خدا کے لئے اب تو آجاؤ …..تحریر رانا ساجد سہیل

1

اگر پاکستان کے حصول کی جدوجہد دیکھی جائے تو ایک بات تو واضح ہے کہ اس میں بے شک ہزاروں ، لاکھوں لوگوں کی قربانیاں تھی لیکن یہ تحریک جمہوری طریقے سے لڑی گئی، آل انڈیا مسلم لیگ ایک سیاسی تحریک کا نام تھا نہ کہ کسی عسکری تنظیم کا اور قائد اعظم ایک سیاسی لیڈر تھے نہ کہ جنگجو اور اگر اس وقت کے حالات کا آج کے پاکستان کے حالات سے موازنہ کیا جائے تو زمین ، آسمان کا فرق ہے اس وقت ہم انگریز کے غلام تھے بہرحال آج ہم آزادی سے اپنے ملک میں زندگی گزار سکتے ہیں
پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار مارشل لاہ اکتوبر 1958 میں لگا جب صدر سکندر مرزا نے وزیر اعظم پاکستان ملک فیروز خان نون کی حکومت کو بر طرف کرتے ہوئے سربراہ پاک فوج جنرل ایوب خان کو مارشل لاہ ایڈ مینسٹریٹر بنایا جس نے چند دن بعد ہی صدر کو ہٹاتے ہوئے اقتدار پر مکمل قبضہ کر لیا اور خود صدر کا عہدہ اپنے پاس رکھ لیا پھر جب چند سال کے بعد لوگوں کا احتجاج بڑھ گیا تو انھوں نے 25 مارچ 1969 کو استعفی دیتے ہوئے اقتدار جنرل محمد یحیی خان کو منتقل کر دیا لیکن یہ بھی بھٹو کی تحریک اور عوام کے احتجاج کی تاب نہ لاتے ہوئے مجبوراً 20 دسمبر 1971 کو مستعفی ہو گئے لیکن بد قسمتی سے 5 جولائی 1977 کو جنرل ضیاالحق نے ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کو برطرف کر کے اقتدار کو عوام اور منتخب نمائندوں سے جی ایچ کیو منتقل کر دیا یہ شائد پاکستان کے لئے سب سے بھیانک دن تھا، 29 مئی 1988 کو آئین کے آرٹیکل 58/2b کو استعمال کرتے ہوئے وزیر اعظم جونیجو کی حکومت کو گھر چلتے کیا اور ریفرینڈم کے ذریعے خود کو دوبارہ صدر منتخب کروایا لیکن اسی سال طیارہ حادثہ میں انکی موت واقع ہوئی۔
جب 1986 میں بے نظیر بھٹو جلا وطنی سے واپس آئی تو لوگوں کی بہت بڑی تعداد نے انکا پر زور استقبال کیا انھوں نے 1988 کا جنرل الیکشن جیتا اور حکومت سنبھالی لیکن وہ حکومت کی مدت پوری نہ کر سکی کرپشن کے الزامات پر انکی حکومت کا تختہ الٹ دیا پھر 1991 میں نواز شریف پہلی بار وزیر اعظم منتخب ہوئے لیکن یہ بھی 1993 میں فوج کے پریشر پر مستعفی ہو گئے لیکن 1997 میں نواز شریف دوبارہ وزیر اعظم منتخب ہوئے انھوں نے بینظیر اور آصف زرداری پر کرپشن کے مقدمات بنائے اور بے نظیر پھر بیرون ملک جلا وطنی میں چلی گئی لیکن تاریخ کے سیاہ باب نے پاکستان کا پیچھا نہ چھوڑا 12 اکتوبر 1999 کو جنرل مشرف نے نواز شریف کی حکومت کو ہٹاتے ہوئے اقتدار پر قبضہ کر لیا اور اپریل 2000 میں نواز شریف کو طیارہ اغواہ کیس میں عمر قید کی سزا سنا دی گئی لیکن دسمبر 2000 تک نواز شریف اور انکا خاندان سودی شہزادوں کی مدد سے سعودی عرب منتقل ہونے میں کامیاب ہو گئے پھر اپریل 2002 میں مشرف نے بھی ضیا الحق کی طرح خود ساختہ ریفرنڈم کروایا جس میں انھیں آئندہ پانچ سال کے لئے صدر پاکستان منتخب کیا گیا۔ یہ پاکستان کے ساتھ آپ بیتی مختصر سی کہانی ہے جو مارشل لاہ پر مبنی ہے ان ادوار کااگر جائزہ لیا جائے کہ پاکستان اور عوام کے ساتھ کیا ہوا تو آپ کو پتہ چلتا ہے کہ وطن عزیز کو ایٹمی قوت بنانے والے ڈاکٹر عبدالقدیر کے ساتھ جو کچھ ہوا، پھر تاریخ کا وہ سیاہ دن بھی آیا جب پاکستان کے منتخب وزیر اعظم کو پھانسی کے گھاٹ اتار دیا گیا, پاکستان کو دہشت گردی کی دلدل میں دکیل دیا جس میں آج تک ہمارے ہزاروں بے گناہ شہری جان کا نذرانہ دے چکے ہیں ، چیف جسٹس افتخار چوہدری کو بر طرف کرتے ہوئے عدالتوں میں من مرضی کا انصاف قائم کرنے کی کوشش کی ،لال مسجد کا آپریشن اور پھر بے نظیر بھٹو کی شہادت ۔ پھر نومبر 2007 کو نواز شریف خود ساختہ جلا وطنی سے واپس آئے ، فروری 2008 کے الیکشن میں پیپلز پارٹی کی حکومت بنی جس میں نواز شریف بھی اتحادی تھے لیکن اگست 2008 میں مشرف کے مستعفی ہونے کے بعد ججوں کو دوبارہ بحال نہ کرنے پر حکومت سے الگ ہو گئے۔
اگر آپ مارشل لاہ کے ان تاریخی پہلو و ں کو دیکھا جائے تو ایک بات آپ کو واضح ہو جائے گی کہ فوجی آمریت میں کسی مسئلے کا حل نہیں ہے، عدالتوں میں انکی مرضی کا انصاف ملتا ہے ، کوئی ان پر چیک اینڈ بیلینس نہیں رکھ سکتا، کرپشن انتہا درجے کی ہوتی ہے آسان معنوں میں دیکھا جائے تو فوجی آمریت بادشاہت کا دوسرا نام ہے اور انکا دربار جی ایچ کیو ہے جو حکم وہاں سے نکلے گا رعایا کو تسلیم کرنا پڑے گا اور خاص مشیروں ، ہمشیروں کو نوازا جائے گا، اگر پر ویز مشرف کے دور سے نکلے تو حکومت نہایت ہی نا اہل اور کرپٹ لوگوں کے پاس تھی ملکی خزانے پر لوٹ مار بھی کی گئی ایسے تیسے رینگتے ہوئے زرداری صاحب نے پانچ سال پورے کر لئے لیکن اب آپ پیپلز پارٹی کا حال دیکھ لیں ایک وقت میں پنجاب انکا گڑھ ہوتا تھا وہاں آج انکی ٹکٹ لینے والا نہیں ملتا، بھٹو کو پھانسی ، پیپلز پارٹی اور نواز لیگ کی حکومت کو بار بار بر طرف کرنا ، نواز شریف کی جلا وطنی ، بے نظیر کا قتل اور اسطرح کے بہت سے واقعات مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی کی سیاست کو ختم نہ کر سکے اگر پیپلز پارٹی کی سیاست کو ختم کیا تو اسی عوام اور جمہوریت نے جس پر اسکی بنیاد رکھی گئی تھی ۔ اور ایک دن نواز شریف یا کسی بھی کرپٹ سیاسی جماعت کو عوام اور جمہوریت ہی ختم کرے گی اور اب وہ منزل زیادہ دور نہیں ہمیں بس ثابت قدم رہنا ہے۔
آج کل جو پوسٹرز شہروں میں لگائے گئے ہیں جس پر فوج کو پکارا جا رہا ہے کہ ” جانے کی باتیں ہوئی پرانی خدا کے لئے اب تو آ جاؤ”
یہ سوچی سمجھی بہت بڑی سازش کا حصہ ہو سکتا ہے جس میں بیرونی طاقتیں بھی ملوث ہوں کیونکہ ضرب عضب کی کامیابی اور گوادر پورٹ دشمن کی آنکھ میں مسلسل پھٹک رہا ہے ہو سکتا ہے یہاں پاکستان میں پاناما لیکس کی وجہ سے پہلے ہی بہران ہے وہاں یہ لوگ عسکری اداروں اور سیاسی قیادت کے درمیان تعلقات کو کشیدہ کر کے مزید بہران اور سنگین حالات پیدا کرنا چاہتے ہو حکومت پاکستان کو چاہیے کہ یہ پوسٹرز لگانے والے افراد پر مقدمہ درج کر کے اعلی سطح کی تفتیش کی جائے اور ذمہ داران کے خلاف کاروائی کی جائے ، میں کوئی نواز لیگ یا پیپلز پارٹی کی حمایت نہیں کر رہا بلکہ پاکستان اور پاکستانی عوام کی حمایت کر رہا ہوں کیونکہ دنیا میں جمہوریت ہی کامیاب ترین نظام ہے جو لوگوں کی فلاح و بہبود کے لئے بہتر سے بہتر کام کر سکتا ہے گزشتہ روز برطانوی وزیر اعظم جو کہ دنیا کے طاقتور ترین ممالک میں شمار ہوتا ہے اپنا سامان وزیراعظم ہاؤس سے اپنے گھر خود منتقل کر رہے تھے ہمیں ایک دن اس مقام تک پہنچنا ہے۔اور اس مقام تک آپ کو صرف جمہوریت کی گاڑی ہی پہنچا سکتی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں