خورشید رضوی کا ایک شعر یہ ہے: ؎
حسرتوں کا بھی کوئی روزِ جزا ہے کہ نہیں
میری حسرت میں تو تھا تیری اطاعت کرنا
ابھی ابھی سگریٹ کا پیکٹ میرے ہاتھ میں تھا۔ بہت ڈھونڈا، نہیں ملا۔ میرے جیسے آدمی کو اگر کسی دفتر کا منیجر بنا دیا جائے تو اس کا کیا ہو گا؟ اسی لیے انتظامی ذمہ داری قبول کرنے سے ہمیشہ گریز کیا۔ ہر آدمی کو شخصیت کے ایک خاص جوہر کے ساتھ پیدا کیا جاتا ہے۔ اسی پر زندگی کا انحصار ہوتا ہے۔ وہی کام اسے کرنا چاہیے، جو بہترین طور پر وہ انجام دے سکتا ہو۔ کتنے ہی نوجوان ہیں جو ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد سی ایس ایس کا امتحان دیتے اور سرکاری افسر ہو جاتے ہیں۔ کائنات میں زیاں بہت ہے، بہت زیاں ہے۔ اقبالؔ نے پروردگار سے جب فریاد کی تو میرا خیال ہے کہ ان کے ذہن میں یہی نکتہ تھا۔ ؎
ٹھہر سکا نہ ہوائے چمن میں خیمہء گل
یہی ہے فصلِ بہاری، یہی ہے بادِ مراد
خالق نہیں، مخلوق خود کو برباد کرتی ہے۔ ہر آدمی کے سر میں 1300 سی سی کا دماغ ہے۔ ہر ایک کو عقل بخشی گئی مگر اپنی دانش کو کتنے لوگ صیقل کرتے اور بروئے کار لاتے ہیں۔ عمران خان کی تیسری شادی پر غور کرتے ہوئے یہ نکتہ ذہن میں آیا۔ کپتان کی داستان کا وہیں سے آغاز… تو جنوری کی ایک سرد سیاہ رات کو آتش دان کے سامنے اپنی کتھا اس نے شروع کی۔ اپنی دلہن سے وہ شاد تھا اور اس کے اوصاف بیان کرتا رہا۔ خاموشی سے اس آدمی کی بات میں سنتا رہا، مردم شناسی جسے چھو کر بھی نہیں گزری۔ آخر میں فقط یہ کہا: ذہنی اور جسمانی توانائی اس میں بہت ہے۔ گھر سے باہر اسے مصروفیت درکار ہو گی۔ شوکت خانم یا نمل یونیورسٹی، کچھ بھی۔ چند روز کے بعد، ممتاز ماہرین سے مشورے کے بعد قیمتی پتھروں سے سجے زیورات بنانے کا ایک خاکہ میں نے اسے پیش کیا۔ ان کی رائے سے آگاہ کیا کہ چند ہزار نوجوانوں کو اگر تربیت دی جا سکے تو پانچ ارب ڈالر سالانہ زرِ مبادلہ کمایا جا سکتا ہے۔ پانچ ارب نہیں تو پانچ سو ملین ہی سہی۔ اس نے کہا: ریحام بینکاک میں ہیں۔ اس منصوبے پر کام کر رہی ہیں۔
سرکارؐ سے مسلمانوں کو عقیدت بہت ہے۔ ان ؐ کے نا م پر ایسے بھی جان قربان کرنے کے لیے آمادہ ہو جاتے ہیں کہ حیرت ہوتی ہے۔ سیکھنے کی بات دوسری ہے۔ غور و فکر سے علاقہ ہی نہیں۔ ہجوم کے ہجوم داتا دربار جاتے ہیں مگر کشف المحجوب کوئی نہیں پڑھتا‘ جو شاید ایک ہزار سال میں لکھی جانے والی سب سے اہم کتاب ہے۔ جو بھید کھولتی ہے کہ آدمی حجاب کا شکار کیوں ہوتا ہے۔ اس کی دانش بروئے کار کیوں نہیں آتی۔ اس کا علم، عمل میں کیوں نہیں ڈھلتا۔ شیخِ ہجویر ؒسالک کو اپنی نہیں، اللہ اور اس کے سچے رسولؐ کی طرف بلاتے ہیں۔ غور و فکر اور تجزیے کا سلیقہ عطا کرتے ہیں۔ عصرِ رواں کے عارف سے میں نے پوچھا: کتنی بار یہ کتاب آپ نے پڑھی ہے۔ فرمایا: پڑھی نہیں، مجھ پر بیت گئی ہے۔
ادھورے صوفیوں سے دنیا بھری پڑی ہے۔ ہر عارف عالم ہوتا ہے، ہر عالم عارف نہیں۔ صدیوں پر پھیلی صوفی شاعروں کی ایک پوری کھیپ سے ہم واقف ہیں؛ درآں حالیکہ حضرت سلطان باہوؒ کے سوا عارف ان میں سے شاید ہی کوئی ہو۔ باقی متصوف تھے۔ اپنے عہد کی منافقت کے خلاف اعلانِ جنگ کرنے والے بلھے شاہ ایسے دلاور، اہلِ صفا کی صحبت جنہیں نصیب ہوئی۔ شاعری کی آندھی میں سونے کے ذرّات بھی ہوتے ہیں مگر ذرات ہی۔
امام زین العابدین نے ارشاد کیا تھا: ہم اس طرح سیرت پڑھا کرتے، جس طرح قرآن پڑھا جاتا ہے۔ اللہ کی کتاب اور سیرت کے علاوہ، کائنا ت میں، انسان کی سرگزشت میں، تاریخ میں جس نے جی نہ لگایا؟
پھر انسانی گروہوں کی خصوصیات ہیں۔ میانوالی کے نیازیوں کا وصف یہ ہے کہ اکثر کے پانچ سات پیر ہوتے ہیں۔ بیابان کے سفر میں راہبر ایک ہوتا ہے، بہت سے نہیں۔ عمران خان کا مسئلہ یہ ہے کہ ہر دروازے پر وہ دستک دیتا پھرتا ہے۔ ان میں سے ایک وہ ہے، جس نے اسے بتایا تھا کہ 6 ستمبر (2014)ء کو اس کی حکومت وجود میں آ جائے گی۔ پیالوں میں دریا نہیں سماتے۔ جنیدِ بغدادؒ کے سامنے حسین بن منصور حلاج نے بڑ ہانکی تو آپ نے کہا تھا: حسین! یہ کاروبارِ دنیا ہے۔ ازل سے ایسا ہی ہوتا آیا ہے اور ابد تک ایسا ہی ہوتا رہے گا۔ تصوف ایک دائمی جنگ ہے، خود اپنے خلاف۔ اپنی جبلتوں اور ان کے تعامل کا ادراک اور کمال خلوص کے ساتھ۔ کشف المحجوب میں لکھا ہے: وہ تصوف جو پابندِ شریعت نہ ہو، وہ زندیق تو پیدا کر سکتا ہے، صدیق نہیں۔ اللہ ان پر رحم کرے، بہت سے مغالطے اشفاق احمد مرحوم اور قدرت اللہ شہاب نے پیدا کیے… بابے!
تصوف کیا آموں کا باغ ہے، سینکڑوں درختوں پر جس میں لاکھوں ثمر پختہ ہو جاتے ہوں؟ ہم کیا اور ہماری بساط کیا، گرامی قدر استاد کو ایک شام میں نے اداس پایا۔ حیران ہوا کہ حزن اور غم تو اللہ کے پاک بندوں کو چھو کر نہیں گزرتا۔ سوال کیا تو فرمایا: ریاضت لوگ کرتے نہیں اور مناصب کے آرزومند ہوتے ہیں‘ یہ تو میں ہی جانتا ہوں کہ عمر بھر کیسی جنگ میں نے اپنے خلاف لڑی ہے۔ ایک دوسرے موقع پر یہ کہا: دوسروں کو تو ہمیشہ درویش رعایت دے سکتا ہے، خود کو نہیں۔ کہا: تصوف آزادی ہے اور جیسا کہ قرآنِ کریم میں ارشاد ہے، درجات علم کے ساتھ ہیں۔
اس بیچاری خاتون کا کوئی قصور نہیں، جس کی بارگاہ میں منت سماجت کر کے عمران خان حاضر ہوئے۔ ابھی ابھی ان کی بہن سے میری بات ہوئی، جن کے ساتھ زیادتی ہوئی کہ خان صاحب سے انہیں منسوب کر دیا گیا، درآں حالیکہ وہ شادی شدہ ہیں۔ دو بچّوں کی ماں ہیں اور ان کے بقول خوشگوار ازدواجی زندگی گزار رہی ہیں۔ تحریکِ انصاف کی کارکن ہیں، امارات کی ایک یونیورسٹی سے وابستہ ہیں۔ پندرہ بیس منٹ کی گفتگو سے اندازہ میں نے قائم کیا کہ اپنی سلیقہ مندی کے ساتھ آسودہ ہیں۔ اخبار نویسوں نے انہیں رنج پہنچایا مگر مشتعل تو کیا، ناراض نہیں۔ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ سسرال والے پڑھے لکھے شائستہ لوگ ہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ اجتماعِ عام مثلاً دھرنے کے سوا خان صاحب سے وہ کبھی ملی تک نہیں۔
انگوٹھی؟ تصوف کا انگشتری سے کیا تعلق؟ کیا سرکارؐ نے کبھی کسی کو انگوٹھی عطا کی تھی؟ سب سے پہلے بیعت لینے والے جنیدِ بغدادؒ نے، جنہیں سیدالطائفہ کہا گیا۔ امام شاذلیؒ، شیخِ ہجویرؒ، شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ، خواجہ معین الدین چشتی ؒ، خواجہ نظام الدین اولیاؒ، کسی نے بھی؟ عظیم صوفیوں میں سے آخری خواجہ مہر علی شاہؒ نے، اقبال جن کا احترام استاد کی طرح کیا کرتے؟
اچھی خاتون ہوں گی۔ شاید اسی لیے تو حجاب کرتی ہیں۔ شاید اسی لیے ملاقات سے انہیں گریز رہا۔ استاد کا منصب؟ کیا اب انہیں احساس ہوا کہ گریز ہی لازم ہے۔ انکار کرنا چاہیے تھا، انہیں انکار۔ پتھروں سے قسمت بدلتی ہے اور نہ ستارے آدمی کے مقدر پہ حکمرانی کرتے ہیں۔ کپتان سے میں نے پوچھا: انگوٹھی کیوں پہنی ہے؟ کہا: رسولِ اکرمؐ پہنا کرتے تھے۔ یاللعجب! انگشتری نہیں، وہ مہر تھی، مہرِ نبوت۔ دستاویزات پر ثبت کرنے کے لیے۔ کسی پڑھے لکھے سے پوچھ لیا ہوتا۔
خواجہ نظام الدین اولیاؒ نے کہا تھا: ”نیکوں کی صحبت نیکی سے بھی بہتر ہے اور بروں کی صحبت برائی سے بھی بدتر‘‘… اور نیم خواندہ لوگوں کی صحبت؟
سرکارؐ کا فرمان یہ ہے: علیکم مجالس بالابرار۔ تم پر لازم ہے کہ ابرار کی خدمت میں حاضر ہوا کرو۔ مولانا فضل الرحمٰن نہیں، خطاکاری کے احساس سے شرمندہ ڈاکٹر خورشید رضوی ایسے لوگ۔ علم کے بغیر کون سی نیکی اور کون سی بالیدگی؟
خورشیدؔ رضوی کا ایک شعر یہ ہے: ؎
حسرتوں کا بھی کوئی روزِ جزا ہے کہ نہیں
میری حسرت میں تو تھا تیری اطاعت کرنا
جملہ بحقوق ۔۔۔۔ روزنامہ دنیا