گیارہ ستمبر 1948 ء و ہ المناک دن ہے جب بابا ئے قوم قائداعظم محمد علی جنا ح دارفانی سے کوچ کر گئے قائداعظم کی علالت کارازاُس وقت آشکارہوا جب محمد علی جناح تکمیل پاکستان کی جنگ جیت گئے اور موذی مرض کے ہاتھوں ایک سال بعد جان کی بازی ہارگئے اس موت وحیات کی کشمکش میں قائداعظم نے کانوں کانوں بھی کسی کو خبر نہ ہونے دی کہ وہ ٹی بی کے کے مریض ہیں اور پوری تندہی کیساتھ پاک سرزمین کے قیام کیلئے جدو جہد کرتے رہے جدوجہد قائداعظم ؒ کی شخصیت کے بارے ہی جواہر لا ل نہرو نے کہا تھا جناح کو کبھی خریدا نہیں کاسکتا بات ہے تشکیل پاکستا ن کے اوائل عمری کی نو منتخب اور نوخیز کابینہ کا اجلاس جاری تھا قائد کے پرسنل سیکرٹر ی نے پو چھا کہ سر چائے سرو کی جائے یا کافی قائدکی آنکھیں سرخ ہو گئیں شدید برہم ہوئے اور کہا جس نے چائے پینی ہے یا کافی گھر سے پی کر آئے گا اور گھر جا کر پیئے گا یہ ہے ایک قائدا ور لیڈر کی اپنے لملک کیساتھ وارفتگی اور اپنائیت کہ اگر سرکاری پیسوں سے محترمہ فاطمہ جناح یا اپنے ذاتی استعما ل کیلئے کوئی کچن کا سامان بھی آیا تو اس کے بھی فوری طور پر پیسے اداکئے اور آئندہ ایسے غلطی نہ دہرانے کا عندیہ بھی دیا گیا دوسر ی طرف روٹی کپڑااور مکان سمیت پاکستان کے ساتھ محبت کا اس قدر بے پناہ دم بھر نے والے لوگ بھی ہیں جو ایوان اقتدار سے جاتے جاتے دوست ملک کا تحفے میں دیاہوا ہار بھی لے اڑے وہ تو اللہ بھلا کرے متعلقہ حکام جو مسلسل اڑھائی سال پیر صاحب کے منت ترلے کرکے بالاخر واپس کروانے میں کامیاب ہوئے قائد کے یوم وفات پر اگر شہر قائد کی بات نہ کریں تو یا نا مناسب عمل ہے گزشتہ کئی سالوں سے سندھ کے حقو ق کبھی مہاجروں کے حقو ق اور رہی سہی کسر نکالنے کیلئے مذہبی جماعتیں روایتی نعروں کے ساتھ میدان میں پنجہ آزمائی کرتی رہیں اور فتحیاب وہ طبقہ ہواجو زور اور طاقت میں آگے تھا کراچی جو کبھی روشنیوں کا شہر اور پاکستان کا سب سے زیادہ ریونیو دینے والا شہر ہوا کرتا تھا کراچی کے باے ایک سابق امریکی سفیر کا انٹرویو پڑھنے کا اتفاق ہوا جس میں اُ ن دنوں کی منظر کشی کی گئی تھی جب پاکستان کا دارالحکومت کراچی ہواکرتا تھا شہر قائد اس قدر پُرامن تھا کہ کراچی میں امریکی سفارتخانہ کے پاس صرف ایک سیکورٹی گارڈتھا اوروہ بھی بازار سے سامان لانے اور دوسرے کاموں میں زیادہ مصروف رہتا شہر قائدا س قدر پر سکون اور پر امن تھا کہ سفارتخانے کے ملازم شام ڈھلے خود ہی گیٹ بند کرتے اور سو جاتے پھر نجانے کس کی نظر کراچی کا امن نگل گئی آگ اور خون قتل وغارت کا ایسا بازار گرم ہو ا جس نے نہ مزدور چھوڑا نہ سیاستدان چھوڑا نہ معلم چھوڑا نہ متعلم کو بخشا نہ سیکورٹی پر مامور محافظ بچ سکے الغرض ہر شعبہ ہائے زندگی میں بدامنی لا قانونیت نے ڈیر ے ڈال لئے کراچی کے رئیس زادے میمن کراچی چھوڑ کر لاہوربسنے لگے اور بڑی تعدا د میں صنعتکاراپنی صنعتیں ایران اور بنگلہ دیش منتقل کرنے لگے ہرروز کراچی کی سڑکیں خون آلود ہوتی رہیں سندھ کے سائیں اور کئی دہائیوں سے راج کرنے والی سندھ کی مہاراج پیپلز پارٹی اورمہاجروں کی لاشوں پر سیاست کرنے والی سدابہار مقتدرجماعت متحدہ قومی موومنٹ بڑی خاموشی کے ساتھ اقتدار کیساتھ چمٹی رہی قتل وغارت کا بازار جو حکیم سعید سے شروع ہواتھاتھم نہ سکاکراچی یونیورسٹی کے پروفیسر سبط جعفری ہوں یا حسن ترابی مسلکی لسانی مذہبی ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ جاری رہا مٹھی میں انسانیت بھو ک اور افلاس کے ہاتھوں بلکتی تڑپتی سسکتی مرتی رہی کسی بھی روٹی کپڑامکان اور بااختیار خودمختار عوام یا اسلامی پاکستان کا نعرہ لگانے والوں کے کان پر مجال ہے جوں بھی رینگی ہو ۔سندھ کے سائیں بھی مٹھی کا دورہ کرنے گئے اور متاثرین کے زخموں پر مزیدنمک چھڑک آئے جئے بھٹو جئے بی بی کے نعرے لگا تے ہوئے بلاول بھٹو نے بھی دورہ کیا ہسپتالوں کو تالے لگا دیئے گئے مریضوں کو دھکے دیکر باہر نکال دیاگیا یوں لگا جیسے کسی شہنشاہ سلطنت کی آمد ہو اور سند ھ کے سیاہ سفید کرتادھرتا لیڈروں کا سیاہ سفید جدید اوررنگ برنگی گاڑیوں کا قافلہ آیا اورانواع و اقسام کے کھانے تناول فرماکرلش پش گاڑیوں کی اڑتی دھول مٹھی کے بھو کے ننگے لوگوں کے چہروں پر کئی کئی انچ جم گئی اور جب کوئی جانور کھانے کیلئے شکار کرتا ہے تو وہ جب خوب سیر ہو جا تا ہے تو وہ اس لئے وہاں سے رخصت ہو جا تا ہے کہ بچا ہوا مردار جنگل کے کمزور جانور کھالیں مگر یہاں تو منظر ہی کچھ اور تھا سائیں اور سائیں کے درباری گئے نہیں تو مقامی درباریوں نے اپنا دربار سجا یااور مردہ ضمیر مردارسے شکم سیر کرتے رہے اور مٹھی ریسٹ ہاؤس سے باہر بھوک سے مر نے والوں کی تعدا د بڑھتی رہی مگر میثاق جمہوریت میں ہونے والے عہدوپیماں پیام وفا دیتے رہے دنیا نے وہ دل دہلا دینے والامنظر بھی دیکھا جب ایک کچرے کے ڈھیر پر مٹھی کے سب چھوٹے بڑے جمع ہو کر راجہ داہر کے جانشینوں کا بچا کھچا ہوے کھانے سے سانسوں کی ڈوری کو ٹوٹنے سے بچانے کی ناکام کو شش کرتے رہے ایک طرف قائم علی شاہ اور اُن کے صاحبزادے مراد علی شاہ پا نچ پانچ وزارتوں کے ساتھ جمہوریت کا دفاع کرتے رہے یا مال بناتے رہے تو دوسری طر ف آصف علی زرداری کے منہ بولے شُتر بے مہار بھائی اویس مظفر ٹپی بڑے بھائی آصف علی زرداری کی نوازشوں کا صرف پورا ہی نہیں بلکہ تھوڑا زیادہ ہی احسان کا بدلہ چُکاتے رہے عوامی وسائل پہ اجارہ داری کا یہ کھیل جاری تھا کہ سانحہ پشاور رونما ہو گیا جس میں معصوم اور بے گناہ جانیں جان آفرین کے سُپردہو گئیں جس کے بعد پھر ایک مردِ قلندر اٹھا پھر ایک مر دِ حُر اٹھا جس نے قسم کھائی کہ میں اس پاک سرزمین کو معصوم اور نہتے پاکستانیوں کے خون سے رنگین نہیں ہونے دونگا جس نے عہد کیا کہ اس ملک کا وہ مقتدر طبقہ جو ملکی وسائل کو با پ کی جاگیر سمجھ کر بے دریغ استعما ل کرتا ہے املاک اور جاگیریں بنا تا ہے اُسے کیفر کردار تک پہنچاؤں گا پھراہل جہاں نے دیکھا کہ چشم زدن میں زرداری اینٹ سے اینٹ بجا نے چلے آئے پھر الطاف حسین،، را ،، سے مد دکا سوال کرتے نظرآئے پھر آج اور کل اور نقاب اٹھتے گئے سندھ کے سائیں حواس باختہ دکھائی دینے لگے جو جس کا تھا اُسی کے ساتھ ہمدردیاں دکھاتا ہوانظرآیا مگر پا کستان کی عوام اُس سپہ سالاراعظم محسن اکبر چیف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف کے شانہ بشانہ کھڑی ہوگئی اور آج بھی کھڑی ہے اور انشااللہ تاابد کھڑی رہیگی مگر سوال یہ ہے تما م سیاسی جماعتیں کس کی پردہ داری میں لگی ہوئی ہیں کچھ نہ کچھ تو وہ ہے جس کی پردہ داری کررہی ہیں وہ ہے کرپشن اقرباء پروری میرٹ کا استیحصال جو ہر دور میں ہوتا رہا مگر جس جذبے جو ش اور ولولے کیساتھ جنرل راحیل شریف اور پاک آرمی کے عظیم سپوت دہشت گردی کرپشن لوٹ مار کے گھناؤنے دھندے کے اصل کرداروں کو نکیل ڈال رہی ہے انشااللہ وہ وقت دور نہیں جب وطن عزہز حقیقی معنوں میں قائداعظم محمد علی جناح ؒ اور اقبال ؒ کا پاکستان ہو گا مادروطن کے قلم کاروں کا فرض ہے قلم کی طاقت سے دشمن کو مات دیں ذاتی مفادات کی جنگ چھوڑ کرسب ملکر پاک آرمی کے شانہ بشانہ ملکی مفا دکیلئے قد م سے قدم ملا کر آگے بڑھیں انشااللہ وہ وقت دور نہیں جب پاکستان بھی دنیا کے عظیم پُرامن اور ترقی ایفتہ ممالک کی صف میں کھڑ اہوگا خالق لم یزل پاک آرمی کے سپہ سالار اعظم جنرل راحیل
شریف اور مسلح افواج کے جوانوں کی حفاظت فرمائے آمین
پاک آمی زندہ آباد
پاکستان زندہ آباد