بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے دورہ امریکہ کے متعلق لکھنے کا ارادہ تھا کہ اچانک فیس بک پر ایک اشتہار دیکھا جس کو دیکھتے ہی ہاتھ جیسے کانپنے لگے ہو ، قلم کی سیاہی جیسے سکڑ ہی گئی ہو، سینے میں درد سا اٹھا ، روح پہ لرزا سا طاری ہو گیا اور پورے جسم کے رونگٹے کھڑے ہو گئے آنکھوں کی نمی سے لکھنے کی کوشش کی جو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتی کیونکہ منظر کشی ہی ایسی ہے جسے دیکھ کر انسان دنگ رہ جاتا ہے۔اس آواز کو سمجھنے کے لئے دل کی گہرائی سے سننا اور محسوس کرنا پڑے گا اس آواز کی کیفیت کسی بھی انسان کی روح کو جھنجھوڑ دیتی ہے۔
اللہ میاں امی کہتی ہیں آپ کو سب پتا ہے آپ تو جانتے ہیں نا کہ گھر میں میری سب کو کتنی ضرورت رہتی ہےدادا ابو اکیلے سیڑ یاں نہیں چڑھ سکتے انکا ہاتھ بھی تو پکڑنا ہوتا ہے بابا جب شام کو آفس سے گھر آتے ہیں میں نے ہی تو انکو پانی دینا ہوتا ہے اور امی جب بازار جاتی ہیں انکے ساتھ بھی تو جانا ہوتا ہے آخر انکا بڑا بیٹا جو ہوں اللہ میاں مجھے گھر واپس جانا ہے اگر میں نہ رہا تو گھر کا کیا ہو گا اور ویسے بھی مجھے امی کے بغیر نیند نہیں آتی۔
یہ شوکت خانم کینسر ہسپتال میں زیر علاج صرف حذیفہ کی مختصر ، جامعہ اور حقیقت پر مبنی کہانی ہی نہیں ہے جو ہمارے معاشرے کی عکاسی کرتی ہے یہ پاکستان میں ہزاروں خاندان کی سچی اور رقت آمیز داستان ہے جن کی تفصیلات میں شائد لکھتے لکھتے کئی ماہ گزر جائے لیکن دل کا بوجھ ، آہو پکار ، بے بسی و لاچاری شائد پھر بھی کم نہ ہو کیو نکہ کینسر کا علاج معالجہ اتنا مہنگا ہے کہ غریب آدمی کی بس کی بات کہا لیکن اکثر اوقات کہا جاتا ہے کہ پاکستان کا وجود اور قائم رہنا از خود ایک معجزہ ہے شائد شوکت خانم جیسا اعلی معیار کا ہسپتا ل پاکستان جیسے ملک میں اور وہ بھی جس کا سالانہ خسارہ تین ارب پچاس کروڑ ہو اور پھر پشاور میں چار ارب روپے کی لاگت سے ایک اور ہسپتال کا قائم کرنا کسی بڑے معجزے سے کم نہیں ہے اللہ دشمن کو بھی اسکی پناہ سے محفوظ رکھیں ۔ آمین ۔
کچھ سال پہلے تک تو پاکستان میں غریب آدمی اس مرض میں مبتلا ہوتا تو سن کر ہی خاندان والے زندگی کی امید چھوڑ دیتے کیونکہ گھر میں روٹی نہ ہو تو لاکھوں روپے علاج پر کہاں سے لگائے جائیں کچھ لوگ اپنا گھر بار بیچ کر لگا دیتے لیکن بد قسمتی سے پھر بھی پورا علاج نہ کروا سکتے۔ پھر پاکستان کی تاریخ میں وہ دن بھی آیا جب لاہور میں کینسر کے مرض میں مبتلا ایک بچی نے ایک ایسے ہسپتال کا افتتاح کیا جو اللہ کے فضل و کرم اور ہسپتال کے ڈاکٹروں کی وجہ سے صحت یاب ہو کر آج اسی ہسپتال میں نرس کے فرائض سر انجام دے رہی ہے۔ اور پھر پچھلے بائیس سال سے مسلسل غریب لوگوں کا مفت کینسر جیسی جان لیواء بیماری کا علاج ہو رہا ہے جس پر سالانہ عربوں روپے لگائے جاتے ہیں لوگوں کو شوکت خانم میں زندگی کی کرنیں نظر آتی ہیں اور زندگی کی یہ حسین روشنیاں ہم سب کے تعاون سے ہی ممکن ہو پا رہی ہیں۔
اسلام کے پانچ بنیادی رکن میں سے ایک زکوۂ ہے جو صاحب اطاعت ہر مسلمان پر فرض ہے ہمیں کسی بھی فرقہ ، سیاسی وابستگی، اور ذاتی مفادات سے بالا تر ہو کر سوچنا ہے کہ تصور کریں خو دانخواستہ آج شوکت خانم ہسپتا ل نہ رہے تو پاکستا ن میں کیا کوئی بھی غریب آدمی علاج کروا سکتا ہے سوال ہی پیدا نہیں ہوتا سوائے چھوٹے سے طبقے کے۔ ابھی بھی ہماری منزل بہت دور ہے کیونکہ مریضوں کی تعداد بہت زیادہ ہے جب تک یہ مرض پاکستان کی ہر کچی آبادی سے لیکر محلات تک ختم نہیں ہو جاتا ہمیں یہ جدو جہد جاری رکھنی ہے۔ رمضان کے اس با برکت مہینے میں اپنی زکوتہ و عطیات شوکت خانم کینسر ہسپتال کو دیں تاکہ پاکستان میں موجود کینسر کے تمام مریضوں کا علاج ہو سکے ۔ جزاک اللہ