بچے کسی پودے کی ٹہنی پرلگے ان پھولوں کی مانند ہو تے ہیں جوصبح کی ٹھنڈی ہوا کے چلنے سے جھومتے بھی ہیں اورخوب مہکتے بھی۔ان کی یہ مہک سارے ماحول میں اک دلکشی سی پیدا کردیتی ہے ۔یہ پھول بہت ہی نازک ہوتے ہیں ذرا سی سختی برداشت نہیں کرتے کہ مرجھا جاتے ہیں یہ سختی چاہے موسم کی ہو یا معاشرے کی ۔مو سم تو خیر قدرت کا معاملہ ہے مگر معاشرے کا وجودتو ہم سب سے ہے۔ان پھولوں کی حفاظت ہم سب کی ذمے داری ہے ۔اس ذمے داری کا احساس کرتے ہوئے انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن دنیا بھر12جون کو چائلڈلیبر ڈے منانے کا آغاز کیا۔پاکستان سمیت دنیا بھر میں ہر سال 12جون کو چائلڈلیبرکے خلاف دن منایا جاتا ہے۔جس کا مقصد دنیا بھر میں بچوں کو محنت و مشقت سے روکتے ہوئے ان کیلئے تعلیم جیسی بنیادی سہولت اورچائلڈ لیبر سے متعلق قوانین پر عملدرامد یقینی بناناہے۔ 12جون کو انٹرنیشنل لیبر آرگنائز یشن سے اظہاریکجہتی کرتے ہوئے دنیا کے کئی ممالک میں یہ دن منایا جاتا ہے۔پاکستان میں بھی ہر سال اینٹی چائلڈ لیبر کے حوالے سے ایک دن منا یا جاتاہے۔اس دن 12جون کو چائلڈ لیبر کے خلاف سرکاری اور مختلف این ۔جی ۔اوز کی جانب سے سیمینار ہوتے ہیں،ریلیاں نکالی جاتی ہیں مگر یہ صرف ایک دن کے نمائشی شو کی حیثیت رکھتی ہیں کیونکہ پھر پوا سال یہ سرکاری ادارے اور غیر سرکاری تنظیمیں خواب غفلت میں رہتے ہیں۔ اس طرح ایک دن منانے ، سیمینار اور ریلیاں نکالنے سے کبھی چائلڈلیبر جیسی لعنت ختم یا کم نہیں ہوسکتی ۔جس کا ثبوت یہ ہے کہ پاکستان سمیت دنیا بھر میں مزدور بچوں کی تعداد میں روز بہ روز اضافہ ہو تا جا رہا ہے۔دنیا بھر میں 25کروڑ کے قریب بچے محنت مزدوری کر رہے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں بھی ڈیڑھ کروڑ بچے غربت کی وجہ سے کاپی ،قلم اور سکول سے دور محنت مشقت کرنے پر مجبور ہیں۔چائلڈ لیبر کے ذمے دار معاشرے کے تین فریق ہیں۔پہلے نمبر پر مزدوربچوں کے والدین دوسرے نمبر پر وہ لوگ جو بچوں سے کام لیتے ہیں اور نمبر تین پر حکومت۔ پہلے بات کی جائے بچوں سے مزدوری کروانے والے والدین کی تو وہ غربت کے ہاتھوں مجبور ہوتے ہیں۔یہ حقیقت ہے کہ کوئی بھی صاحب حیثیت آدمی یقیناًاپنے بچوں کی اچھی تعلیم و تربیت کا بندوبست کرے گاوہ کبھی بھی نہیں اپنے بچوں کو محنت و مشقت کی چکی میں ڈالے گا۔اگر کسی گھر میں ایک کمانے والا ہے تو آج اس مہنگائی کے دورمیں وہ کیسے گھرکے باقی 5یا 7افراد کا پیٹ بھرے گا یہ نا ممکن ہے۔ اس کے روزانہ کے 3یا4سو سے گھر کا خرچ نہیں چلنے والا۔اُس کو گھر کا سسٹم چلانے فاقوں سے بچنے کیلئے مجبوراٌیا تو اُسے کوئی غلط قدم اُٹھانا پڑے گا یاتو وہ چور چکاری کا دھندہ اپنائے گا یا اپنے ننھے بچوں کو مزدوری پر لگائے گا۔نہی تومجبواٌغربت ،تنگ دستی ،بے روزگاری سے تنگ آ کراپنا زندگی کا خاتمہ کر نا ہو گا۔ دوسری جانب بات کی جائے ان افراد کی جو اپنی صنعتوں،کارخانوں، کھیتوں،ہو ٹلوں اور گھروں میں بچوں سے کام لیتے ہیں تو جناب ان افرادکو چائلڈ لیبر کاکا فی فائدہ ہو تا ہے۔ یہ غریب کی مجبوری سے فائدہ اُٹھاتے ہو ئے ان کے بچوں سے پورا کام لیتے ہیں اور تھوڑی اُجرت دیتے ہیں۔یہ لوگ بچوں سے مزدوری توکر وا رہے ہوتے ہیں ساتھ ساتھ ان پر ظلم و جبر بھی کرتے ہیں کوئی چھوٹی مو ٹی غلطی پران کو تشدد کا نشانہ بنا ڈالتے ہیں ۔جس سے ان کی باقی زندگی کو اجیرن بنا دیا جاتا ہے۔اس طرح کے کیسیز میں دن بہ دن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ مزدور تو جناب مجبور ہوتا ہے یہ بچے مار کھا کر تشدد برداشت کر کے بھی اپنے کام کاج پر جاتے ہیں۔اس طرح کے لوگوں میں ہمارے بڑے بڑے سیاست دان بھی شامل ہیں جن کے کار خانوں،صنعتوں اور کھیتوں میں یہ ننھے مزدور اپنے خون پسینہ بہا کر ان کا سکون مہیا کیا ہوا ہے۔۔یہ نام نہاد عوامی نمائندے اس ہی لیے چائلڈ لیبر کے قوانین میں اصلاحات کے حق میں نہیں کیونکہ اس میں ان کابھی کافی نقصان ہے۔ اگر اب تیسرے اور آخری فریق کی بات کریں تو وہ چائلڈ لیبر کے ہونے اور بڑھنے کی بڑی ذمے دار ہے۔تو وہ ہے …… …؟ جی ہاں حکومت۔حکومت کی جانب سے بڑھتے ہوئے مہنگائی کے سیلاب اوراس کی غریب کُش پالیسیوں نے عام آدمی سے جینے کا حق چھین لیا ہے۔آج غریب اپنے بچوں کو دو وقت کی روٹی تک نہیں کھلا سکتاوہ کیسے اُن کو زیور تعلیم سے آراستہ کرے وہ بچوں کے اچھے مستقبل کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ہماری حکومت کی جانب سے بڑھتی ہومہنگائی اور مہنگی تعلیم،غریب کُش پالیسیاں ہی چائلڈ لیبر کی بڑی وجہ ہے۔ جبکہ ہماری حکومت ہر سال 12جون کو چائلڈ لیبر کی مذمت کرتی ہے چائلڈ لیبر کے خلاف میڈیا میں اشتہارات دیتی ،سرکاری سطح پر سیمینار منقعد کرواتی ہے ۔مگر یہ حکومت کے یہ اقدامات چائلڈ لیبر کو روکنے یا کم کرنے کیلئے نہیں بلکہ ایک نمائش یا فیشن کے طور پر کرتی ہے۔کہا جاتا ہے کہ یہ ریلیاں اور سیمینار عوام میں شعور پیدا کرنے کیلئے منعقد کیے جاتے ہیں کیالوگوں میں شعور آنے سے کبھی چائلڈ لیبر کم ہو سکے گی۔ اس ملک کے 45% لوگ غربت کی لکیر سے نیچے کی زندگی گزارنے پر مجبورہیں۔کیا لوگوں میں شعور آ جانے سے ان کی معاشی قوت بڑھ جائے گی کہ جس سے وہ اپنا گھر کا دو وقت چولہابھی جلائیں گے اور بچوں کی اچھی تعلیم و تربیت بھی کریں گے یقیناٌ نہیں۔وزیر اعظم صاحب آپ سمیت کوئی وزیر مشیر عوامی حالت ذار کو نہیں جانتا ۔آپ بڑے بڑے محلات میں رہتے ہیں بڑی بڑی گاڑیوں میں سفر کرتے ہیں۔ جن روٹ پر آپ چلتے ہیں وہاں دور دور تک کو ئی غریب ہو تا ہی نہیں۔آپ غربت اور غریب کے بارے میں کیا جانے آپ کو ان کی بے بسی کا کیاپتا۔جناب نواز شریف صاحب خدارا غریب عوام کا کچھ تو خیال کریں ان کے مستقبل کا احساس کریں۔ آج غریب پیٹ بھر کے کھانا کھانے کے قابل نہیں رہا۔ اس کیلئے گھر کا راشن پورا کرنا ہی ممکن نہیں رہا توبچوں کو سکول کیسے بھیجے۔ وزیر اعظم صاحب آپ کو چائلڈ لیبرجیسی لعنت کے خاتمے کیلئے ٹھوس اقدامات اُٹھانے ہونگے۔لوگوں کو معاشی طور پر مضبوط کر نا ہو گا تاکہ وہ اس قابل ہو جائیں کہ وہ بچوں کی دو وقت کی روٹی کا بندوبست آسانی سے کر سکیں اگر عوام کے معاشی حالات بہتر ہونگے تو وہ خود بچوں کی فکر کریں گے اور بچوں کو تعلیم دلوائیں گے۔جب یہ بچے تعلیم حاصل کریں گے تب ہی ہم پاکستان کے روشن مستقبل کی اُمید کر سکتے ہیں۔