حفظان صحت اور صاف پانی کی عدم دستیابی اور تعلیم کی کمی جہاں تن ڈھانپنے کے لیئے کپڑے میسر نہ ہوں ان کے لیئے علاج اور وہ بھی 30 کلومیٹر دور ممکن ہی نہیں کیونکہ گاوں میں ٹرانسپورٹ کا نظام اور اس جدید دور میں بھی کہیں دکھائی نہ دیا
3۔ امراض خواتین حوا کی بیٹی کی بدترین حالت۔خواتین اور بچیوں میں گٹھکہ چھالیہ کا کثرت استعمال
ایک ایسے گاوں میں جہاں ایک بہتر زندگی کی سہولیات ناپید ہوں لیکن ایک بات بہت کثرت سے دیکھی گئی کہ جنھیں مناسب خوراک مناسب طبی سہولیات دستیاب نہیں لیکن گٹھکہ چھالیہ بہت وافر مقدار میں دستیاب تھیں یہاں تقریبا ہر خاتون اس سے شوق فرما رہیں تھیں جس کے سبب منہ کے چھالے گردوں کے امراض خون کی کمی کیلشیم کی کمی جوڑوں کے امراض وزن کی کمی بڑی خصوصیت سے دیکھی گئی مناسب کپڑے پیروں میں مناسب چپل بھی دستیاب نہیں تھیں لیکن چھالیہ گٹھکہ ہر ایک کے منہ میں حالانکہ حکومت بڑے بلند بانگ دعوے کرتی ہے کہ اس نے گھٹکہ چھالیہ پر پابندی عائد کی ہوئی ہے لیکن اس کی یہاں کھلم کھلا دستایابی حکومتی دعووں کی نفی کرتی رہی مذکورہ گاوں میں کیمپ کی جانب جاتے ہوئے ہم نے دیکھا کہ یہ خواتین سروں پر گھاس پوس کا گھٹرا اٹھائے ہوئے میلوں کا سفر پیدل کرتے ہوئے نظر آئیں جہاں نہ مناسب سڑکیں جا بجہ کانٹے دار جھاڑیوں کے سبب ان کے پیر بھی کانٹوں سے زخمی ہوتے رہے ہونگے بحثیت ایک ڈاکٹر کے میں یہ سوال کرنا چاہوں گا کہ یہ خواتین مرد و زن اور بچے ٹیٹنس سے بیمار نہیں پڑتے ہوں گے نجانے کتنی خواتین مرد و زن اور بچے ٹیٹنس جیسے مہلک مرض کے باعث موت کا شکار ہوتے ہونگے اور خصوصا گٹھکہ چھالیہ کے سبب کتنی خواتین مردوں بچوں سمیت منہ اور گردوں کے امراض میں مبتلا ہو رہی ہونگی اور حکومت اور مختلف سماجی تنظیمیں ان امراض سے واقع ہونے والی اموات سے بے خبر ہی ہونگی
4۔ پانی
ہمیں اس گاوں کے افراد نے پانی جیسی بنیادی انسانی ضرورت کی عدم دستیابی کے بارے میں بتایا کہ کراچی کو ملنے والا پینے کا پانی قریب سے گزر رہا ہے لیکن چراغ تلے اندھیرہ کے مطابق جیسے سوئی میں سے نکلنے والے سوئی گیس بلوچستان والوں کے لیئے شجر ممنوع بنا دی گئی اسی طرح اس گاوں اور اس کے قرب و جوار کے لوگوں کو اس سے مستفید ہونے کی اجازت نہیں دی جا رہی پانی بنیادی انسانی ضرورت ہے اور یہاں کی خواتین سروں پر مٹکے رکھے گندے پانی کے حصول کے لیئے میلوں کو سفر طے کرتی ہیں ضرورت اس امر کی کہ انھیں بھی پانی جیسی بنیادی انسانی ضرورت جو ان کے قریب سے گزر رہی ہے اس علاقہ کو مستفید ہونے سے نہ روکا جائے بلکہ مطلوبہ انسانی ضروریات ان تک بہم پنچانے کی کوششیں کی جائیں ۔
5۔طبی سہولیات اور ٹرانسپورٹ کا فقدان ۔
ہم جب اس کیمپ کے لیئے جا رہے تھے تو رستے میں سول اسپتال کا دیدار بھی دور سے کیا اور یہ سول اسپتال اس گاوں سےغالبا 30 کلومیٹر دور موجود ہے اگر خدانخواستہ یہاں کوئی ایمرجنسی ہو جاتی ہے اور پہاڑی علاقہ ہونے کے سبب اگر کسی کو سانپ کاٹ جاتا ہے تو یہاں سے اسے سول اسپتال تک لے جانا ایک جوئے شیر لانے کا باعث بن سکتا ہے وہ اسپتال پہنچنے سے قبل ہی راہی عدم ہو سکتا ہے کیونکہ علاقہ میں نہ تو بیسک ہیلتھ سینٹر اور نہ ہی ٹرانسپورٹ کا کوئی نظام موجود ہے ایسے میں کوئی بھی ایمرجنسی جان لیوہ ثابت ہو سکتی ہے یا خدانخواستہ کسی خاتون کو زچگی کے سلسلے میں کسی مشکل کا سامنا کرنا پڑ جائے تو میرا خیال نہیں کہ وہ اسپتال تک پہنچ سکے اسے صرف خدا تعالی ہی بچا سکتا ہے اسپتال تک بروقت رسائی اس کے لیئے ممکن ہی نہیں
6۔تعلیمی ادارے۔
فری میڈیکل کیمپ کی جانب سفر کرتے ہوئے ہمیں سرکاری اسکولوں کے خوبصورت عمارتوں کے نظارے کرائے گئے جو سب کے سب بند تھے جو یا تو کسی وڈیرے کے اوطاقوں میں تبدیل ہو چکے تھے یا کسی اور مصرف میں آ چکے تھے اور سندھ میں حکومتی سطع پر حکومتی سنجیدگی کا حال اپنی زبان سے سنا رہے تھے خوبصورت درس گائیں بند ملیں
یہاں میں اپنے ایک ساتھی ڈاکٹر افضل مغل کے ساتھ پیش آنے والے ایک واقعہ کا ذکر کرنا چاھوں گا کہ ڈاکٹر صاحب مریضوں کو دیکھتے تھک کر کچھ دیر آرام کرنے عمارت سے باہر آئے جہاں کچھ بچے ایک چارپائی پر بیٹھے تھے ڈاکٹر صاحب ان کے درمیاں بیٹھ گئے ڈاکٹر صاحب کے سینے پر 14 اگست جشن آزادی کے سلسلے میں پاکستان کا بیج لگا ہوا تھا بچوں نے اس کے بارے میں پوچھا تو سوال جواب کے دوران ڈاکٹر مغل صاحب بے حد افسردہ ہوئے کہ انھیں نہ پاکستان کے بارے میں کوئی علم تھا اور نہ ہی سندھ کے وزیر اعلی یا کسی اہم فرد کوجانتے تھے ہماری میڈیا جو سارہ دن ہمیں انڈین اداکاروں کے تاریخ پیدائش سالگرہ اور ان کی نئی آنے والی فلموں کے بارے میں بتانا اپنا فرض سمجھتا ہے وہ پاکستان اور پاکستانیت کے بارے میں ہمارے بچوں کو کیا بتلا رہا ہے اور پاکستان سے محبت کا کتنا کردار ادا کر رہا ہے وہ آپ بھی جانتے ہیں
سوال آخر
دوستو
آج میں بڑے دکھی دل سے آپ سمیت تمام درد دل رکھنے والے دوستوں سے اور مقامی ڈاکٹرز سے تعلیم یافتہ افراد سے ایک درخواست کرنے لگا ہوں کہ بحیثیت ایک ڈاکٹر اور جنرلسٹ کے اس کیمپ میں جو کچھ میں نے دیکھا اور محسوس کیا اس نے مجھے بہت تکلیف پہنچایا کہ میرے یہ بچے میری یہ بیٹیاں میری یہ مائیں میرے یہ بزرگ میرے ملک اور خصوصا سندھ دیس کے یہ بھائی جو محبت کرنے والے میٹھی زبان والے شاہ عبدالطیف بٹھائی کی سروں کی دھرتی کے افراد کن مسائل میں گرفتار ہیں اور ہم کراچی والے پاکستان والے بلکل بے خبر ہیں
ہم حکومت کا انتظار کیوں کریں جو کام ہم اپنی بساط بھر کر سکتے ہیں اس کی ابتداء تو کر لیں
تجاویز۔
1۔صحت اور بیسک ہیلتھ سینٹر کا قیام
مقامی ڈاکٹرز اگر ہمارے ساتھ تعاون کریں
گل حسن جاکھرو ایاز ویرایو جیسے صحافی آگے بڑھیں ہمیں جگہہ دیں ہم یہاں فری کلینک کا آغاز کر سکتے ہیں بشرطیکہ مقامی ڈاکٹرز ہمارے ساتھ شامل ہوں اور یہاں مفت خدمات فراہم کرنے پر تیار ہوں اس کے لیئے ہم 10 روپے فیس بھی رکھ سکتے ہیں جو ڈاکٹر اور کلینک کے اخراجات کو پورا کر سکے اس سلسلے میں اپنے ہم پیشہ ڈاکٹرز سے درخواست کرتا ہوں کہ اپنے بہت قیمتی وقت میں سے چند گھنٹے ان غریب لوگوں کے لیئے وقف کر دیں یقین رکھیں مولا اس کا بہترین بدل آپ کو عطا فرمائے گا
2۔تعلیم کا فروغ ایک بہتر معاشرے کا قیام کا ذریعہ بن سکتی ہے ۔
بند اسکولوں کو مقامی صحافیوں اور تعلیم یافتہ افراد کے ساتھ ملکر کھولنے کا بندوبست کیا جا سکتا ہے وڈیروں کے اوطاق سے اسے بہترین اسکولوں میں تبدیل کیا جا سکتا ہے مخیئر حضرات کے تعاون سے اسکول کے بچوں کے لیئے ٹرانسپورٹ کا انتظام کیا جا سکتا ہے
3۔پبلک ٹرانسپورٹ کا قیام
اس علاقہ میں چنگچی رکشوں کے ذریعہ ٹرانسپورٹ کا بندوبست ہو سکتا ہے جو اس گاوں کو شہر سے ملانے کا سبب بن سکتا ہے اور مقامی بے روزگار افراد کے لیئے ملازمتوں کا زریعہ بھی
4۔ایمبولینس سینٹرز کا قیام ۔
ایدھی چیپھا اور امن ایمبولینس کے ذریعہ یہاں ایمرجنسی کے لیئے مناسب سہولیات بہم پہنچائی جا سکتی ہیں
بس بس بس صرف ایک قدم اٹھانے کی ضرورت ہے
ہم گل حسن ایاز ورایو اور دیگر صحافیوں اور مخیئر حضرات سے اپیل کرتے ہیں کہ خدارہ یہ ہمارے ہی لوگ ہیں ہمارے ہی بچے ہیں ہماری ہی بہنیں ہیں ہماری ہی بیٹیاں ہیں ہمارے ہی بزرگ ہیں ہمیں انھیں انسان سمجھنا ہو گا ان کے دکھ درد میں کمی کے لیئے آگے بڑھنا ہو گا
مجھے میرے رب پر کامل یقین ہے کہ آپ ان کی مشکلات میں کمی کی کاوشیں کرینگے میرا رب آپ پر اپنی نوازشوں اور رحمتوں کے دروازے کھول دیگا
یہاں میں ان تمام ڈاکٹرز سمیت مقامی صحافیوں کی کاوشوں کو سلام پیش کرنا چاھوں گا انھوں نے ہماری آواز پر لبیک کہتے ہوئے سندھ باسیوں کی مشکلات کو دور کرنے اور علاج کی سہولیات بہم پہنچانے میں بھرپور تعاون کیا اور انشاء اللہ آئیندہ بھی ہم امید کرتے ہیں کہ اسی جذبے سے آپ ہمارے ہمقدم ہونگے