گزشتہ سال جب کراچی کی بگڑتی ہوئی صورتحال میں بہتری کے لئے رینجرز سے مدد لی گئی‘ تو شہر سے دور رہنے والوں کو اس صورتحال کا تجربہ نہیں تھا‘ جو اہل کراچی کو ہر سال پیش آتی ہے۔ ہم لوگ جن کا تعلق میڈیا سے ہے‘ فطرانے اور زکوٰۃکی جبری وصولی کے قصے کہانیاں سنتے اور پڑھتے رہتے تھے لیکن عوام کی بھاری اکثریت اس سے واقف نہیں تھی۔ کراچی والوں سے جس طرح جبراً زکوٰۃاور فطرانہ وصول کئے جاتے تھے‘ وہ ایک ہولناک صورتحال تھی۔ جو شخص سال بھر اپنے محدود رزق حلال سے پائی پائی جمع کر کے‘ قربانی کا بکرایا چھترا لاتا اور اس کی کھال راہ خدا میں دے کر ثواب کا امیدوار بن کر ‘ذہن کو تسلی دے لیتا ‘ اسے کاروبار سیاست کرنے والوں نے جبراً باقاعدہ ذریعہ آمدنی کا حصہ بنا لیا تھا اور وہ فطرانہ اور کھالیں جمع کر کے‘ اپنی سیاست اور کاروبار میں فائدے اٹھانے لگے تھے۔ انتہا یہ ہوئی زکوٰۃ‘ فطرانہ اور عیدالاضحی پر کھالیں جمع کرنے کا عمل‘ طاقت اور غنڈہ گردی کے مظاہروں کا ذریعہ بن گیا اور بیچارے غریبوں اور مسکینوں کو دھکے دے کر‘ ان کے لئے خدا کی طرف سے مقررہ حق کو‘ طاقت کے بل بوتے پر چھینا جانے لگا۔ رینجرز نے جب خدا کی طرف سے غریبوں اور مظلوموں کے لئے مقررہ‘ رزق پر ڈاکہ زنی کو روکنا شروع کیا‘ تو ہو سکتا ہے بعض کمانڈروں کو خیال نہ ہو کہ وہ خدا اور رسولﷺ کے حکم کی تعمیل کر رہے ہیں۔جبراً غریبوں کا حق چھیننے والوں نے‘ رینجرز پر بھی تنقید شروع کر دی اور مظلوم بن کر عوام کی ہمدردیوں کے طلبگار ہو گئے۔ جبکہ وہ عوامی نفرت اور حقارت کے مستحق تھے۔ شاید انہیں اس کا علم نہیں تھا یا وہ جان بوجھ کر اغماض سے کام لے رہے تھے کہ وہ خدا اور اس کے رسولﷺکے احکامات کی خلاف ورزی نہیںکر رہے۔ جبکہ اللہ اور رسولﷺ کی طرف سے زکوٰۃ اور فطرانے کی وصولی پر مامور عاملین کو حکم تھا کہ وہ مستحقین کے اس حق میں مداخلت کرنے والوں کوسزائیں دیں۔یہی کچھ رینجرز کر رہی ہے۔ ممتاز عالم دین جناب امیر حمزہ نے‘ میری درخواست پر اس معاملے میں احکام خداوندی کی خلاف ورزی کی مثال دیتے ہوئے لکھا کہ حضرت ابوبکرصدیقؓ کے دور میں‘ کچھ لوگوں نے زکوٰۃ یعنی ریاست کا حق نہ دینے کا اعلان کیا ‘توانہوںؓ نے ایسے لوگوں کے خلاف لڑنے کا اعلان کر دیا۔ میں نے ان سے درخواست کی تھی کہ وہ دین کی رو سے اس مسئلے پر اظہار خیال فرمائیں۔ میں ان کا ممنون ہوں کہ وقت کی کمی کے باوجود‘ انہوں نے اس کار خیر میں حصہ لیا اور موٹروے پر سفر کے دوران بیٹھے بیٹھے ہاتھ سے‘ جو کچھ لکھ کر مجھے ای میل کیا‘ وہ میں قارئین کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں۔ملاحظہ فرمایئے:
”اللہ اور اس کے رسولﷺ کے احکامات کے تحت اونٹوں‘ بھیڑوں اور بکریوں پر زکوٰۃ تھی اور فصلوں پر عشر تھا۔ ریاست ا ور اس کے حکمران کو یہ حق حاصل ہے کہ مملکت کا نظام چلانے کے لئے‘ وہ محصولات کو ہر صورت وصول کرے اور جو کوئی انکار کرے اس کو سزا دے۔ جیسا کہ حضرت ابو بکر صدیقؓ کے دور میں کچھ لوگوں نے زکوٰۃ یعنی ریاست کا حق نہ دینے کا اعلان کیا تو انہوںؓ نے ایسے لوگوں کے خلاف لڑنے کا اعلان کر دیا۔ یہ لوگ ریاست کا حق دینے سے منکر ہو گئے تھے۔ باقی اللہ کے رسولﷺ اور خلفائے راشدین کی جانب سے‘ عاملین زکوٰۃ کو واضح ہدایات دی جاتی تھیں کہ ملے جلے مال سے زکوٰۃ وصول کی جائے۔ زکوٰۃ کا مال چھانٹ کر نہ لیا جائے۔ مثال کے طور پر بہترین اونٹ یا دودھ دینے والی اونٹنی یا بکری کی اعلیٰ نسل کی نہ لی جائے۔ چنانچہ حضرت محمدﷺ کے ایک عامل کے بارے میں امام احمد بن حنبلؒ اپنی مسند میں یہ واقعہ لائے ہیں کہ زکوۃ دینے والے نے اپنے باڑے سے دودھ دینے والی شاندار بکری پیش کر دی مگر عامل نے یہ کہہ کر لینے سے انکار کر دیا کہ اللہ کے رسولﷺ نے ہمیں ایسا مال لینے سے منع فرمایا ہے۔ بکری کا دودھ بچے پیتے ہیں۔ اللہ کے رسولﷺ نے بچوں کی خوراک مہیا کرنے والی بکری‘ زکوۃ میں لینے سے روکا ہے یعنی ریاست اپنا جو حق رعایا سے وصول کرتی ہے ‘ اس میں نرمی بھی ہے اور عدل بھی۔ اس میں ماں جیسا پیار بھی ہے کہ عدل اور پیار سے لئے ہوئے مال کو‘ ریاست اپنی ہی رعایا کی بہبود کے لئے مختلف شکلوں میں واپس لوٹا دیتی ہے ۔اس میں دفاع بھی ہے۔ صحت ‘ تعلیم اور دیگر رفاہِ عامہ کے کام بھی۔ باقی جہاں تک زکوٰۃ اور فطرانے کو جبراً وصول کرنے کا ‘ہمارے ہاں رواج ہو گیا ہے‘ یہ ریاست کے حکمرانوں کی نا اہلی ہے کہ جبر کے ساتھ بعض لوگ ریاست کے باسیوں سے زکوٰۃ اور فطرانہ وصول کرتے ہیں۔ قرآن نے واضح طور پر اعلان کر دیا ہے کہ ”دین میں جبر کی کوئی گنجائش نہیں ہے‘‘۔ جو لوگ زکوٰۃ اور فطرانے جیسے دینی فریضے میں‘ جبر اور زبردستی کرتے ہیں‘ وہ ریاست کے اندر ایک ریاست کھڑی کرنے کے جرم کا ارتکاب کرتے ہیں۔ ریاست کے مقابلے میں یہ ایک باغیانہ روش ہے۔ یہ روش اس وقت واضح بغاوت کی شکل اختیار کر لیتی ہے جب انکار کرنے والوں کو قتل کر دیا جاتا ہے یا ان کی فیکٹری کو آگ لگا دی جاتی ہے۔ یہ صریحاً ریاست کے خلاف بغاوت ہے اور بغاوت کو کچلنا سٹیٹ کی ذمہ داری ہے۔ ایسا کرنا زکوٰۃ دینے والوں کے حق پر ڈاکہ بھی ہے۔ان کا حق ہے کہ اپنے غریب رشتہ داروں‘ ملازموں یا پڑوسیوں میں سے جس کو مستحق سمجھیں‘ اس کو زکوٰۃ اور فطرانہ دیں۔ اس طرح زبردستی کرنے والے‘ ان یتیموں‘ بیوائوں اور بے سہارا لوگوں کا بھی حق چھینتے ہیں۔جو ایک صاحب مال سے زکوٰۃ اور فطرانہ لیتے تھے مگر کسی کے جبر سے وہ محروم کر دیئے گئے۔ مزید برآں‘ یہ انسانی ضمیر کی آزادی پر بھی ڈاکہ ہے۔یہ اسلامی‘ قانونی اور اخلاقی نظام کو تباہ کر دینے والی حرکت ہے۔ ایسے طرز عمل کی گنجائش ایک مہذب اور تعلیم یافتہ معاشرے میں برداشت نہیں کی جا سکتی۔ یہ انسانی فطرت اور جبلت کے خلاف جنگ ہے۔ اس جرم کو روکنا ریاست کی ذمہ داری ہے۔ اگر ریاست یہ ذمہ داری ادا نہیں کرتی تو اللہ کے ہاں جوابدہ ہے اور انسانی برادری میں ایسی ریاست‘ غیر مہذب بن جائے گی۔‘‘
جو لوگ احکام خداوندی کی تعمیل میں رکاوٹ کھڑی کرتے ہیں‘ انہوںنے رینجرز کی طرف سے عائد پابندیوں پر‘جن مصنوعی اخلاقی دلائل کے ساتھ اپنا کاروباری ”حق‘‘ وصول کرنے پر اصرار کیا ہے‘ شاید انہیں معلوم نہیں کہ وہ کتنے بڑے دینی جرم کا ارتکاب کرنا چاہتے ہیں؟ جب سے ایسے لوگوں نے اس گناہ کبیرہ کا ارتکاب شروع کیا ہے‘ درحقیقت وہ احکام خداوندی کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کر رہے ہیں اور ان خدا کے بندوں کو‘ ان کی نیکیوں کے ثمرات سے محروم کر رہے ہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ عالمان دین نے کراچی میں ان حقائق سے پردہ اٹھا کر اپنا دینی فرض کس حد تک ادا کیا ہے؟ لیکن سنی سنائی اطلاعات یہ ہیں کہ انہوں نے خطبہ جمعہ میں ان حقائق سے پردہ اٹھا کر زکوٰۃ‘ فطرانے اور کھالوں کی جبری وصولی سے ممانعت کر کے اپنا فرض ادا نہیں کیا۔ اللہ کے جن بندوں نے ایسا کیا ہے‘ میں قیاس کر سکتا ہوں کہ ارتکاب گناہ کرنے والوں نے یقینا ان کے خلاف طاقت کا استعمال کیا ہو گا۔
بی بی سی اردو ڈاٹ کام نے عید کے موقع پر ریاض سہیل کی جو رپورٹ جاری کی اس کی ابتدا یوں ہوتی ہے: ”کراچی میں متحدہ قومی موومنٹ کی طاقت کے مظہر مکہ چوک کے قریب‘ شادی ہال میں راشن کے سامان کے ساتھ بھری ہوئی سفید بوریوں کا ڈھیر لگا ہے اور ساتھ میں سلائی مشینیں‘ پنکھے اور سائیکلیں موجود ہیں۔ ان تمام پر خدمت خلق فائونڈیشن تحریر ہے۔‘‘رابطہ کمیٹی کے کنوینرجناب فاروق ستار نے‘ رینجرز کو ان الفاظ میں ”خراج تحسین پیش‘‘ کیا کہ ” انہیں فطرانے اور زکوٰۃ کی جو رقم ملتی تھی‘ اس میں 80فیصد کی کمی آئی ہے اور اس کی وجہ رینجرز ہیں۔‘‘اللہ اللہ ! سچائی بھی کہاں کہاں سے اپنے راستے نکال لیتی ہے۔
جملہ بحقوق ۔۔۔۔۔ روز نامہ دنیا