کچھ دنوں سے جو واقعات پیش آ رہے ہیں ان کو دیکھ کہ اقبال کا ایک شعر یا د آ گیا شاعر مشرق لکھتا ہے کہ
قوم اپنی جو زر و مال جہاں پر مرتی
بت فروشی کے عوض بت شکنی کیو ں کرتی
پچھلے کچھ دن سے میڈیا کے کچھ لوگوں کا کردار دیکھ کر بڑا افسوس ہوا لاہور کا ضمنی الیکشن شروع ہو نے سے پہلے ارشد شریف نے ایک پروگرام کیا جس میں عمران خان اور تحریک انصاف پر الزام لگا یا گیا کہ ان کو پیسہ یہودیوں اور پتا نہیں کہا ں کہاں سے آتا ہے میں اس وضاحت میں نہیں جاتا کہ تحریک انصا ف بیرون ملک سے پیسہ کیسے اور کہا ں سے اکٹھا کرتی ہے کیو نکہ بات یہ نہیں ہے میرا مسئلہ یہ ہے کہ آپ نے عمران خان کو یہودیوں اور مغربی غیر مسلم طاقتوں کا ایجنٹ قرار دے دیا اب بندہ کس دیوار سے سر ٹکرائے اب اس سے بڑا مزاق اور کیا ہو سکتا ہے کسی کو بھی آپ کی طرز سیاست اور پالیسیوں پر اختلاف ہو سکتا ہے اور وہ ہر انسان کا حق ہے لیکن یہاں تو گنگاہ ہی الٹی بہتی ہے سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ ارشد شریف جیسے نوجوان صحافی کو اچانک کیا ہو گیا موصوف آج کل ہر پروگرام میں بیٹھ کر ایسا ظاہر کرتے ہیں کہ شائد پاکستان کے سارے بحران تحریک انصاف یا عمران خان کے پیدا کئے ہو ئے ہی ہو ں انکی باتیں سن کے لگتا ہے کہ پچھلے تیس سالوں سے تحریک انصاف بار بار اقتدار کے مزے لوٹتی رہی ہے اور ملک کو تباہ و برباد کر دیا ہے پھر جب پتہ چلا کہ جناب عرفان صدیقی صاحب کے داماد ہیں جو کہ وزیر اعظم کے خصوصی مشیر ہیں تو بات کچھ سمجھ میں آنا شروع ہوئی کیو نکہ انکے نام کے ساتھ بھی شریف لگتا ہے تو آج کل وہ بھی اپنے آپ کو شریف فیملی کا حصہ سمجھ رہے ہیں
اور دوسری طرف چاوید چوہدری ساحب نے لکھا کہ لاہور کا الیکشن عمران خان کے منشور پر عوام کا عدم اعتماد ہے عمران خان ملک میں الزامات ، بد زبانی ،گالیوں اور میں نہ مانو ں کے امام ہیں انکا مزید کہنا تھا کہ کوئی سمجھدار آدمی پانچ منٹ سے زیادہ انکی تقریر نہیں سن سکتا اور وہ اپنے کنوں کو زبان سے خود آگ لگا دیتے ہیں غرض یہ کہ عمران خان کا ملک کا سب سے بد تمیز ، الزام تراش اور گلی محلے کو اوباش اور آوارہ لونڈے کی طرح پیش کیا گیا اور ناچ گانو ں کا طعنہ بھی دیا گیا اور حقیقت کے بر عکس اپنا فیصلہ بھی سنا دیا کہ عوام ان کے اس رویے سے نفرت کرتے ہیں اس لئے لوگو ں نے عمران خان کا ساتھ نہیں دیا
لیکن میں چوہدری صاحب سے پوچھتا ہو ں کہ کیا کرپشن اور لو ٹ کھسوٹ کے خلاف آوازاٹھانا بدتمیزی ہے جو عوام کے پیسو ں پر بادشاہوں کی طرح عیاشیاں کر رہے ہیں اور ملک سے دولت اکٹھی کر کے باہر لیجا رہے ہیں انکو چور اور ڈاکوں نہ کہا جائے تو اور کیا کہا جائے عمران خان کو ئی آصف علی زرداری کا بھائی نہیں ہے کہ اپنا حصہ لیکر مان جائے وہ حق اور سچ کی بات پر ڈٹ جاتا ہے چاہے جو بھی قیمت ادا کرنا پڑے تو آپ کو لگتا ہے کہ میں نہ مانوں والی بات ہے یعنی آپ یہ سبق دے رہے ہیں کہ کچھ مال پانی جیب میں ڈالو اورچپ کر جایا کرو اور کسی کو لاہور کی گلیوں میں گھسیٹنا بھی ہو تو شہباز شریف کی طرح گلے میں پھولوں کے ہار ڈال کر اور پھر عمران خان کا یہ بھی قصور ہے کہ اس نے پاکستان کی سیاست میں خواتین کو سیاسی شعور دیا اور اپنے حقوق کے لئے لڑنا سیکھایا لیکن ان جیسے نام نہاد روشن خیال لوگو ں سے اب یہ بھی ہزم نہیں ہو رہا اور یہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ عوام نے عمران خان کی سیاست پر عدم اعتماد کا اظہار کر دیا ہے اس کا حقیقت سے تو دور دور تک کوئی تعلق واستہ نہیں ہے کیو نکہ اگر ایسا ہوتا تو بے نظیر انکم سپورٹ کے پیسے نقدی کی صورت میں وہاں پر نہ بانٹے جاتے اور نہ ہی ریلوے وزیر ملازمین کو نوکری سے نکالنے کی دھمکیا ں دیتا اور سارے وزیر مشیر اس ایک حلقے پہ نہ لگے ہوتے اور نہ ہی صوبائی اور وفاقی اداروں کو وہاں پر لگایا جاتا اور تو اور وزیر اعظم صاحب کو بھی لاہور کے اس حلقہ کا دورہ کرنا پڑھ گیا اور بڑے بڑے اعلانات کئے گئے یہاں تک کے ماضی کی زیادتیوں کا رونا بھی روتے رہے اتنا کچھ کرنے کے باوجود فرق صرف اور صرف چوبیس سو ووٹوں کا اور وہ بھی علیم خان سے بقول چوہدری صاحب کے جس میں تمام برائیاں پائی جاتی ہیں اگر عمران خان خود ہوتا تو شائد وہ اس سے کہیں زیادہ ووٹوں سے آسانی سے جیت جاتا اور میاں صاحب کا اپنہ قریبی رشتہ دار اپنی سیٹ ہار گیا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ لاہور کی عوام نے عمران خان پر نہیں بلکہ لاہور کو پیرس بنانے والوں کی طرظ سیاست پر عدم اعتماد کیا ہے جس کے اثرات آنے والے بلدیاتی انتخابات پر بھی ہو نگے