دنیا کا کوئی بھی ترقی یافتہ یا ترقی پذیر ملک سر توڑ کوشش کرتا ہے کہ اسکی ثقافت اور تاریخ ہمیشہ زندہ رہے کوئی اسے مسخ نہ کر سکے اس لئے برطانیہ ، امریکہ ، جرمنی، ایران ، مصر، ترکی، سعدی عرب سمیت اور بھی بہت سے ممالک ہیں جہاں بہت سے تاریخی اور ثقافتی مقامات پائے جاتے ہیں اور یہ سالانہ کروڑوں ڈالرز لگا کا ان مقامات کی دیکھ بھال کرتے ہیں اور انکو انکی اصل شکل و صورت میں رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے وقت کے ساتھ ساتھ سہولیات میں تبدیلی ہوتی رہتی ہے اورپوری دنیا سے سیاح ان مقامات کو دیکھنے آتے ہیں ارد گرد کے علاقوں میں ہزاروں لوگوں کو روزگار ملتا ہے جو لوگوں کی خوشحالی کا ذریعہ اور غربت میں کمی کا باعث بنتا ہے کیو نکہ ان مقامات سے سالانہ اربوں ڈالرز کا منافع کمایا جاتا ہے۔
پاکستان میں ویسے تو کافی تاریخی مقامات پائے جاتے ہیں لیکن خو قسمتی سے ان میں سے ایک ایسا بھی ہے جو شائد اپنی منفرد ثقافت اور تاریخ کے لحاظ سے انمول ہی نہیں بلکہ دنیا میں اس سے قدیم ایسی کوئی اور مثال یا مقام نہیں ملتا۔
صوبہ سندھ کے شہر لاڑکانہ سے تقریباً 28 کلومیٹر دور دریائے سند ھ کے کنارے دنیا کا سب سے پہلا قدیم شہر آباد تھا جسے موہنجو داڑو کے نام سے پکارا جاتا تھا جس کے معنی ہیں موت کا ٹیلہ جو کہ آج سے کوئی چار ہزار پانچ سو سال پہلے آباد کیا گیا اس شہر کو دنیا کا پہلا میٹرو پولیٹن سٹی تصور کیا جاتا ہے جس کی منصوبہ بندی اور انجینئر نگ کا کام دیکھ کر آج بھی لوگ حیران رہ جاتے ہیں اسکو دیکھنے والے ایک بار اس قدیم خیالی دنیا میں گم ضرور ہوتے ہو گے آج ہزاروں سال بعد بھی ہم اپنے تمام چھوٹے شہر شائد اس طرز پر قائم نہیں کر سکے۔
اس شہر کی آبادی تقریباً چالیس سے پچاس ہزار تھی شہری حدود تین سو ایکڑ پر مشتمل ہے اس میں ایک بڑی عمارت ہے جس میں عام لوگوں کے نہانے کے لئے حمام بنائے گئے ہیں ،اور جو بڑے گھر ہیں ان کے غسل خانے گھر میں بنے ہوئے تھے کچھ گھر دو منزلہ بھی پائے جاتے ہیں ، ایک اور بڑی عمارت ہے جس میں 78 کمرے ہیں ، جسے درس گاہ تصور کیا جاتا ہے شہر کے درمیان میں دو بڑے ہال ہیں جن کو آج کی دنیا کے اسمبلی ہال تصور کیا جاتا ہے، اس شہر کی ایک اور حیران کن منصوبہ بندی ہے ہزاروں سال پہلے بننے والے اس شہر میں پانی کی سپلائی کا نظام آج کے دور جیسا ہے ہر گھر میں پانی کی سپلائی لائن جاتی ہے اور شہر کے مین بازاروں میں پانی کی نکاسی کا نظام جسے دیکھ کر آج کے لوگوں کی عقل بھی دھنگ رہ جاتی ہے کہ جس نظام پر آج ترقی یافتہ ممالک انحصار کرتے ہیں اسکا تصور ہزاروں سال قدیم ثقافت میں ملتا ہے ، شہر میں ایک بڑی مارکیٹ تھی جہاں سے روز مرہ کی اشیاء خریدی جاتی تھی، موہنجو داڑو اور ہڑپّہ کی تعمیر میں کافی مماثلت پائی جاتی ہے ، دریائے سندھ کے کنارے پر آباد یہ شہر سیلاب کی وجہ سے کئی بار تباہ ہوا لیکن کئی بار اسے اسی ملبے پر دوبارہ تعمیر کیا گیا، یہ موہنجو داڑو کی مختصر سی تفصیلات ہیں کیونکہ پوری تاریخ پر تو کتاب لکھی جا سکتی ہے ، ہمارے پاس اتنا قیمتی اور انمول ورثہ ہے لیکن بدقسمتی سے ہم اسے کھنڈرات میں تبدیل ہوتا دیکھ رہیں ہیں ۔
چند دن پہلے بھارتی فلم کا ٹریلر دیکھا جو غالبا اگست میں سینما گھروں کی زینت بنے گی، ٹریلر شروع ہوتے ہی پہلا ڈائیلاگ ” ہمیں مو ہنجو داڑو کی سچائی سامنے لانی ہو گی اس پہلے کے بہت دیر ہو جائے اور ہماری آنے والی نسلیں اسے بھول جائے، فلم کے ٹریلر میں دیکھایا گیا ہے کہ بر ٹش راج سے پہلے ، مغل بادشاہت سے پہلے ، عیسائیت، بدھا ، اور بھارت جسے ہم آج جانتے ہیں سے بھی پہلے ایک مو ہنجوداڑو تھا فلم میں اریتک روشن سرمن کا کردار ادا کر رہے ہیں جو کہ امری سے مو ہنجو داڑو آیا ہے
اور اسے موہنجو داڑو میں پوجا ہیج جو کہ چنائی کے نام سے کردار ادا کر رہی ہیں سے پیار ہو جاتا ہے اور کبیر مہدی ( موہم کا کردار ) جو کہ مو ہنجو داڑو کے حکمران کا کردار ادا کر رہا ہے اریتک روشن اس طرح کے کردار بڑی اچھی طرح نبھاتے ہیں اس سے پہلے وہ یودھا اکبر بھی کر چکے ہیں اگر آپ مزید تفصیلات دیکھنا چاہے تو یو ٹیوب پر آپ کو ٹریلر مل جائے گا۔یہ تمام حالا ت و واقعات بیان کرنے کا مقصد یہی ہے ہمیں اب یہ دن بھی دیکھنے ہیں کہ جسے ہم دشمن کہتے اور سمجھتے ہیں جو کشمیر میں آئے دن بے گناہ لوگوں کا قتل عام کرتا ہے ، جو پاکستان میں بدامنی کروانے میں پورا زور لگاتا ہے جسکی خفیہ ایجنسی کے سرونگ لوگ پاکستان میں دہشت گردی کرواتے نہ صرف پکڑے جاتے ہیں بلکہ قبول بھی کر لیتے ہیں، اور وہی دشمن ہمارے تاریخی مقامات کو دنیا کے سامنے پیش کر رہا ہے ، آج کے دور میں پوری دنیا میں انٹرٹینمنٹ کے ذریعے اپنا مؤقف اور پیغام دیا جا رہا ہے ، ہالی ووڈ کی سینکڑوں فلمیں ایسی ہیں جو فغان جنگ ، نائن الیون اور ڈرون اٹیک پر بنائی گئ ہیں جس میں امریکی اور اتحادی افواج کی قربانیاں دیکھائی جاتی ہیں دشمن کو برے سے برے اور ظالمانہ کردار میں دیکھایا جاتا ہے تاکہ لوگوں کی ہمدردی حاصل کی جا سکی ،
انڈیا بھی ایسی فلمیں بناتا رہتا ہے موہنجو داڑو بھی ان میں سے ایک ہے آج کی اس ڈیجٹل دنیا میں ہم دنیا کو اپنی ثقافت اور مؤقف بھی پیش کرنے کے قابل نہیں رہے پاکستان میں ایسے ہی بہت سے موضوع اور واقعات ہیں جن پر ہم سینکڑوں فلمیں بنا سکتے ہیں اور منافع کمانے کے ساتھ ساتھ ملک کے امیج کو بھی مثبت رنگ ملتا ہےلیکن شائد اس بار بھی ہم مو ہنجو داڑو دیکھے گے اور تعریف کرتے ہوئے گھروں کو چلے جائے گے اور انتظار کرے گے کہ پھر کوئی دشمن ہمیں بتائے کہ ہمارے پاس کوئی اور بھی ثقافت اور تاریخ ہے جسے ہم دفن کر رہے ہیں۔
Well done Rana sahib