آج کل ذرا شیخ سعدی کو پڑھ رہا ہوں ان کے کچھ بڑے مشہور قول ہیں وہ فرماتے ہیں کہ ،
جاہلوں کا طریقہ یہ ہے کہ جب ان کی دلیل مقابل کے آگے نہیں چلتی تو وہ لڑنا شروع کر دیتے ہیں ۔
ویسے تو شائد یہ ممکن ہوتا ہوا دیکھائی نہیں دیتا کہ عمران خان کے نام کے ساتھ کبھی وزیر اعظم بھی لگے گا اسکی بڑی وجہ بھی تحریک انصاف کی اندرونی نا بالغ سیاست اور ناقص پالیسیاں ہیں ، کار کن کم اور لیڈر زیادہ ہیں ، میڈیا مینجمنٹ اچھی نہیں ہے ، پالیسی بنانے کا کوئی واضح طریقہ کار نہیں بلکہ چند مخصوص لوگوں پر انحصار کیا جاتا ہے، بنی گالہ پر نعیم الحق کا قبضہ ہے جو ورکر سے زیادہ خان صاحب کے ذاتی ملازم بنے ہوئے ہیں اگر وزیر اعظم عمران خان ہوا تو یہ پر ویز رشید ہو گے۔ اسلام آباد سیکریٹریٹ پر سیف اللہ نیازی صاحب براجماء ہیں شاہ محمود قریشی صاحب کی حمایت اور گٹھ جوڑ انکے ساتھ ہے ادھر پنجاب میں عقل قل چوہدری سرور صاحب قابض ہیں جو اپنی من مرضی کرتے ہیں اور تحریک انصاف کو سیاسی جماعت سے زیادہ کاروباری دفتر بنا دیا ہے جس میں لوگوں کو لاکھوں روپے تنخواہیں دی جا رہی ہیں اس سے پہلے تنخواہ والا کال صرف ن لیگ کرتی تھی پیپلز پارٹی کو تو اتنا ڈھنگ کہاں ، اعجاز چوہدری بلا شبہ ایک کارکن ہیں لیکن اسکے ساتھ سودے بازی بھی کر لیتے ہیں، اور اتحاد نام کی کوئی چیز نہیں ہے شائد اسی لئے شیخ سعدی نے فرمایا تھا کہ
اگر چڑیوں کا اتحاد ہو جائے تو وہ شیر کی کھال اتار سکتی ہیں۔
اگر ان سب پہلوؤں کا غور بینی سے جائزہ لیا جائے تو تحریک انصاف بھی ن لیگ کی طرح کی ہی ایک سیاسی جماعت بن چکی ہے لیکن پھر بھی وزیر اعظم عمران خان کیوں نہیں ہو سکتے۔اس کی مختلف وجوہات ہیں چند اوپر بیان بھی کی ہیں ایک اور بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ابھی بھی تنظیم سازی پرلے درجے کی گئی گزری ہے ورکرز کی تعلیم و تربیت کا کوئی ذریعہ نہیں جس سے تبدیلی لائی جا سکی وقت آنے پر خان صاحب اعلان کر دیتے ہیں لیکن نیچے سب نے خیالی پلاؤ پکایا ہوتا ہے جیسے کوئی آسمان سے آئے گا انکی مدد کرنے کے لئے، کام کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کم اور تصاویری اور میڈیا گروپ کی پذیرائی زیادہ کی جاتی ہے ،اسکی ایک تازہ مثال پی ٹی آئی برطانیہ اور یورپ کے سربراہ کی تقرری ہے جو پی ٹی آئی کا پیڈ ممبر بھی نہیں ہے جس سے پورے یورپ اور برطانیہ کے کارکنان بد زن ہو گئے ہیں سوائے چند ایک ڈرائیور ٹا ئپ اور جن میں سچ سننے اور کہنے کی سقت نہیں لیکن یہ مٹھی بھر ہیں جو ایک درجن سے زیادہ نہ ہوگے، لوگوں نے اس واقع کے بعد اپنی ممبر شپ منسوخ کروا دی جنکی ممبر شپ ختم ہو رہی تھی دوبارہ نہیں کی ، مہینہ وار پیسے دینے والوں کی تعدا د چھہ ہزار سے کم ہو کے چار سو تک آگئی ، چمچہ گیری کرنے والے کہتے ہیں کہ اس شخص نے جماعت کو آج تک ایک ملین پاؤنڈز دئیے ہیں سیاسی جماعت نہ ہوئی طوائف ہی ہو گئی جو زیادہ بولی لگائے لے جائے میرے نزدیک اگر ایک شخص کے پاس سو پاؤنڈز ہیں اور اس نے دس پاؤنڈز جبکہ دوسرے شخص کے پاس ایک ہزار پاؤنڈز ہیں اور اس نے ایک سو پاؤنڈز جماعت پر خرچ کئے تو وہ دونوں برابر ہیں کیونکہ دونوں نے اپنی رقم کا دس فیصد دے دیا۔اب سوال یہ ہے کہ یہ سب کچھ یا اس سے بھی تھوڑی زیادہ خرابیاں تو ن لیگ میں بھی ہیں لیکن پھر بھی وہ جیت جاتے ہیں ، کیونکہ انھوں نے پاؤں زمین پر لگائے ہوئے ہیں اور وہ زمینی سیاست ہی کرتے ہیں جن کو ہم موروثی یا الیکٹیبلز کی سیاست کہتے ہیں جو تھانہ کچہری اور پٹواری کلچر کا حصہ ہے اب تحریک انصاف ہاتھ آسمان کو لگانا چاہتی ہے کام پاؤں کو زنجیروں سے زمین پر باندھنےکے کر رہی ہے، اور خود درمیان میں لٹکی ہوئی ہے جب تک تحریک انصاف ان زنجیروں سے آزاد نہیں ہوتی تو آسمان کو ہاتھ کیسے لگائے گی۔
لیکن ان سب غلطیوں اور عقربا پروری کے بعد اگر عمران خان وزیر اعظم بن ہی جاتے ہیں جو کہ عوام کو ایک موقع انھیں دینا چاہیے تو سب سے بھیانک خبر تو میڈیا اور صحافیوں کے لئے ہو گی پھر بہت سے میڈیا مالکان اور انکے چینل بیرونی ایجنٹ قرار دئے جائے گے بہت سے محب وطن تنقید کرنے والے صحافی لفافہ صحافی کہلوائے گےکیونکہ ان کے ورکرز کے مطابق تحریک انصاف پر تنقید کرنا ملک و قوم سے غداری کے مترادف بلکہ کہیں بڑھ کے ہے ۔حکومت پر ہمیشہ تنقید ہوتی ہے چاہے پیپلز پارٹی ہو ، نواز لیگ ہو یا پھر کبھی پی ٹی آئی آگئی تو اس پر بھی اسی طرح تنقید اور سوال و جواب کئے جائے گے لیکن پھر آپ کو یقیناً لفافہ صحافی کا خطاب ملے گا آپ کی ذات پر کیچڑ اچھالا جائے گا کیوں یہ شائد آتے ہی کچرے کے ڈبے سے ہیں جو سوشل میڈیا پر رستم زمانہ بنے ہوتے ہیں ، لیکن سب ایسے نہیں ہیں بلکہ اکثریت نہیں ہیں ایسے لوگوں کی تعداد تو کم ہے لیکن انکی بے عقلی کی وجہ سے ہمیشہ تحریک انصاف اور عمران خان کو نقصان اٹھانا پڑا اسی وجہ سے خان صاحب کئی بار با قاعدہ ویڈیو پیغام دے چکے ہیں لیکن کہتے ہیں نا کہ نادان دوست سے تو سمجھدا دشمن ہی اچھا ہے، جو اپنے لیڈر کی نہیں سنتا ہماری کیا سنے گا ،
شیخ سعدی رحمتہ اللہ نے کیا خوب فرمایا کہ ،
نادان ڈھول کی مانند ہوتا ہے ، بلند آواز ہوتا ہے لیکن اندر سے خالی ہوتا ہے۔