عجیب لوگ ہیں ۔دوا نہیں کھاتے ،پرہیز نہیں کرتے ۔کسی معجزے کے انتظار میں رہتے ہیں۔Waiting for Allah
۔عارف نے یہ کہا تھا: آدمی کا سب سے بڑا حریف وہ خود ہوتا ہے۔ سرکارؐ کا فرمان ہے کہ سیدھی راہ ایک ہوتی ہے اور ٹیڑھی بہت سی!
اصل موضوعات وہ نہیں جو اخبارات کے صفحۂ اول پر چمک رہے ہیں۔ اپنی جگہ وہ کتنے ہی اہم ہوں، اخبار نویسوں کے لیے بنیادی سوال وہی ہے:نواز شریف حکومت بچ نکلے گی یا نہیں؟
اتوار کی شام معلوم تھا کہ عمران خان پیر کی دوپہر کیا اعلان کریں گے۔ قائم علی شاہ اور ان کے جانشین مراد علی شاہ کی کتّھابھی کل سہ پہر معلوم تھی۔ الیکشن کمیشن کے ارکان کا انتخاب؟ جناب پرویز رشید اور سید خورشید شاہ کی جوڑی جس کارِ خیر میں مصروف ہو، کوئی بھی اخبار نویس اسے شک کی نظر سے دیکھے گااور تحقیق کرے گا۔پاکستانی سیاستدانوں میں سے ہر ایک کے بارے میں اکثر اب با آسانی پیش گوئی کی جا سکتی ہے۔ پرویز رشید کی ترجیحات معلوم ہیں۔ جناب خورشید شاہ کے بارے میں ہر روز یہ دیکھنا پڑتا ہے کہ آج وہ کہاں کھڑے ہیں۔ تازہ ترین کلام ان کا یہ ہے کہ کابینہ کی تبدیلیوں کے بارے میں ان سے مشورہ نہیں کیا گیا۔ ادھر کچھ دن سے شاہ صاحب کے تیور یہ ہیں کہ کسی نہ کسی صوبائی محکمے پر چڑھ دوڑتے ہیں۔ لہجہ وہی مساکین کا مگر ع
زباں کچھ اور بوئے پیرہن کچھ اور کہتی ہے
اقبالؔ نے کہا تھا:ابلیس کے فرزند ہیں ارباب سیاست/ اب باقی نہیں میری ضرورت تہہِ افلاک۔ مشکل یہ ہے کہ سیاستدانوں سے مفر بھی نہیں۔ اکیسویں صدی کی اجتماعی زندگی، اجتماعی بصیرت کا اور بھی زیادہ مطالبہ کرتی ہے۔ سیاسی جماعتوں کے بغیر یہ کس طرح ممکن ہے۔ سیاسی پارٹیاں مگر سیاسی پارٹیاں نہیں۔مشکل مگر یہ ہے کہ پاکستان کی فوج بھی تو فوج نہیں، یا یہ کہیے کہ محض فوج نہیں۔ بیورو کریسی بھی بیورو کریسی نہیں رہی۔پریشاں روزگار دانائوں کا ایک انبوہ ہے، جن میں سے اکثر اب ارکانِ اسمبلی کی طرح درباری ہیں ۔ میڈیا کا حال بھی یہی ہے ۔درباری اخبار نویس ان دنوں بڑے ولولے کے ساتھ وعظ و نصیحت کرتے ہیں ۔ 1993ء اور 1999ء میں میاں صاحب کیا اینکروں اور کالم نگاروں کی وجہ سے برطرف ہوئے تھے ؟کیا 1999ء میں 70فیصد پاکستانیوں نے ان کی برطرفی کا خیر مقدم نہ کیا تھا ؟
آوے کا آوا ہی بگڑ گیا۔ سوال یہ ہے کہ سدھار کیسے ہو؟ انگریزی میں اسی کوMillion Dollar Question۔کہا جاتا ہے۔ دھاگے کا سرا ہاتھ نہیں آتا اور پھر سے اقبالؔ یاد آتے ہیں ع
گرہ بھنور کی کھلے تو کیونکر، بھنور ہے تقدیر کا بہانہ
بے مثل اداکار نصیر الدین شاہ کا کہنا ہے کہ فلم کی دنیا خود فریبی کی دنیا ہے۔ فلم ہی کی نہیں، قوانین قدرت سے آدمی خود کو ہم آہنگ نہ کر سکے توہر کہیں ایسا ہی ہوتاہے ۔…فریب نفس! دوسروں کا تو ذکر ہی کیا، 1951ء میں سید ابوالاعلیٰ مودودی کو یقین تھا کہ وہ اور ان کی جماعت اس قدر منظم، مقبول اور مؤثر ہیں کہ وہ لیاقت علی خان کی جگہ لے سکتے ہیں۔جناب عرفان غازی کی تازہ کتاب ”جماعتِ اسلامی کا زوال ‘‘ پڑھیے ۔ چودہ طبق روشن ہو جاتے ہیں ۔ اپنے ساتھیوں سے سیّد صاحب نے مطالبہ کیا تھا کہ مشورے دینے کی بجائے، میدانِ جنگ کے کمانڈر کی طرح ان کی اطاعت کریں۔
احادیث رسول کے سب سے بڑے راوی جناب ابوہریرہؓ سے روایت یہ ہے :رسول اکرم ﷺ سے زیادہ مشورہ کرنے والا ہم نے کوئی نہیں دیکھا۔ یہ نکتہ مولانا فضل الرحمن خوب سمجھتے ہیں؛چنانچہ وہ یہ کہتے ہیں کہ بندگی پہلے ہوتی ہے اور خلافت بعد میں۔یہ الگ بات کہ خود پر نہیں ، اطلاق عمران خان پر کیا اور کہا کہ وہ یہودیوں کے ایجنٹ ہیں۔ حصول خلافت کے لیے وہ اسلام آباد میں امریکی سفیر کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے۔این ڈبلیو پیٹر سن، جس کے بھیجے ہوئے پیغامات کی تشہیر نے بہت سوں کا بھانڈا پھوڑ دیا تھا۔
غزوہ کے بعد رسول اکرمﷺ نے مال غنیمت تقسیم فرمایا توسو اونٹ ایک نو مسلم صحابیؓ کو دئیے ۔ اس نے کہا : یارسول اللہؐ میرا بھائی۔ اسے بھی سو اونٹ عنایت کئے۔ اس پر ایک آدمی آگے بڑھا اور یہ کہا ” محمدؐ انصاف کرو ‘‘ چہرہ مبارکؐ سرخ ہو گیا۔ ارشاد کیا: محمدؐ انصاف نہ کرے گا تو اور کون کرے گا۔ پھر کچھ دیر میں اصحابؓ کو بتایا اس کی اولاد میں سے وہ لوگ پیدا ہوں گے جو اتنی نمازیں پڑھیں گے کہ تم نہیں پڑھتے۔ اتنا قرآن پڑھیں گے کہ تم نہیں پڑھتے مگر قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا۔
کون مسلمان ہے جو قرآن پر ایمان نہیں رکھتا۔ کون مسلمان ہے جو سرکارؐ کو کامل ترین نمونہ عمل تسلیم نہیں کرتا۔ ان کی تعلیمات پر عمل کرنے کے لیے مگر کوئی تیار نہیں۔ کون دانشور‘ انسانیت کے اس اجتماعی تجربے سے نابلد ہے کہ اجتماعی دانش ہی اجتماعی نجات کا دروازہ کھولتی ہے۔ ایسا بھی نہیں کہ مثال ہمارے سامنے موجود نہ ہو۔ اس ملک کا بانی سرتاپا آئین کا پیروکار تھا۔ایک کم از کم قومی اتفاق رائے کا دل و جان سے قائل۔
کپتان کی طرف سے ارکان اسمبلی کے لیے صوابدیدی فنڈز کا اختیار واپس لے کر بلدیاتی اداروں کو سونپنے کا فیصلہ مستحسن ہے ۔مگراتنا وقت کیوں صرف ہوا کہ وزیراعلیٰ پرویز خٹک نے 30 کروڑ روپے حضرت مولانا سمیع الحق کی نذر کرنے کا فیصلہ کیا۔ چلیے عمران خان آخر کار راہ راست پر آ گئے۔ جمہوریت کے دونوں بڑے عشّاق جناب آصف علی زرداری اور وزیر اعظم نواز شریف کو یہ توفیق کب ملے گی؟
”مرید سادہ‘‘ تو رو رو کے ہو گیا تائب
خداکرے کہ ملے شیخ کو بھی یہ توفیق
پیر صاحب کھارا شریف کے سجادہ نشین، طارق پیرزادہ سے پوچھا گیا کہ کیا اولیا اللہ اس زمانے میں بھی ہوتے ہیں ۔ کہا: مریدوں میں بہت ، پیروں میں شاذو نادر۔ جمہوریت کے علمبردار سیاستدانوں کا معاملہ بھی یہی ہے ۔دیگراں را نصیحت ‘ خود میاں فضیحت!
شیخ محشر میں جو پہنچے تو اعمال ندارد
جس مال کے تاجر تھے وہی مال ندارد
قومی زوال میں ہم سب کا حصہ ہے۔ فوجی قیادت کا‘ سیاستدانوں کا‘ علماء کا‘ دانشوروں کا اور اخبار نویسوں کا۔ عقیل کریم ڈھیڈی سے پوچھاگیا کہ بربادی کا ذمہ دار کون ہے؟ کہا: ہم تاجر، لوٹ مار کرتے ہیں ،ٹیکس دیتے نہیں اور روپیہ ملک سے باہر بھیج دیتے ہیں۔ عقیل کریم بھی دوسروں جیسے ایک کاروباری ہیں۔ کچھ لوگ ان کے پیچھے پڑے ہیں تو شاید ایک وجہ یہ ہے کہ کبھی کبھار پورا سچ بول دیتے ہیں ۔وہی آدمی کپتان کے پیچھے پڑا ہے۔ وجوہات فقط وہی نہیں جو سامنے دکھائی دیتی ہیں۔ تین عشرے ہوتے ہیں‘ ایک بار کپتان نے بے دردی سے اس کی پٹائی کی تھی‘ جب اچانک اور بلا اجازت وہ اس کے کمرے میں گھس آیا تھا… یہ کہانی پھر کبھی۔
سندھ میں رینجرز کی توسیع کا مرحلہ آیا تو قائم علی شاہ مان گئے۔ سودے بازی ضرور کی اور اس میں حرج کیا ہے۔ اسی لیے وہ ہٹائے گئے۔ بڑھاپے، بے عملی اور مزاحیہ حرکات کی وجہ سے نہیں ۔ مراد علی شاہ ان سے بھی گئے گزرے ہیں۔ شرجیل میمن اورمکیش چاولہ کے ساتھ دبئی میں وہ پیر پگاڑا سے ملے۔ ان دونوں کی شہرت کیا ہے؟ انور مجید اور ان کے فرزند اے جی مجید سے ان کی دوستی کا راز کیا ہے؟
کابینہ میں تبدیلیوں کا فیصلہ پہلے ہو چکا تھا۔ اس وقت یہ گرد اس لیے اڑائی گئی کہ توجہ اصل موضوع سے ہٹائی جا سکے۔
جمہوریت کی دہائی دیتے خوف زدہ آصف علی زرداری‘ سمندر پار ہیں۔ لگتا ہے کہ ابھی سمندر پار ہی رہیں گے۔ جمہوریت کی دہائی دیتے میاں محمد نواز شریف بھی اتنے ہی خوف زدہ ہیں۔ بس چلے تو وہ بھی لندن جا بسیں اور ریموٹ کنٹرول سے ملک چلایا کریں۔
عجیب لوگ ہیں ۔دوا نہیں کھاتے ،پرہیز نہیں کرتے ۔کسی معجزے کے انتظار میں رہتے ہیںWaiting for Allah ۔عارف نے یہ کہا تھا: آدمی کا سب سے بڑا حریف وہ خود ہوتا ہے۔ سرکارؐ کا فرمان ہے کہ سیدھی راہ ایک ہوتی ہے اور ٹیڑھی بہت سی!
جملہ بحقوق۔۔۔۔۔۔ روزنامہ دنیا